’’میں نے تم کو اسی لیے پڑھایا ہے۔۔۔‘‘

مریم شہزاد  منگل 29 ستمبر 2020
گھرداری کرنے والی خواتین بھی معاشی ساجھے داری کر رہی ہیں۔ فوٹو : فائل

گھرداری کرنے والی خواتین بھی معاشی ساجھے داری کر رہی ہیں۔ فوٹو : فائل

صبا نے عمدہ نمبروں کے ساتھ گریجویشن کیا، اس کے بعد ماسٹرز میں داخلہ لیا اور اَن تھک محنت سے یہ بھی امتیازی نمبروں سے مکمل کر لیا اب وہ من ہی من میں بہت خوش تھی کہ اب جلد ہی کوئی اچھی سی جاب کر لے گی اور اپنے اچھے پہننے اوڑھنے کی خواہش کو بلا تامل پورا کر سکے گی، مگر ایک دن اپنی امی کے صاف انکار کرنے پر وہ کافی پریشان ہوگئی اور قدرے برہمی سے بولی کہ ’’کیا آپ نے مجھے اس لیے اتنا پڑھایا تھا کہ بس میری شادی کر دیں اور میں بچے پالنے والی اور گھر سنبھالنے والی ’آیا‘ یا ’ماسی‘ بن کر رہ جاؤں۔۔۔؟‘‘

ماں نے اس کو ایک نظر دیکھا اور پھر اطمینان سے جواب دیا ’’ہاں بالکل، میں نے تم کو اسی لیے پڑھایا ہے۔۔۔!‘‘

صبا نے اس غیر متوقع جواب پر چونک کر ماں کو دیکھا اور حیرانی سے بولی ’’یہ آپ کیا کہہ رہی ہیں، یعنی آپ چاہتی ہیں کہ میں سارا پڑھا لکھا ڈبو دوں، کچھ فائدہ نہ اٹھاؤں؟‘‘

’’یہ میں نے کب کہا کہ کچھ فائدہ نہ اٹھاؤ، میں یہ سمجھتی ہوں کہ لڑکوں کی پڑھائی ان کے مالی مستقبل کی ضرورت ہے، کیوں کہ بنیادی طور پر ان کو اپنی اور اپنے گھر والوں کی معاشی ضرورتیں پوری کرنی ہیں، جب کہ لڑکیوں کو یہ تعلیم آئندہ کی نسلوں کی تربیت، بہتر سماج اور بہترین گھر داری کے لیے دی جاتی ہے اور اس کا درست استعمال جب ہی ممکن ہے، جب وہ گھر میں ہوں اور اور گھر اور بچوں کو مکمل توجہ دے سکیں، تب ہی ان کی تعلیم ’کارآمد‘ ہے، یہ بات بھی تو سوچنا چاہیے کہ اگر عورت بھی گھر سے نکل جائے گی، تو ہمارا ایک پورا نظام الٹ پلٹ نہیں ہو جائے گا۔

اس سے گھر کی آمدنی بڑھنا تو دیکھی جاتی ہے، لیکن گھر کے کاموں کے لیے ملازمین کی ضرورت اور بچے کے لیے ماں کا قیمتی وقت کھو جانا کوئی نہیں گنتا، جس کا کوئی نعم البدل بھی نہیں اور اس سے ایسے بہت سے مردوں کے روزگار پر بھی ضرب لگے گی، جو اکیلے اپنے گھر کی کفالت کے ذمہ اٹھائے ہوئے ہیں۔‘‘

’’لیکن امی میں گھرداری اور جاب دونوں ساتھ ساتھ کر سکتی ہوں۔۔۔!‘‘ صبا نے پھر اصرار کرتے ہوئے کہا، تو اس کی امی بولیں کہ  ’’ہاں میں مانتی ہوں، اللہ تعالیٰ نے عورت کو بہت ہمت اور طاقت دی ہے، وہ یہ سب کر سکتی ہے، مگر جس کا جو کام ہے، وہ اسی کو کرنا چاہیے، شاید ایسا کرنا زیادہ بہتر رہتا ہے۔‘‘

’’جب عورت سب کر سکتی ہے، تو پھر اس کو کیوں روکا جاتا ہے ؟‘‘ صبا نے سوال کیا تو اس کی امی بولیں’’بے شک اگر ضرورت اور مجبوری ہو تو عورت سب کچھ کر لیتی ہے۔۔۔ مگر ہم اس کے اپنی سماجی زندگی پر اثرات نہیں دیکھتے اور پڑھ لکھ کر نوکری نہ کرنے والیوں کو تعلیم ڈبونے کا طعنہ دینے لگتے ہیں، یہ تو نا انصافی ہے۔‘‘

’’مردوں کے روزگار پر عورتوں کے کام کرنے سے کیا فرق پڑے گا؟‘‘ اس نے استفسار کیا۔

امی بولیں کہ ’’ایک فرق تو واحد کفیل مردوں کا میں بتا ہی چکی ہوں، اس کا گہرائی سے جائزہ لیا جائے، تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ ہمارے ہاں عورتوں کو بہت کم اجرت دی جاتی ہے اور پھر جب مالکان دیکھتے ہیں کہ ایک ہی کام کے لیے مرد زیادہ پیسے مانگ رہا ہے، جب کہ وہ ایک خاتون کو اس سے کافی کم پیسوں پر کام کے لیے تیار پاتے ہیں۔ ایسے میں مردوں کو زیادہ معاوضہ پھر کون دے گا، اب تم اس پر غور کرو کہ ہماری بچیاں اور لڑکیاں کم تنخواہ پر کام کرنے کے لیے کیوں تیار ہوجاتی ہیں؟ وہ اس لیے کہ وہ بس اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے یا ایک اضافی آمدن کے شوق میں  کام کر رہی ہوتی ہیں۔

اس لیے انھیں کم تنخواہ بھی کافی معلوم ہوتی ہے، اس کے مقابلے میں مرد پر بنیادی طور پر یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اپنے اہل خانہ کی تمام ضرورتوں کو پورا کرے اور اگر جاب کرنے والی خود اپنے گھر میں دیکھے تو اسے اندازہ ہو سکتا ہے کہ اس کے والد یا بھائی کے ذمہ اٹھانے کے سبب اسے لگ بھگ آدھی تنخواہ بھی بہت معلوم ہوتی ہے۔۔۔ بالفرض اس کے والد یا بھائی کی کمپنی میں بھی یہ چلن ہو جائے، تو سوچو کہ مرکزی کفیل کی ذمہ داریوں کے حوالے سے کتنے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔

اس معاملے کو صنفی ٹکراؤ بنانے کے بہ جائے اس سے بالا ہو کر سوچنا چاہے، کیوں کہ وہ مرد بھی دراصل اپنے اہل خانہ کی کفالت کے لیے اس نوکری کا امیدوار ہے، جس میں ظاہر ہے صرف مرد تو نہیں ہوں گے ناںِ، اب اس کے ساتھ یہ صورت ہو تو پھر وہ مایوسی اور ڈپریشن میں مبتلا ہونے لگتے ہے، جس کے اثرات سے پورے گھر پر پڑتے ہیں، بعض اوقات خدانخواستہ کوئی انتہائی پریشان کُن نوبت بھی آجاتی ہے، یہ سنگین معاملہ ہے، ہم سب کو اس پر غور کرنا چاہیے!‘‘

صبا کی امی کو شاید یکا یک کچھ یاد آگیا، انھوں نے کچھ توقف کیا اور پھر بولیں:

’’اج کے دور میں شاید میری ان باتوں کی کوئی جگہ نہیں، یہ سب باتیں دقیانوسی اور فرسودہ کہہ کر دھتکار دی جاتی ہیں کیوں کہ اب سبھی یہ کہنے لگے ہیں کہ خواتین کو باہر نکل کر لازمی کام کرنا چاہیے، حالاں کہ ہم غور کر لیں، تو کیا کفالت کا ذمہ صنف قوی پر عائد کر کے ایک عورت حق مل رہا ہے یا گھر اور بچوں کے ذمے کے ساتھ ساتھ باہر ملازمت کی ٹینشن میں پڑنا خواتین کو حقوق ملنا کہلائے گا۔۔۔؟ باتیں تو سب عقلیت پسندی کی کرتے ہیں، تو میں نے تمھارے سامنے عقلی دلیل سے بھی اپنی بات واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔۔۔‘‘ وہ چپ ہوئیں تو صبا کہنے لگی ’’یعنی وہ جو بات کہتے ہیںکہ لڑکیوں کی تعلیم کا مطلب پوری نسل کا سدھار ہوتا ہے، پھر بچوں کی اس تربیت میں پورے گھر کے ماحول کو دوش ہوتا ہے، اور اس ماحول میں عموماً دن بھر عورتوں کا ہی مکمل کنٹرول ہوتا ہے۔

اس سے پتا چل جاتا ہے کہ وہ صرف اپنے صحیح غلط کے معیار بہتر نہیں کرتیں، بلکہ ان کے توسط سے ہمارے آنے والے کل کی تربیت بھی ہو رہی ہوتی ہے۔ اب اسے کہا جاتا ہے کہ آپ عورتوں کو گھر میں بند کر کے رکھنے کی بات کر رہے ہیں؟‘‘

صبا کی بات سن کر امی نے مسکراتے ہوئے کہا ’’اچھا، تم اپنے اردگرد نظر ڈال کر بتاؤ کہ کیا جو خواتین ملازمت پیشہ نہیں ہیں، کیا وہ سارا سارا دن گھر کے اندر ’بند‘ رہتی ہیں۔۔۔؟ کیا وہ اپنی ضروریات اور شاپنگ وغیرہ سے لے کر بچوں کے علاج معالجے اور ان کے اسکول کے معاملات وغیرہ کے حل کے لیے ہمہ وقت متحرک نہیں رہتیں اور اس مقصد کے لیے گھر سے باہر نہیں جاتیں؟ دراصل وہ اپنی یہ ذمہ داری ادا کر کے ایک طرف گھرداری سے انصاف کر ہی رہی ہیں، تو دوسری طرف وہ بھرپور طریقے سے اپنے شوہر، والد یا بھائی وغیرہ کو بھی ایک بے فکری اور آرام فراہم کر رہی ہیں، تاکہ وہ اپنی پیشہ وارانہ ذمہ داریوں کو زیادہ اچھی طرح سے ادا کر سکیں، خواتین کی اس مدد کے بغیر مرد کس طرح اپنی معاشی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہو سکتے ہیں، میرے خیال میں بالکل بھی نہیں۔‘‘

’’بالکل، یہ بات تو ہے۔۔۔ ہمیں ان تمام پہلوؤں پر بھی غور کرنا چاہیے۔‘‘ صبا نے قدرے اطمینان بھرا سانس لیتے ہوئے کہا، تو امی بولیں کہ ’’بس میرا مقصد یہی تھا کہ تصویر کے اس رخ پر بھی بات کرنا چاہیے اور پھر ساری جمع تفریق اور فائدے نقصان سامنے رکھ  کر اپنے سماج کے ماہرین  کی رائے سامنے رکھتے ہوئے کوئی عمل کرنا چاہیے۔۔۔ یہ بات بھی دھیان میں رکھنا چاہیے کہ کسی ایک سماج کی چیز کو جوں کا توں کسی بھی دوسرے سماج پر لاگو نہیں کیا جا سکتا۔ اس لیے میں تمھیں زبردستی ملازمت سے نہیں روک رہی، بس تمھیں سمجھا کر قائل کر رہی ہوں، تاکہ تم آگے بھی اس حوالے سے سوچ بچار کرو۔۔۔ مجھے امید ہے کہ تم اب بہتر فیصلہ کروگی۔‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔