کورونا سے زیادہ خوفناک وخطرناک وبا

شکیل فاروقی  منگل 29 ستمبر 2020
S_afarooqi@yahoo.com

[email protected]

لاہور سیالکوٹ موٹر وے پر گزشتہ دنوں پیش آنے والے اجتماعی زیادتی کے واقعے کو سپرد ِ قلم کرنے تک پورا ایک عرصہ گزر چکا ہے لیکن پولیس ابھی تک اس واردات کے مرکزی ملزم کو پکڑنے میں کامیابی حاصل کرنے کے بجائے محض ٹامک ٹوئیاں ہی مار رہی ہے ۔

ہماری پولیس کا حال اس ناکارہ بلی جیسا ہے جو چوہے پکڑنے کے بجائے چوہوں سے کان کُترواتی ہے ۔ میرٹ کے قتلِ عام اور سیاسی مداخلت میں ملک کے تمام اداروں کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیا ہے جس میں پولیس کا ادارہ سرفہرست ہے ۔

پاکستان تحریک انصاف سے یہ توقع تھی کہ وہ برسرِ اقتدار آنے کے بعد اپنے ’’ تبدیلی ‘‘ کے وعدے کے مطابق پولیس کے نظام میں اصلاح کرکے بہتری لائے گی لیکن گذشتہ دنوں وطنِ عزیز کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں سیاسی مداخلت کی بنیاد پر ہونے والی پولیس کی اعلیٰ سطح اکھاڑ پچھاڑ نے تو ماضی کے تمام ریکارڈ توڑ دیے ۔

پولیس کی اس شکستہ حالی سے سماج دشمن عناصر بلند ہوگئے ہیں اور وہ شتر بے مہارکی طرح جرائم پر جرائم کیے چلے جارہے ہیں۔ چنانچہ ابھی سانحہ موٹر وے کی سیاہی خشک بھی نہیں ہوئی تھی کہ اس نوعیت کے مزید واقعات منظرِ عام پر آ گئے۔

کتنے بد نصیب ہیں وہ والدین جن کی اولاد کے ایسے شرمناک کرتوت اور ایسے گھناؤنے لچھّن ہوں۔ ایسی نا خلف اولاد سے تو انسان بے اولاد ہی بھلا ؟ ہم نے اپنے بزرگوں کی زبانی یہ سنا تھا کہ اولاد چاہے ایک ہو مگر نیک ہو ۔ اولاد کی تربیت پر سب سے زیادہ زور دیا جاتا تھا اور یہ کہا جاتا تھا کہ ’’ کھلاؤ سونے کا نوالہ مگر دیکھو شیر کی خوں خوار نظروں سے‘‘ ۔ماں باپ تو ماں باپ محلہ کے بزرگ بھی بچے کی کسی غلط حرکت پر اس کی گوشمالی کے مجازتھے مجال نہ تھی کہ بچہ والدین کی پیشگی اجازت کے بغیر اپنی مرضی سے کہیں چلا جائے ۔ غروب ِ آفتاب کے بعد تو بچہ کے گھر سے باہر قدم نکالنے کا سوال ہی پیدا نہ ہوتا تھا ۔ بڑی عمر کے لڑکے لڑکیوں کے اختلاط کو اچھا نہیں سمجھا جاتا تھا۔

سب سے بڑھ کر یہ سوال ہے کہ جس حکومت کی موجودگی میں کسی خاتون شہری کی عصمت بھی محفوظ نہ ہو اس کی حکمرانی کا کیا جواز ہے؟ سوال یہ بھی ہے کہ جب حکمرانی کی پستی اور ناکامی کا عالم یہ ہو تو پھر دو سالہ حکمرانی کا جشن منانے کے حوالے سے بزبان ساحرؔ لدھیانوی یہی کہا جاسکتا ہے :

بربادیوں کا سوگ منانا فضول تھا

بربادیوں کا جشن مناتا چلا گیا

بر صغیر پاک و ہند میں شیر شاہ سوری کے پانچ سال سے بھی کم مدت کے مختصر دور کو بہترین حکمرانی کا سنہری اور مثالی دور تسلیم کیا جاتا ہے۔ حسنِ انتظام ایسا کہ رعایا رات بھر کھلے کواڑوں بے خوف و خطر لمبی تان کے سوئے ۔ سیکیورٹی کا نظام ایسا کہ پرندہ پر بھی نہ مار سکے ۔ اکیلی عورت رات کے کسی بھی پہر زیور سے لدی ہوئی کسی بھی گلی کوچے یا شاہراہ سے گزر جائے اور کیا مجال کہ کوئی مائی کا لال اسے بُری نظر سے دیکھنے کی جراٗت بھی کر پائے ۔

وجہ اس کی یہ تھی کہ علاقے کا ناظم اپنی ذرا سی بھی غفلت کے لیے بادشاہ سلامت کے حضور جوابدہ تھا اور شاہی دربار میں کسی بھی رعایت یا معافی تلافی کی کوئی گنجائش نہ تھی ۔ محض قانون ہی سخت نہ تھا بلکہ اس کا نفاذ بھی اتنا ہی سخت تھا ۔ بادشاہ کے رعب اور دبدبے کے آگے ہر کوئی تھر تھر کانپتا تھا ۔کم و بیش یہی حال سابق گورنر مغربی پاکستان نواب کالا باغ (مرحوم) کے دور حکمرانی میں دیکھا گیا ۔ انتظامی امور میں موصوف کسی بھی اثرو رسوخ اور دباؤ یا سفارش کو خاطر میں نہیں لاتے تھے اور کسی رشتہ دار یا اولاد تک کا ان کے دفتر میں داخلہ بھی ممنوع تھا ۔

نشہ کسی بھی قسم کا ہو سب سے بڑی لعنت ہے ۔ اسی لیے دین ِ اسلام میں جو کہ دین ِ فطرت کے نام سے مشہور ہے نشہ کو قطعی حرام قرار دیا گیا ہے ۔ یوں تو ہر نشہ ہی برا ہے لیکن سب سے بُرا نشہ شہوت کو قرار دیا گیا ہے کیونکہ اس میں مبتلا ہو کر انسان حیوان ِ مطلق سے بھی زیادہ بے حس اور اندھا ہوکر تمام رشتوں کی تمیز بھول کر شرافت اور انسانیت کی تمام حدود پھلانگ جاتا ہے اور اپنی اور پرائی ماؤں بہنوں اور بہو بیٹیوں کے فرق کو فراموش کر کے نِرے ننگے پن پر اتر آتا ہے ۔

عظیم لکھاری مفکر اور دانشور خلیل جبران کا یہ قول حرف بہ حرف بالکل درست ہے کہ ’’ درندوں نے بے حسی کے تمام گُر درحقیقت ابنِ آدم ہی سے سیکھے ہیں ‘‘ ۔ ہمارا آج کا معاشرہ جس بڑے فخر کے ساتھ ماڈرن سوسائٹی کے نام سے پکارا جاتا ہے اسی روش پر گامزن ہے جو اسے اخلاقی قدروں کی پامالی کے اندھے کنوئیں میں ہی غرق کرنے پر تلی ہوئی ہے ۔

دنیا میں ہر بچہ معصوم پیدا ہوتا ہے لیکن جوں جوں بڑا ہوتا جاتا ہے ارد گرد کے ماحول کے سانچے میں ڈھلتا جاتا ہے ۔ ابتداء ہر بچے کی گھر کے ماحول سے ہوتی ہے۔ اگر گھر کا ماحول اچھا اور سازگار ہوگا تو بچہ بھی نیک صالح اور اچھا اُٹھے گا اور اگر گھر کا ماحول سازگار نہیں تو پھر اس کا خدا ہی حافظ ہے اسی لیے کہا گیا ہے کہ نیکی کا آغاز گھر سے ہی ہوتا ہے پھر اس کے بعد صحبت کا مرحلہ آتا ہے جیسی صحبت ویسی ہی شخصیت ۔ اچھے بُرے کی شناخت انسان کی صحبت سے ہوتی ہے اس حوالے سے انگریزی زبان کی یہ کہاوت بہت مشہور ہے A man is known by the company he keeps

ہمارے بگاڑ کی سب سے بڑی اوربنیادی وجہ یہ کہ ہم اپنی اسلامی اقدار سے منہ موڑ کر مغربی اقدار کے نرغے میں آگئے ۔ کوّا چلا ہنس کی چال ، اپنی چال بھی بھول گیا۔

اخلاقی کج روی کا یہ زہر ہمارے معاشرے کی رگوں میں مدتِ دراز سے پھیل رہا تھا جس کا بر وقت سدِباب نہ ہونے کی وجہ سے اس نے اب سنگین صورت اختیار کر لی ہے اور نوبت اخلاقی دیوالیہ پن تک آپہنچی ہے ۔ رشتوں کا تقدس پا مال ہوچکا ہے اور انسان حیوانِ مطلق کی سطح سے بھی نیچے گر چکا ہے ۔ مشرقی روایات جن پر ہمیں بڑا ناز اور فخر ہوا کرتا تھا بہت تیزی کے ساتھ دم توڑ رہی ہیں اور ہمارا حال یہ ہے کہ ’’ ٹک ٹک دیدم ، دم نہ کشیدم ‘‘ ۔

افسوس کا مقام یہ ہے کہ سنگین مسئلے کا کارگر اور فوری حل تلاش کرنے کے لیے سر جوڑ کر بیٹھنے کے بجائے ہمارے سیاسی اکابرین فضول کے بحث و مباحثہ میں ایک دوسرے کے ساتھ الجھ رہے ہیں اور پوائنٹ اسکورنگ میں وقت ضایع کر رہے ہیں ۔

اس گھناؤنے جرم کا ارتکاب کرنے والے انسان نما درندے کے ساتھ کیا سلوک کرنا چاہیے اور اسے کس قسم کی عبرتناک سزا دی جائے اس پر بھی تاحال اتفاقِ رائے نہیں ہوسکا ۔ کوئی کچھ کہہ رہا ہے اور کوئی کچھ ۔ جتنے منہ اتنی باتیں ۔ اس کریہہ جرم کے سدِباب کے لیے بلا تاخیر پارلیمان کا مشترکہ اجلاس طلب کر کے مکمل اتفاق ِ رائے سے موثر قانون سازی کی جائے اور پھر اس قانون کے نفاذ کو یقینی بنانے کے لیے تمام متعلقہ اداروں کو متحرک اور مستعد کیا جائے اورسستی کوتاہی یا غفلت کے مرتکب اہلکاروں کے خلاف ضابطے کی سخت ترین فوری کارروائی کی جائے۔

اس کے علاوہ معاشرتی سطح پر بھی اس قبیح جرم کے خلاف ایک بھر پور اور منظم ملک گیر مدافعتی مہم چلائی جائے جس میں میڈیا کا کردار بھر پور اور نمایاں ہونا چاہیے ۔ جنسی جرائم کی وبا کورونا سے بھی زیادہ خوف ناک و خطرناک ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔