روئی کی بڑھتی ہوئی طلب کے باعث قیمت میں تیزی سے اضافہ

احتشام مفتی  پير 28 ستمبر 2020
ملک میں معیاری روئی کی محدود دستیابی کے باعث ٹیکسٹائل ملز مالکان نے روئی درآمد کرنے کے معاہدے شروع کردیئے (فوٹو: فائل)

ملک میں معیاری روئی کی محدود دستیابی کے باعث ٹیکسٹائل ملز مالکان نے روئی درآمد کرنے کے معاہدے شروع کردیئے (فوٹو: فائل)

 کراچی: ٹیکسٹائل سیکٹر کی مقامی برآمدی صنعتوں کی پوری استعداد کے ساتھ پیداواری سرگرمیوں اوربڑھتی ہوئی طلب کے باعث روئی کی قیمتوں میں زبردست تیزی کا رجحان غالب ہوگیا۔

ذرائع نے بتایاکہ ٹیکسٹائل سیکٹر کے مقامی برآمد کنندگان کو اپنے بیرونی خریداروں کی جانب سے مختلف ویلیوایڈڈ ٹیکسٹائل پراڈکٹس کے نئے برآمدی آرڈرز موصول ہورہے ہیں لیکن ان نئے آرڈرز کی تکمیل کے لیے ملک میں معیاری روئی کی دستیابی محدود ہے جس کے باعث ٹیکسٹائل ملز مالکان نے بڑے پیمانے پر روئی درآمد کرنے کے معاہدے شروع کردیئے ہیں۔

چیئرمین کاٹن جنرز فورم احسان الحق نے بتایا کہ ٹیکسٹائل ملوں کی جانب سے ایک بار پھر روئی کی بھرپور خریداری شروع ہونے سے گزشتہ ہفتے کے دوران پاکستان میں روئی کی قیموں میں زبردست تیزی کا رجحان سامنے آیا ہے اور فی من روئی کی قیمت میں 200 سے 250 روپے کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے نتیجے میں پنجاب میں فی من روئی کی قیمت بڑھ کر 9 ہزار 250 روپے جبکہ سندھ میں 9 ہزار 100 روپے کی سطح تک پہنچ گئی ہے، توقع ہے کہ رواں ہفتے روئی کی قیمتوں میں مزید اضافےکا رجحان سامنے آنے کا امکان ہے۔

انہوں نے بتایا کہ کورونا کے باعث متعدد یورپین ممالک نے بنگلہ دیش اور بھارت کی بجائے اب پاکستان سے مختلف ٹیکسٹائل پراڈکٹس خریدنے میں دلچسپی کا اظہار کیا ہے جس کے باعث پاکستانی ٹیکسٹائل ملز کے پاس اس وقت تاریخ کے سب سے زیادہ برآمدی آرڈرز موجود ہیں تاہم اندرون ملک معیاری روئی کی محدود دستیابی کے باعث بڑے ٹیکسٹائل گروپس نے بیرون ملک سے روئی درآمدی معاہدے کرنا شروع کر دیئے ہیں اور توقع ظاہر کی جا رہی ہے کہ اگلے 40 روز کے دوران یہ درآمدی روئی پاکستان پہنچنا شروع ہو جائے گی۔

انہوں نے بتایا کہ بیشتر ٹیکسٹائل گروپس برازیل، امریکا اور تنزانیہ سمیت دیگر چند افریقی ممالک سے روئی درآمد کرنے کے معاہدے کر رہے ہیں، وزارت خزانہ نے پچھلے چند ماہ کے دوران ٹیکسٹائل انڈسٹری کے پچھلے کئی برس سے رکے ہوئے انکم اور سیلز ٹیکس ریفنڈز کی ادائیگی شروع کر دی ہے جبکہ بنک مارک اپ کی شرح میں بھی نمایاں کمی کے باعث ٹیکسٹائل انڈسٹری اب مالی طور پر کافی مستحکم دکھائی دے رہی ہے جسے ٹیکسٹائل انڈسٹری کی بہتری کی ایک بڑی وجہ سمجھا جا رہا ہے تاہم برآمدی ٹیکسٹائل سیکٹر کے زیرو فیصد اسٹیٹس بحال ہونے سے ملکی ٹیکسٹائل برآمدات میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔

احسان الحق نے بتایا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو ملک بھر میں کراپ زوننگ قوانین پر سختی سے عمل درآمد شروع کروانا چاہیے تاکہ کاٹن زونز میں گنے کی کاشت مکمل طور پر ختم ہونے سے پاکستان نہ صرف کپاس کی پیداوار میں خود کفیل ہو سکے بلکہ گنے کی کاشت انتہائی محدود ہونے سے لاکھوں ملین ایکڑ پانی کی بچت کے ساتھ ساتھ ماحولیاتی آلودگی میں کمی سے پاکستانی روئی کا معیار بھی بہتر ہونے سے روئی کی درآمد مکمل طور پرختم ہونے سے سالانہ اربوں ڈالر کا زر مبادلہ بچایا جا سکے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ پنجاب بھر کپاس کی فصل پر اس وقت سفید مکھی اور گلابی سنڈی کا شدید حملہ بتایا جا رہا ہے جس سے کپاس کی فی ایکڑ پیداوار کم ہونے کےساتھ اس کا معیار بھی متاثر ہونے کا خدشہ ہے اس لیے محکمہ زراعت کو چاہیے کہ وہ ہنگامی بنیادوں پر سفید مکھی کو کنٹرول کرنے کے لیے اقدامات کرے تاکہ کپاس کی فصل محفوظ رہ سکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔