احتساب کا مطلب کیا؟

سعد اللہ جان برق  بدھ 30 ستمبر 2020
barq@email.com

[email protected]

مشہورحکایت ہے باربار کی دہرائی ہوئی لیکن ایک مرتبہ پھر ’’دہرانے‘‘میں بھی کوئی حرج نہیں بلکہ اس دنیا میں تو دہرانا ہی اصل کام ہے، باقی سب کچھ صرف خواب وخیال ہے ،تاریخ بھی خود کو دہراتی ہے،جغرافیہ تو خود کو دہرانے کے سوا اورکچھ کرتا ہی نہیں اورسیاست! وہ تو اتنی زیادہ خود کو دہراتی ہے کہ ہزاروں سال کی کسی حکومت اورآج کی حکومت کو آمنے سامنے رکھیے بال برابر بھی فرق نظر آئے تو جو لیڈر کی سزا، وہ ہمیں دے دیجیے۔وہی پچاسی فی صد کالانعام اوروہی پندرہ فی صد ’’کرام وعظام‘‘ اورہر تقریر وتحریر وہی کہ۔۔

’’گویایہ تومرے دل میں تھا‘‘

اوردل میں کیوں نہ ہو، ایوب خان بلکہ اس سے بھی پہلے کے زمانے کا اخبار اٹھائیے یاکسی بیان یا بیان کا بیانیہ پڑھیے، دہرانا ہی دہرانا،رٹناہی رٹنا،گھوٹا ہی گھوٹا۔

لے آئی ہے کہاں پر قسمت ہمیں کہاں سے

یہ تو وہی جگہ ہے گزرے تھے ہم جہاں سے

داڑھی سے مونچھ بڑھ گئی۔ وہ پرانی حکایت ہے کہ کسی شاگرد نے استاد سے پوچھا، یہ شاگرد اوراستاد بھی سقراط اورافلاطون کے وقت سے خود کو ’’دہرا‘‘ رہے ہیں کہ یہ جو کریماہے یعنی

کریما بہ بخشائے بہرحال ما

کہ ہستم اسیرکمند ہوا

اس کامطلب کیاہے؟ استاد بچارا جو بھرتی کیاگیا تھا، اس نے ڈانتے ہوئے کہا،بیوقوف! تم ابھی تک نہیں جانتے حالانکہ میں نے سو بار تجھے سمجھایا ہے کہ یہ جو ’’کریما‘‘ہے،یہ ’’بخشائے ما‘‘ہے۔اوروہ ’’ہستم‘‘ اسیرکمند ہواہے۔ سمجھ گئے یا نہیں۔

شاگرد سمجھا ہویانہ سمجھا ہولیکن ہم تو سمجھ چکے ہیں کہ ’’احتساب‘‘ کامطلب کیاہے۔یہ دو لفظوں کا مجموعہ ہے۔ ایک ’’اح‘‘جس سے ’’احترام ‘‘بھی بنتا ہے، ’’احکام ‘‘بھی اور ’’احمق‘‘ بھی۔ جب کہ ’’ساب‘‘تو صاف صاف ’’ساب‘‘ہے اورساب لوگوں کو کون نہیں جانتا۔ کل ملا کر مطلب ہوا کہ ’’ساب‘‘ لوگوں کے ’’احترام‘‘ کے احکام دے کر احمقوں کو مزید احمق بنایاجائے۔

دراصل یہ ایک واشنگ فیکٹری یاواشنگ مشین ہے جس میں بچوں کے گندے پوتڑے دھوئے جاتے ہیں۔ وہ تو آپ نے سنا ہی ہوگا کہ مشین مت بدلو پاؤڈر بدل لو یعنی وہ پاوڈر استعمال کرو جو ضدی سے ضدی داغوں کو بھی صاف کردے کیونکہ داغ تو اچھے ہوتے ہیں۔ داغ نہ ہوتے تو داغدار کہاں جاتے اورداغ مٹانے والے کیا کرتے یا پاوڈر کا کیا بنتا؟ یہ ہم اس لیے بتارہے ہیں کہ اکثر لوگ ہم سے پوچھتے ہیں کہ احتساب کیاہے؟ محاسبہ کیاہے یا محتسب کیاہے بلکہ زیادہ تر تو یہ پوچھتے ہیں کہ ’’حساب‘‘ کیاہے؟

حساب کاتو ہم نہیں بتاپائیں گے کیوں کہ اسی کم بخت مضمون حساب کی وجہ سے تو ہم اسکول سے بھاگے تھے اوراب دنیا سے بھی ’’بھاگنے والے ‘‘ہیں کہ اس وقت بھی ہمیں حساب نہیں آتا تھا اوراب بھی حساب ہمارے ’’پاس‘‘ نہیں آتا۔ یاد رہے کہ پشتو میں ’’حساب‘‘ پیسوں یا نقدی ،کرنسی یادولت کوکہتے ہیں ،مثلاً۔ نوکری اس لیے نہیں ملی کہ بات حساب کی تھی۔الیکشن میں اس لیے ہارا کہ بات حساب کی تھی،ٹکٹ اس لیے نہیں ملاوغیرہ وغیرہ۔ ایسے میں ہم اسکول اوردنیا سے نہ بھاگیں تو کیاکریں کہ حساب نہیں آتاہے۔

ہوش وحواس تاب وتوان داغ جاچکے

اب ہم بھی جانے والے ہیں سامان توگیا

لیکن احتساب کے معنی ہمیں آتے ہیں اوربہت زیادہ آتے ہیں کیوں کہ ہم نے احتساب دیکھاہے بلکہ دیکھتے رہے ہیں کہ ہوتاہے شب وروزتماشا مرے آگے،کہ کتنے ’’ساب‘‘کا کیساکیسا احترام ہوتا ہے، لوگوں کا کیساکیسا ’’اح ترام‘‘ شہہ ترام ہوتارہتاہے۔

کچھ لوگ لفظ ’’احتساب‘‘ کے معنی کے ساتھ ساتھ یہ بھی پوچھتے ہیں کہ احتساب میں کیاہوتاہے تو اس کا جواب وہی ہے جو کسی دانا دانشور نے ’’مرنے ‘‘کے سلسلے میں دیاتھا کہ ’’پلاؤکھائیں گے احباب فاتحہ ہوگا‘‘۔

پئے مشورہ مجلس آراستند

نشسندوگفتندو برخواستند

لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ کچھ اورنہیں ہوتا بہت کچھ اوربھی ہوتاہے لیکن اسے قافیہ میں نہیں لایا جاسکتا۔ ’’حساب‘‘ہوتاہے،سوال وجواب ہوتے ہیں، کتنا کمایا؟ کتنا کھایاکتنا بچاہے اورکتنا۔۔(اس کے بعد تحریر رک گئی ہے)۔لیکن اس کی بھر پائی ایک بہت پرانے حقیقے سے ہوتی ہے،بھٹوصاحب اپنے دورحکومت میں پشاور آئے تو صوبائی وزراء ایک قطار میں کھڑے تھے۔ ہر وزیرہاتھ ملاتے ہوئے اپنانام اورعہدہ بھی بتاتا تھا، جب ایک بزرگ جدی پشتی مسلم لیگی کے پاس پہنچے تو وزیر نے مصافحہ کرتے ہوئے کہا، ’’خان ایڈمنسٹر ٹیکسائز اینڈ ایکشن‘‘۔ بھٹونے مسکراکر پیٹھ تھپتھپاتے ہوئے کہا ’’لگے رہو خان صاحب۔‘‘

اصل حساب وحاسب ومحسوب ایک ہے

حیراں ہوں’’احتساب ‘‘ہے پھر کس حساب میں

غالباً یہی ’’لگے رہو خان صاحب‘‘ کا فقرہ پڑوس والے ’’اڑا‘‘ بلکہ اغوا کرکے لے گئے ہیں اوراس پر ایک فلم بنائے ہوئے ہیں۔’’لگے رہومنا بھائی‘‘۔

ایک اورپرانا حقیقہ اپنا چشم دید یادآتا ہے، ٹھیکیدار نے ایک منحنی اورکم زور سا رکھوالا خربوزوں کے باغ کے لیے رکھا تھا، ہم چند لڑکوں نے اس کے منع کرنے کے باوجود ایک خربوزہ توڑا اورکھانے لگے۔رکھوالا بھی کھڑا تھا۔ ہمیں کھاتے دیکھ کر بولا، جب توڑ ہی لیاہے تو اب ایک تراشہ مجھے بھی تود ے دو۔

یہ اس زمانے کاذکر ہے جب رکھوالے، رکھوالے ہوتے تھے،لکھوالے نہیں، حقیقے پر حقیقہ دم ہلا رہا ہے۔افغان مہاجرین کے ابتدائی دور میں ہمارے علاقے کے ایک شخص نے چار کروڑ کمائے تھے۔ پھر وہ پکڑاگیا،ایک دن بازار میں ملا تو پوچھ لیا،’’ تم تو پکڑے گئے تھے،کیسے رہا ہوئے؟‘‘ بولا، ’’چار میں سے ایک کروڑ’’گرفتار‘‘ کرائے تو باقی ماں کا دودھ ہوگیا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔