جو بائیڈن نے ’اِن شاء اللہ‘ کیوں کہا؟

علیم احمد  جمعرات 1 اکتوبر 2020
صدارتی مباحثے میں جو بائیڈن نے ’’اِن شاء اللہ‘‘ کہا تھا۔ (فوٹو: فائل)

صدارتی مباحثے میں جو بائیڈن نے ’’اِن شاء اللہ‘‘ کہا تھا۔ (فوٹو: فائل)

صدارتی امیدواروں کے مباحثے میں جو بائیڈن صاحب نے ’’اِن شاء اللہ‘‘ کیا کہا، پورے کے پورے عالمِ اسلام میں بھونچال آگیا اور یوں محسوس ہونے لگا جیسے اگلے امریکی صدر کا نام ’’حاجی جو بائیڈن عفی عنہ‘‘ جیسا کچھ ہوگا۔ حالانکہ بات صرف اتنی سی تھی کہ صدارتی مباحثے کے میزبان نے موجودہ امریکی صدر یعنی ڈونلڈ ٹرمپ سے یہ پوچھ لیا کہ آخر وہ امریکی شہریوں کو اپنے انکم ٹیکس گوشوارے کب دکھائیں گے؟ ٹرمپ صاحب آئیں بائیں شائیں کرنے لگے تو بائیڈن نے طنز کرتے ہوئے کہا: ’’کب؟ اِن شاء اللہ؟‘‘… اور ساری دنیا میں شور مچ گیا۔

https://twitter.com/DanielGHajjar/status/1311121819093565441

سوشل میڈیا پر اس بارے میں لمبی چوڑی بحثیں دیکھ کر مجھے اپنے استاد جناب عظمت علی خاں یاد آگئے (اللہ تعالیٰ جنت میں ان کے درجات بلند کرے)۔ جب وہ کسی سے کچھ کام کہتے اور جواباً وہ شخص ’’اِن شاء اللہ‘‘ کہتا تو فوراً پوچھتے: ’’آپ نے اصلی اِن شاء اللہ کہا ہے یا آج کے مسلمانوں والا؟‘‘ استفسار پر وہ بتاتے: ’’آج کل کے مسلمانوں کو جب کوئی کام نہیں کرنا ہوتا تو وہ ’اِن شاء اللہ‘ کہہ دیتے ہیں؛ جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اگر اللہ نے چاہا تو یہ کام ہوجائے گا، ورنہ میرا ارادہ تو یہ کام کرنے کا بالکل بھی نہیں!‘‘ (میری یہ یادداشت بھی 28 سال پرانی ہے۔)

ذاتی تجربہ بھی یہی کہتا ہے کہ جو لوگ ہر کام پر ’اِن شاء اللہ‘ کہتے ہیں، وہ عملاً کچھ بھی کرکے نہیں دیتے۔

واقعہ یہ ہے کہ آج اِن شاء اللہ، ما شاء اللہ اور سبحان اللہ جیسے الفاظ کسی خاص مذہب یا عقیدے سے وابستگی کا ثبوت ہرگز نہیں رہے ہیں بلکہ ان کا تعلق تہذیب و تمدن سے زیادہ ہے۔ یہی وجہ کہ آج برصغیر میں صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ ہندو، سکھ، عیسائی، یہاں تک کہ سیکولر لوگ بھی ان الفاظ کا بکثرت استعمال کرتے ہیں۔

مسلمانوں، بالخصوص عرب مسلمانوں کے ذریعے یہ الفاظ دنیا بھر میں پھیل چکے ہیں اور کئی ملکوں میں مقامی تمدن کی مطابقت میں استعمال بھی ہورہے ہیں۔

امریکا کی بات کیجئے تو وہاں کا معاملہ بھی خاصا دلچسپ ہے کہ جہاں عرب ممالک سے آئے ہوئے مسلمانوں کے علاوہ عرب نژاد عیسائی بھی خاصی تعداد میں ہیں۔ اگرچہ ان گھرانوں میں ’اِن شاء اللہ‘ کا مطلب ’خدا نے چاہا‘ اور ’خدا کی مرضی‘ ہی لیا جاتا ہے لیکن اسی عربی لفظ کا ایک اور عوامی مفہوم ’کبھی نہیں‘ یا ’اسے بھول جاؤ‘ بھی رائج ہے جسے عام طور پر ’’اِنشلا‘‘ بولا جاتا ہے۔ (ویڈیو کلپ غور سے سننے پر معلوم ہوگا کہ جو بائیڈن صاحب نے ’’اِنشلا‘‘ ہی کہا ہے ’’اِن شاء اللہ‘‘ نہیں کہا۔)

یعنی اگر ہم امریکی تناظر میں دیکھیں تو دراصل جو بائیڈن یہ کہنا چاہ رہے تھے کہ ڈونلڈ ٹرمپ اپنے ٹیکس گوشوارے عوام کے سامنے ’’کبھی نہیں‘‘ لائیں گے۔ اپنے طنز اور تنقید کو انہوں نے بہت اختصار سے ’’اِنشلا‘‘ میں سمو دیا؛ اور مسلمانانِ عالم نہ جانے کیا سمجھ بیٹھے۔

ویسے آپس کی بات ہے، ہم تو جب بھی پاکستانی اربابِ اقتدار کو اپنی دھواں دھار تقاریر میں ’’اِن شاء اللہ‘‘ کا استعمال کرتے دیکھتے ہیں تو ہمیں ڈر لگتا ہے کہ جس بارے میں حکومت ’’اِن شاء اللہ‘‘ کی گردان کررہی ہے، اس کا بالکل الٹ نہ ہوجائے۔

اب آپ خود ہی دیکھ لیجیے کہ بغیر پرچی کے تقریر کرنے والے وزیرِاعظم صاحب جب بھی یہ کہتے ہیں کہ اِن شاء اللہ مہنگائی پر قابو پالیا جائے گا، اِن شاء اللہ چینی اور آٹا سستے کردیئے جائیں گے، اِن شاء اللہ بجلی سستی کردیں گے، اِن شاء اللہ غریبوں کے حالات سدھر جائیں گے… تو اگلے چند ہی دنوں میں آٹا، چینی اور بجلی نہ صرف مزید مہنگے ہوجاتے ہیں (یعنی خاموش حکومتی رضامندی سے مہنگے کردیئے جاتے ہیں) بلکہ غریبوں کے حالات بھی مزید دگرگوں ہوجاتے ہیں۔

ہوسکتا ہے کہ آپ کو ہمارا یہ لکھنا بُرا لگے اور آپ ہم پر کفر کے فتوے بھی لگادیں، لیکن سچ بہرحال یہی ہے کہ اب تو ’’سرکاری اِن شاء اللہ‘‘ سے خوف آنے لگا ہے… استغفراللہ سے ڈر نہیں لگتا صاحب، آپ کے ’اِن شاء اللہ‘ سے خوف آتا ہے!

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

علیم احمد

علیم احمد

بلاگر 1987ء سے سائنسی صحافت کررہے ہیں، ماہنامہ گلوبل سائنس سے پہلے وہ سائنس میگزین اور سائنس ڈائجسٹ کے مدیر رہ چکے ہیں، ریڈیو پاکستان سے سائنس کا ہفت روزہ پروگرام کرتے رہے ہیں۔ آپ ورلڈ کانفرنس آف سائنس جرنلسٹس میں پاکستان کی نمائندگی کرنے والے پہلے صحافی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔