حکومتی سیاسی و انتظامی غلطیاں ، غذائی صنعت کی بربادی کا سبب؟

رضوان آصف  بدھ 30 ستمبر 2020
عوام از خود ’’گھبرانے‘‘ کی ہمت کیسے کر سکتے ہیں۔فوٹو : فائل

عوام از خود ’’گھبرانے‘‘ کی ہمت کیسے کر سکتے ہیں۔فوٹو : فائل

 لاہور:  تحریک انصاف کی وفاقی اور صوبائی حکومتیں بہت سے سیاسی، معاشی اور انتظامی بحرانوں کی دلدل میں دھنس رہی ہیں اور غلط فیصلہ سازی کا سہارا لیکر باہر نکلنے کی ہر کوشش حکومت کو مزید دھنسا رہی ہے۔ان تمام مسائل میں سب سے بڑا اور خطرناک بحران، گندم اور آٹے کا ہے جو حکومت کیلئے ناقابل شکست بنتا جا رہا ہے۔

اس وقت پاکستان کے چاروں صوبوں میں گندم اور آٹے کے مختلف نرخ وصول کیئے جا رہے ہیں اور ہفتے میں دو یا تین اجلاس خصوصی طور پر گندم بارے منعقد کرنے کے باوجود وزیر اعظم پاکستان ’’تبدیلی‘‘لانے میں ناکام ہیں اور آج بھی بازاروں کا غیر جانبدارانہ دورہ کیا جائے تو آٹا وافر مقدار میں دستیاب نہیں ہے اور جہاں مل رہا ہے وہاں بلند نرخ وصول کیے جا رہے ہیں لیکن وزیر اعظم اطمینان رکھیں کہ ان کے ’’حکم‘‘ کے مطابق عوام بالکل بھی نہیں گھبرا رہے بلکہ محترم کپتان یقین کامل رکھیں کہ نومبر اور دسمبر میں جب مارکیٹ میں آٹا کی دستیابی مزید کم اور قیمت مزید بڑھ جائے گی اور لوگ آٹے کی تلاش میں دکانوں پر مارے مارے پھر رہے ہوں گے یا پھر سرکار کی زیر نگرانی کھڑے کسی ٹرک سے آٹا کا تھیلا لینے کیلئے اپنی جان کورونا کی ہتھیلی پر رکھے ہوئے طویل قطاروں میں کھڑے ہوں گے تب بھی وہ نہیں گھبرائیں گے کیونکہ جب تک آپ ’’اجازت‘‘ نہ دیں۔

عوام از خود ’’گھبرانے‘‘ کی ہمت کیسے کر سکتے ہیں۔دنیا بھر میں کہیں بھی اوپن مارکیٹ میکنزم کو ایڈمنسٹریٹو پاور کے استعمال سے کنٹرول کرنے کی کوشش نہیں کی جاتی کیونکہ اس سے بہتری کی بجائے مزید خرابیاں جنم لیتی ہیں لیکن پنجاب حکومت کی مثال ہی لے لیں کہ گندم خریدنے سے لیکر سرکاری گندم فروخت کرنے تک ہر معاملہ میں انتظامی طاقت کا استعمال کیا جا رہا ہے اور نتیجہ یہ ہے کہ معاملات اب ’’ریڈ لائن‘‘ کراس کر چکے ہیں ۔اس وقت خیبر پختونخوا میں گندم سٹاکس کی قلت ہے، سرکاری کوٹہ کم مقدار میں مل رہا ہے جبکہ پنجاب سے بھی آٹے کی آمد میں کمی آئی ہے جس کی وجہ سے پشاور اور دیگر شہروں میں آٹے کا تھیلا 1300 روپے تک فروخت ہو رہا ہے۔ سندھ حکومت کا اس مرتبہ رویہ روٹھی ہوئی محبوبہ جیسا ہے۔

گزشتہ برس گندم آٹے کا بحران پنجاب حکومت کی ناقص پالیسیوں اور متنازعہ اقدامات کی وجہ سے پیدا ہوا تھا اور اس نے ملک گیر بحران کی صورت اختیار کر لی تھی لیکن حکومت نے ’’بلیم گیم‘‘ کھیلتے ہوئے سندھ حکومت پر ذمہ داری ڈالنے کی کوشش کی تھی اور سندھ حکومت کا بہت سخت میڈیا ٹرائل ہوا تھااور بعد ازاں حکومت نے سندھ کو ساڑھے چار لاکھ ٹن گندم بھی پاسکو کے ذریعے فراہم کردی تھی۔ اس مرتبہ سندھ میں ’’دانے‘‘ پورے ہیں جبکہ نجی شعبے کی جانب سے امپورٹ کی جانے والی گندم بھی ملک بھر میں سب سے سستی قیمت پر کراچی میں ہی دستیاب ہے دوسری جانب پنجاب میں ایک مرتبہ پھر سے سرکاری غلطیوں، ناکام ترین پالیسیوں اور فیصلوں میں تاخیر کے سبب گندم آٹے کا شدید بحران موجود ہے جس کی بنیادی وجہ سرکاری گوداموں میں گندم کے کم مقدار سٹاکس اور فلورملز کے خالی گودام ہیں۔

پنجاب میں بھی نجی شعبہ کم مقدار میں مہنگی قیمت پر نجی گندم لینے پر مجبور ہے تو یہی صورتحال بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں ہے۔ بلوچستان حکومت کی تو نا اہلیت اس امر سے ثابت ہو چکی ہے کہ انہوں نے اپنی فلورملز کو سرکاری گندم کا اجراء ہی شروع نہیں کیا ۔ نجی شعبہ ابھی تک کامیابی کے ساتھ لاکھوں ٹن گندم امپورٹ کر چکا ہے لیکن دوسری جانب وفاقی حکومت گندم امپورٹ کرنے میں عملی طور پر سنجیدہ دکھائی نہیں دے رہی، ٹینڈر طلب کرنے اور منسوخ کرنے کا کھیل حکومت کیلئے خوفناک ثابت ہوسکتا ہے۔

وفاقی حکام جب گندم کی سرکاری امپورٹ کرنے کی بات دبنگ انداز میں کرتی ہے اور پھر بند کمروں میں اس معاملے پر غیر سنجیدگی دکھائی جاتی ہے تو اس شخص کی مثال یاد آجاتی ہے جو لڑائی میں مد مقابل سے مار کھاتے ہوئے ’’مولا جٹ سٹائل‘‘ میں جوابی حملہ کرنے اور خوفناک انجام کی بڑھکیں لگاتے ہوئے مدمقابل پر جھپٹ پڑنے کا جسمانی انداز اپناتے ہوئے اس امر کو’’یقینی‘‘ بنائے رکھتا ہے کہ بیچ بچاو کروانے والے اس کا ہاتھ یا جسم کہیں سچ میں مقابلہ کیلئے چھوڑ نہ دیں۔

گزشتہ روز لاہور میں پاکستان فلورملز ایسوسی ایشن کی مجلس عاملہ کے اہم اجلاس میں تمام صوبوں سے آئے رہنماوں نے بہت ہی اہم اور چشم کشا انکشافات اور مطالبات کیئے ہیں۔ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے سنٹرل چیئرمین بدرا لدین کاکڑ نے کہا کہ عمران خان صرف پنجاب کے نہیں بلکہ پورے پاکستان کے وزیرا عظم ہیں ،بلوچستان ، سندھ اور خیبر پختونخوا کے عوام کا کیا قصور ہے کہ وہ 1300 روپے میں آٹا خرید کر کھائیں جبکہ پنجاب حکومت اپنے عوام کو 860 روپے میں آٹا دے۔

حکومت کو گندم آٹا کے حوالے سے یکساں پالیسی بنانا ہو گی۔سندھ سے تعلق رکھنے والے فلورملز ایسوسی ایشن کے مرکزی رہنما حاجی یوسف نے کہا کہ پورے ملک میں گندم اور آٹے کی ترسیل پر کسی قسم کی پابندی نہیں ہونا چاہئے جبکہ حکومت آٹے کو ’’ڈی ریگولیٹ‘‘ کرے اور سبسڈی بند کرے۔ خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والے مرکزی سینئر وائس چیئرمین محمد نعیم بٹ کی تقریر بہت جذباتی تھی اور انہوں نے سندھ کے ساتھ بھرپور شکوہ شکایت کی کہ وہاں سے آنے والی گندم پر فی بوری 700 روپے تک رشوت و کرایہ دینا پڑتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت فلورملنگ انڈسٹری میں اتحاد بہت ضروری ہے اور اگر ہم ایک ہو جائیں تو فیڈریشن آف چیمبرز آف کامرس سے بڑی تنظیم ثابت ہو سکتے ہیں۔ پاکستان فلورملز ایسوسی ایشن کے گروپ لیڈر اور پنجاب کے نومنتخب چیئرمین عاصم رضا احمد نے کہا کہ ہر فلور مل مالک اپنی مل کا بزنس پلان 8 گھنٹے کی پسائی کے مطابق تیار کرتا ہے اسی کے مطابق لیبر رکھی جاتی اور دیگر اخراجات کیئے جاتے ہیں لیکن پنجاب حکومت نے نہ تو ہمیں گندم خریدنے دی اور نہ ہی خود وافر خریدی اور اب ہمیں ایک یا دو گھنٹہ کا کوٹہ دیکر مطالبہ کیا جارہا ہے کہ صوبے کی مکمل ڈیمانڈ پوری کی جائے۔

پنجاب حکومت نے شہری آبادی کے تناسب سے کوٹہ مقرر کیا ہے جو غلط اور غیر آئینی ہے دیہی آبادی کو بھی ساتھ شامل کیا جائے اور فی رولر باڈی کے تناسب سے یکساں کوٹہ دیا جائے۔ہم مسلسل یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ ایک مستقل پالیسی کے تحت فلورملز سمیت نجی شعبہ کو گندم امپورٹ کر کے ری ایکسپورٹ کرنے کی اجازت ہونی چاہئے تا کہ افغانستان سمیت دیگر عالمی مارکیٹ میں پاکستانی تاجر جگہ بنا سکیں۔ فلورملز کو گندم خریدنے سے روکنے کا خمیازہ حکومت بھگت رہی ہے۔

لہذا آئندہ فلورملز کو گندم خریدنے اور رکھنے کی مکمل اجازت دی جائے ۔فلورملز ایسوسی ایشن کے مرکزی قائد لیاقت علی خان کی تقریر تقریب کی سب سے مدلل اور اثر انگیز تقریر تھی،انہوں نے جذباتی انداز میں کہا کہ ہم کروڑوں روپے لگا کر مل لگاتے ہیں، درجنوں افراد کو اپنی مل میں روزگار دیتے ہیں، کروڑوں روپے کا سالانہ ٹیکس دیتے ہیں لیکن کسی پٹواری کا منشی یا محکمہ فوڈ کا ملازم مل پر آکر ہماری عزت نفس کو چکنا چور کر دیتا ہے۔ فلورملز ایسوسی ایشن اور حکومت کے درمیان دنگل نومبر سے بام عروج پر پہنچ جائے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔