عدالتوں کی تباہی، ریاستوں کی تباہی

محمد رضا الصمد  جمعرات 1 اکتوبر 2020
جس سرزمیں پر انصاف قائم نہ رہے، وہاں یا تو عدالتیں ختم ہوجاتی ہیں یا پھر ریاستیں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

جس سرزمیں پر انصاف قائم نہ رہے، وہاں یا تو عدالتیں ختم ہوجاتی ہیں یا پھر ریاستیں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

گزشتہ چند صدیوں میں جب بھی قوموں پر، خصوصاً مسلمانوں پر زوال آیا، ان سب میں دو چیزیں مشترک تھیں۔ پہلی، حکمرانوں کی آپسی لڑائی اور دوسری، انصاف کی عدم دستیابی۔ آج وطن عزیز ان دونوں معاملات میں خود کفیل ہے۔

مسلمانوں نے جو بھی ریاست قائم کی، عدل و انصاف اس کا بنیادی جز تھا۔ آٹھویں صدی عیسوی میں جب مسلمانوں نے سمرقند (ازبکستان) کو فتح کرلیا اور وہاں اسلامی حکومت قائم کی، تو عیسائی پادری نے اسلامی عدالت میں دعویٰ کیا کہ مسلم فوج نے اسلامی جنگی اصولوں سے ہٹ کر سمرقند کو فتح کیا ہے۔ جب مسلم سپہ سالار قتیبہ بن مسلم سے عدالت نے دریافت کیا تو اس نے قاضی (جج) کے سامنے اس بات کا اعتراف کرلیا کہ پادری سچ کہہ رہا ہے۔ نتیجتاً قاضی نے تمام مسلمان خاندانوں اور فوجیوں کو سمرقند سے باہر نکال کر سمرقند کو واپس عیسائیوں کے حوالے کرنے کا حکم جاری کردیا اور مسلمانوں نے اس فیصلے پر سرِ تسلیم خم کیا۔

اسی صدی میں اسلامی فوج مغرب میں اندلس (اسپین) پر حملے کررہی تھی، مگر ہر بار شکست کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔ دوسری طرف مسلمانوں کا عدل، اندلس میں شہرت حاصل کرتا جارہا تھا۔ کاؤنٹ جولین نے، جو کہ خود اندلسی شہر سبتہ (Ceuta) کا مسیحی حکمران تھا اور مسلمانوں کو دو جنگوں میں شکست فاش دے چکا تھا، یورپ کے دیگر حکمرانوں کی عیاشیوں اور ظلم سے تنگ آکر، خود مسلمانوں کے سپہ سالار موسیٰ بن نصیر کو اسپین پر حملہ کی دعوت دے دی، اور بحری جہاز بھی فراہم کیے۔ یوں طارق بن زیاد کی قیادت میں اندلس میں اسلامی حکومت قائم ہوئی۔

اسی صدی میں محمدبن قاسم نے سندھ (ہندوستان) میں راجہ داہر کی حکومت کو ختم کرکے عدل و انصاف پر مبنی اسلامی حکومت قائم کی۔ جس کے بعد یہاں کے مقامی ہندو قاسم کو بھگوان کا اوتار ماننے لگے اور اس کی پوجا شروع کردی۔ ہندوستانی مغلیہ سلطنت میں گو کہ چند مشہور عاشق مزاج بادشاہ گزرے ہیں مگر ان کے یہاں بھی ’’عدل جہانگیری‘‘ نظر آتا تھا۔ مشہور واقعہ ہے نورجہاں نے ایک بدنگاہ دھوبی کو گولی مار کر قتل کردیا۔ جب معاملہ بادشاہ کی عدالت میں پیش ہوا تو ملکہ پر قتل ثابت ہوگیا۔ جہانگیر نے فیصلہ دیا ”نورجہاں کو پھانسی پر لٹکا دیا جائے“۔ جلاد نورجہاں کو مقتل میں لے گئے مگر دھوبن نے شوہر کا قصاص لے کر ملکہ کو معاف کردیا۔

سلطنت عثمانیہ میں شیخ الاسلام (چیف جسٹس) ہر کام اسلامی قوانین کے مطابق سرانجام دیتا تھا اور اپنے عدالتی فیصلوں پر صرف خدا کو جوابدہ تھا۔ جبکہ باقی تمام افسران سلطان کے سامنے جوابدہ تھے۔ سلطنت کی دھاک ایسی تھی کہ اس کے قوانین اور عدل سے، تھومس جیفرسن (تیسرا امریکی صدر) بھی متاثر تھا۔ یہاں تک کہ جیفرسن نے 1765 میں اپنا ذاتی قرآن پاک لیا، جس سے اسلامی قوانین کو سمجھ کر امریکی قانون سازی میں اسے بہت مدد ملی۔ گو کہ مسلمانوں نے جہاں بھی ریاست قائم کی، عدل و انصاف اس کا بنیادی جز تھا۔ یہ تمام مسلماں حکمران کوئی صحابی (رسول اللہ کے دوست) نہ تھے بلکہ محض آج کے انسانوں جیسے عام انسان تھے۔
عدالتوں کی تباہی، ریاستوں کی تباہی ہے

بغداد پر مسلمانوں نے تقریباً 600 سال حکومت کی، جس کا اختتام سقوط بغداد پر ہوا۔ اندلس پر 780 سالہ حکومت کا مکمل خاتمہ سقوط غرناطہ پر ہوا۔ بنگال پر مسلمانوں کی 550 سال حکومت رہی، مغلوں نے ہندوستان پر تقریباً 300 سال حکومت کی۔ عثمانیوں نے ایشیائے کوچک اور جنوب مشرقی یورپ پر تقریباً 600 سال حکومت کی۔

ریاستیں نہ ایک دن میں بنتی ہیں نہ ہی ایک دن میں ختم ہوتی ہیں۔ بغداد کا عدالتی نظام 10 ویں صدی سے بتدریج گراوٹ کا شکار ہوا۔ جب ریاستی اور عدالتی عملہ مال دولت اور عہدوں کی لالچ میں لگ گیا۔ اندلس میں جب مسلمانوں نے یہودیوں اور عیسائیوں کی حق تلفی شروع کی تو زمام اقتدار مسلمانوں پر تنگ ہونا شروع ہوگئی۔ یہاں تک کہ قانون بن گیا کہ کسی عیسائی کا گھر مسلمان کے گھر سے اونچا نہ ہو۔

ہندوستان میں انگریزوں نے اپنا تسلط طاقت کی بنیاد پر مسلط کیا، مگر اسے قائم انتظامی طاقت اور درست عدالتی نظام کے ذریعے رکھا۔ یہاں تک کے انگریزوں کے چلے جانے کے باوجود آج بھی برصغیر میں ان ہی کا ٹوٹا پھوٹا نظام چل رہا ہے۔ یہ انصاف کی عدم دستیابی ہی ہے کہ سابق مشرقی پاکستان (بنگلادیش) اور مغربی پاکستان نے ایک ہی نظریے کے تحت 42 سال تک ایک ساتھ ایک ہی حریف سے نظریاتی جنگ لڑی اور جانیں قربان کیں، مگر آزادی کے صرف 24 سال بعد ان دونوں کے راستے جدا ہوگئے۔

آج وطن عزیز میں انصاف کی حالت یہ ہے کہ ساہیوال میں پوری فیملی پولیس کے ہاتھوں قتل کردی جاتی ہے، جس کا ویڈیو ثبوت بھی موجود ہوتا ہے اور گواہ بھی۔ مگر پھر بھی عدالت سزا نہیں دے پاتی۔ ماڈل ٹاؤن میں شہریوں کو پولیس کے ہاتھوں قتل ہوتے براہ راست دیکھا جاتا ہے مگر کسی کو انصاف نہیں ملتا۔ لاہور موٹروے پر زیادتی ہوتی ہے تو حکومت اس سیاست میں لگ جاتی ہے کہ جب مجرم پکڑ میں آئے گا تو کون سی سزا دیں گے (جبکہ سب سزائیں پہلے سے قانون میں لکھی ہیں)۔ کوئٹہ سارجنٹ قتل کیس میں ویڈیو ثبوت ہونے کے باوجود مجرم کو چھوڑ دیا جاتا ہے۔ کہیں کہیں تو حکومت خود مجرم کو فرار کرواتی ہے اور پھر عدالت پر الزام ڈالتی ہے (نواز شریف کیس)، جبکہ دوسری طرف جب کسی طاقتور پر یا منصف پر کیس بنتا ہے تو فوراً انصاف ہو نہ ہو مگر فیصلہ ضرور ہوجاتا ہے۔

جس سرزمیں پر انصاف قائم نہ رہے، وہاں یا تو عدالتیں ختم ہوجاتی ہیں یا پھر ریاستیں۔ زمین اللہ کا باغ ہے، باغ میں گند ڈالنے والوں کو خدا پسند نہیں کرتا۔ یہ دنیا اللہ نے انسانیت کو معاشرتی سطح پر ذلیل کرنے کےلیے ہرگز نہیں بنائی۔ ریاستیں نظام کی سربلندی اور عدل و انصاف کی بقا کےلیے ہی وجود میں آتی ہیں۔ وطن میں اکثر بااختیار شہری ہی بےاختیار شہری کو کچلنے میں لگا ہے۔ آج! عراق، اسپین، بنگلادیش، ہندوستان، ترکی سب جگہ انسان موجود ہیں اور مسلمان بھی… مگر آج وہ سب ریاستیں ختم ہوچکی ہیں جو کبھی اس حسین دنیا پر بدنما داغ بن چکی تھیں۔

گزشتہ کچھ دہائیوں سے وطن عزیز میں انتظامی و عدالتی نظام جس تیزی سے گراوٹ کا شکار ہے، یہ وقت انہی زمانوں جیسا معلوم ہوتا ہے جو آخری وقتوں میں بغداد اور اندلس میں مسلمانوں کا ہوگیا تھا۔ ایسی صورتحال میں جب ریاست میں انصاف ناپید ہوجائے، تو آسمانوں سے انصاف نازل ہوتا ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

 

محمد رضا الصمد

محمد رضا الصمد

بلاگر نے جامعہ ہمدرد کراچی سے کمپیوٹر سائنس میں گریجویشن کی ہے اور کراچی انسٹیٹیوٹ آف اکنامکس اینڈ ٹیکنالوجی سے بزنس ایڈمنسٹریشن میں ماسٹرز کیا ہے۔ گزشتہ کچھ عرصے سے ایک نجی کمپنی میں آٹی کنسلٹنٹ کے طور پر منسلک ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔