ابھی کچھ اور گفتگو ہے باقی

نسیم انجم  بدھ 18 دسمبر 2013
nasim.anjum27@gmail.com

[email protected]

پچھلے دنوں جب ہمارا کالم ’’کراچی کا ادبی میلہ‘‘ کے عنوان سے شایع ہوا تو کئی فون تواتر کے ساتھ ہمارے پاس آتے رہے، تقریباً سب کو اس بات کا گلہ تھا کہ ہم نے ’’چھٹی اردو عالمی کانفرنس‘‘ کے حوالے سے تعریف کے ڈونگرے برسا دیے، بہت سی اہم باتیں اور کیے جانے والے وعدے تھے انھیں ضرور زیر بحث لانا چاہیے تھا اپنے کرم فرماؤں کی کچھ باتیں ہمارے دل کو لگیں اور اسی دل لگی نے کالم لکھنے پر مجبور کر دیا۔ بات سچی اور کھری تھی وہ یہ کہ آرٹس کونسل کے صدر احمد شاہ نے اپنے ممبران سے یہ بات کہی تھی کہ وہ کانفرنس میں پڑھے جانے والے مقالوں کو کتابی صورت میں پیش کریں گے، یہ بات بھی شک و شبے سے بالا تر ہے کہ کسی بھی ادبی تقریب میں تمام مضامین قابل توجہ اور قابل مطالعہ نہیں ہوتے ہیں نہ ان مضامین میں علمیت ہوتی ہے اور نہ فکر کے موتیوں سے آراستہ ہوتے ہیں، یہ مقالہ نگار اسٹیج پر محض تعلقات و سفارش کی بناء پر پہنچتے ہیں، ہر صاحب اختیار کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ اس کا چاہنے والا ہی آگے آئے، لیکن ان تمام مقالات میں کئی مقالے ایسے بھی ہوتے ہیں جنھیں سن کر دوبارہ سننے یا پڑھنے کا جی چاہتا ہے، اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کس طرح ان تحریروں سے استفادہ کیا جائے؟ میرا خیال ہے کہ نہ یہ مضامین دوسرے رسائل و جرائد میں شایع ہوتے ہیں اور نہ ہی کتابی شکل میں منظر عام پر آتے ہیں اس طرح یہ مایوس کن صورت حال ہو جاتی ہے۔

ایک خاص بات یہ کہ آرٹس کونسل سے جو کتابیں شایع ہوتی ہیں ان کتابوں کو اپنے ممبران کے لیے نصف قیمت پر کر دینا اہل ادب کی قدردانی اور تعاون کے اظہار کا بہترین ذریعہ بن سکتا ہے۔ تا کہ وہ لوگ بھی خرید سکیں جو نامساعد حالات کی بنا پر خریدنے سے قاصر رہتے ہیں۔

دوسری ایک اور بات اس چار روزہ کانفرنس میں طویل نظم نگاری کے حوالے سے کوئی پروگرام منعقد نہیں کیا گیا۔ اردو شاعری میں نظم کی اپنی جگہ اہمیت مسلم ہے۔ طویل نظم نگاری مولانا الطاف حسین حالی اور ان کی طویل نظم ’’مسدس حالی‘‘ جو کہ مسلمانوں کے عروج و زوال کی داستان ہے، اس قدر شاندار نظم کو بھلا کون فراموش کر سکتا ہے آج کے دور میں بھی بہت ہی معتبر اور عالی مرتبت شعرا موجود ہیں، محترم جمیل الدین عالی کو ہی لے لیجیے، ان کی حال ہی میں طویل نظم کتابی شکل میں شایع ہوئی ہے اور پھر حمایت علی شاعر، عقیل احمد فضا اعظمی، یہ ہمارے عہد کے بڑے شعرا ہیں۔

فضا اعظمی کی طویل نظموں پر مبنی کتب شایع ہوتی رہتی ہیں۔ ان کے لیے ایک خوبصورت پروگرام ترتیب دیا جا سکتا تھا، کتابوں کی تقریب رونمائی کے حوالے سے بھی یہ بات اہل قلم کہنے میں حق بجانب ہیں کہ شہر نگاراں میں بے حد قابل ذکر کتابیں خصوصاً شعر و ادب اور سفرناموں کے حوالے سے منظر عام پر آئی ہیں۔ لیکن آرٹس کونسل کے قابل قدر لوگوں کی نگاہ ان تخلیقات تک نہیں پہنچتی ہیں۔

عالمی اردو کانفرنس میں کچھ حضرات ایسے ہیں جنھیں باقاعدگی کے ساتھ مدعو کیا جاتا ہے یا کہنا چاہیے وہ ہی چھائے رہتے ہیں اس دفعہ مستنصر حسین تارڑ اور عبداللہ حسین کو مدعو کر کے خوشگوار تبدیلی لانے کی کوشش ضرور کی گئی ہے۔ جو کہ یقیناً ایک اچھا قدم ہے۔

ہمارے ایک بہت ہی اچھے تخلیق کار ہیں۔ ان کا کہنا یہ تھا کہ کانفرنس کے انعقاد کی مجموعی افادیت کا تذکرہ بھی ضروری ہے کہ اس قسم کی کانفرنسوں کے انعقاد سے کون کون سے لوگ استفادہ کرتے ہیں اور فنون لطیفہ سے تعلق رکھنے والوں کے کیا مسائل حل ہونے کے آثار نظر آتے ہیں، کیا اندھیرے میں کوئی امید کی کرن چمکنے کے امکانات ممکن ہیں؟ اور کیا آرٹس کونسل کے منتظمین اپنی ذمے داریوں کو احسن طریقے اور انصاف کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے سمجھانے میں کامیاب ہوئے ہیں؟ کسی قابل انسان کا استحصال تو نہیں ہوا ہے؟ ان ادیب و شعرا کو بھی مواقع ملنے ضروری ہیں جو حقیقی معنوں میں اس کا استحقاق رکھتے ہیں۔

چھٹی عالمی اردو کانفرنس میں قراردادیں بھی پیش کی گئیں جنھیں شرکا نے جوش و خروش کے ساتھ منظور کر لیا۔

ایک قرارداد میں معاشرے میں ’’امن‘‘ قائم رکھنے اور جنگ سے نفرت کرنے کا اعلان کیا گیا، پاکستان کی درسگاہوں میں اردو کو ذریعہ تعلیم بنانے کی بات اور اس بات کی بھی وضاحت کی گئی کہ انگریزی زبان کی اہمیت مسلم ہے اسی طرح نئی تہذیب اور نئے نئے علوم سے واقفیت بھی ضروری ہے لیکن پاکستانیوں کی شناخت اپنی قومی زبان اردو بولنے سے ہی ہے۔

قرارداد کے ذریعے یہ مطالبہ بھی کیا گیا کہ پاکستانی معاشرے سے تشدد اور دہشت گردی کو ختم کرنے کے لیے مذاکرات و مقالات کا راستہ اختیار کیا جائے اور فنون لطیفہ کو فروغ دینے کی بھی ضرورت ہے یوں تو تمام باتیں قابل غور اور اہم ہیں جن کے کرنے سے جبر کی فضا ختم ہو سکتی ہے یہ نکتہ بھی قلمکاروں، رسائل کے مدیروں کے لیے بے حد اہمیت کا حامل ہے کہ پاکستان اور ہندوستان کے درمیان کتابوں، رسائل اور تخلیق کاروں کی آمد کو آسان بنائیں اور پولیس رپورٹنگ سے مستثنیٰ ویزے فراہم کیے جائیں ڈاک کے اخراجات میں کمی کی بات ہوئی۔

فی زمانہ ڈاک کا خرچ اس قدر زیادہ ہے کہ ایک ملک سے دوسرے ملک کتابیں بھیجنا مشکل ترین مرحلہ ہے ایک کتاب یا رسالہ بھیجنے کے لیے کم از کم 300 اور رجسٹری ہے تو چار سو ساڑھے چار سو کی رقم درکار ہو گی، اگر کتابوں و جرائد کی تعداد زیادہ ہے، تب ہزاروں روپے کا خرچ آئے گا، لہٰذا ڈاک کے خرچ کی وجہ سے ادھر کی کتابیں ادھر نہیں اور وہاں کی کتب یہاں نہیں پہنچ پاتی ہیں یہ یقینا بہت بڑا المیہ ہے۔ ہماری حکومت کو اس بات کا ذرا سا بھی احساس نہیں ہے، اب آرٹس کونسل کی طرف سے اس مشکل مرحلے کو سامنے لایا گیا ہے تو امید ہے کہ اس معاملے کی طرف توجہ دی جائے اور ادیبوں و شاعروں کے گمبھیر مسائل کو سلجھایا جا سکے۔ سرکاری لائبریریوں کی خستہ حالی اور بے توجہی کی طرف بھی بذریعہ قرارداد یاد دہانی کرائی گئی کہ گورنمنٹ کی بنائی ہوئی لائبریریاں خستہ حالی کا شکار ہیں، ویسے تو سرکاری عمارتیں بھی کھنڈرات میں بدل گئی ہیں کسی بھی سرکاری محکمے میں چلے جائیے، بڑا ہی برا حال نظر آئے گا، ٹوٹی پھوٹی میزکرسیاں اور بوسیدہ فائلیں بغیر دروازوں کی الماریوں سے جھانکتی نظر آئیں گی، ایسا ہی حال سرکاری لائبریریوں کا ہے۔ قیمتی کتابوں کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہے، دیمک لکڑی کی اشیا سے سفر کرتی ہوئی کتابوں کے اندر داخل ہو چکی ہے۔ اور قیمتی ادبی سرمائے کو تہہ و بالا کرنے کے در پر ہے۔ اگر بروقت دشمن کو زیر حراست میں نہ لیا جائے گا تو علم و تدبیر فکر و آگہی کے خزانوں کو دیمک چاٹ جائے گی اور ہاتھ کچھ نہیں آئے گا سوائے افسوس کے۔

بچوں کے ادب کو فروغ دینے کی بھی بات ہوئی۔ بے شک کسی بھی ملک و قوم کی ترقی و استحکام کے لیے بچے عالی شان سرمائے سے کم نہیں اگر ابھی سے ان کے خالی ذہن نما سلیٹ پر کچھ اچھا لکھ دیا جائے گا تو وہ ہمیشہ یاد رکھیں گے اور بڑے ہوکر مثبت امور انجام دیں گے۔ بنیاد مضبوط ہو تو عمارت کا استحکام لازمی ہو جاتا ہے۔

ہم اس کالم کے ذریعے معزز ہستیوں کے شکر گزار ہیں کہ انھوں نے خصوصی امور کی طرف توجہ دلائی۔ یہ بات بھی اٹل نہیں ہے کہ جس نے آرٹس کونسل کی کانفرنس میں اپنے علمی و فنی کمالات نہیں دکھائے تو اس کی کوئی اہمیت نہیں۔ نہیں جناب! ایسا نہیں ہے نابغہ روزگار شخصیات اپنے علمی و ادبی کاموں کی بنا پر تاریخ کے افق پر ہمیشہ جلوہ گر رہتی ہیں۔
آرٹس کونسل کے منتظمین سے اتنا ہی عرض کرنا ہے کہ جو مسائل زیر بحث لائے جاتے ہیں جن امور پر گفتگو ہوتی ہے ان پر سنجیدگی سے کام کرنے کی ضرورت ہے تا کہ مزید ان کے وقار میں اضافہ ہو اور اعتبار قائم رہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔