جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے ۔۔۔!

علامہ محمد تبسّم بشیر اویسی  جمعـء 2 اکتوبر 2020
’’اس شخص پر انتہائی تعجّب ہے جو جنّت پر ایمان رکھتے ہوئے دنیا کے حصول میں سرگرم رہے۔‘‘ فوٹو: فائل

’’اس شخص پر انتہائی تعجّب ہے جو جنّت پر ایمان رکھتے ہوئے دنیا کے حصول میں سرگرم رہے۔‘‘ فوٹو: فائل

اﷲ تعالیٰ نے انسان کو اپنی عبادت کے لیے پیدا فرمایا! اسے خلافت و نیابت سے سرفراز فرمایا، عقل و شعور کی لازوال نعمت سے مالا مال کیا۔ لیکن انسان اپنی مادی اور سائنسی ترقی کے باوجود بھی آج بے چین و مضطرب ہے، اس کے فکر کے افق پر خوف ناک اندیشوں اور کرب ناک تصورات کے بادل چھائے ہوئے ہیں۔

قرآنِ حکیم وہ صحیفۂ ربّانی ہے جو خالقِ کائنات نے دُنیائے انسانیت کی رشد و ہدایت کے لیے خاتم النبیین محمد مصطفیٰ ﷺ پر نازل فرماکر یہ نسخۂ کیمیا ہمیں عطا فرمایا۔

ذکرِ خداوندی اور عبادت ربانی سے غفلت ہی کا نتیجہ ہے کہ آج ہمیں در در کی ٹھوکریں کھانے کے باوجود اطمینان اور چین کی زندگی نہیں مل پاتی۔ دنیا اور مال کی محبت اور ان میں حد سے زیادہ انہماک ہی کا یہ بُرا نتیجہ ہے کہ آج امت کے سر پر خطرات کے بادل منڈلا رہے ہیں۔ ظلم و ستم اور سرکشی و عدوان کی انتہاء ہو رہی ہے، ظالم اپنے پوری قوت امت کو نیست و نابود کر دینے میں صرف کر رہا ہے۔ اس کے امتیاز و تشخص کے خلاف ہر چہار جانب سے مختلف قسم کے حملے کیے جا رہے ہیں۔

نت نئے حربے اور اسلحے اس کی تباہی اور بربادی کے لیے استعمال کیے جارہے ہیں۔ مگر ہمیں اس کی فکر ہی نہیں کہ آخر کس طرح ہم ان تمام حملوں سے خود کو بچانے کی تراکیب کرسکتے ہیں۔ یہ دنیا اور اس کے تمام سازو سامان، زینت اور آرائش سب فانی ہیں۔ اس دنیائے فانی میں جو بھی آیا ہے اسے ایک دن ضرور یہاں سے اپنا رختِ سفر باندھنا اور ابدی منزل کی تیاری کرنا ہے۔

یہ ناپائیدار دنیا اس قابل نہیں کہ اس میں جی لگایا جائے اور اس کی محبت میں دل بستہ اور اس کی چاہت میں ایسے حواس باختہ ہوجائیں کہ اپنے خدا کو اور اپنے انجام کو بھی فراموش کردیں۔ اس دنیا کی محبت، اس کے ساز و سامان میں انہماک اور اس کی رنگینیوں میں ملوث رہنے والے مسلمان اپنے پیار ے آقا حضرت محمدؐ کے یہ ارشادات عالیہ بہ غور پڑھیں، سرکار مدینہؐ فرماتے ہیں: ’’اس شخص پر انتہائی تعجب ہے جو جنّت پر ایمان رکھتے ہوئے دنیا کے حصول میں سرگرم رہے۔‘‘

رسولِ رحمتؐ نے فرمایا: ’’ دنیا سبز (خوش آئند) اور شیریں ہے، اﷲ تعالیٰ نے تمہیں اپنا خلیفہ بنا کر بھیجا ہے اور وہ تمہارے اعمال سے باخبر ہے بنی اسرائیل پر جب دنیا فراخ کر دی گئی تو انہوں نے اپنی تمام تر کوششیں زیورات، کپڑوں، عورتوں اور عطریات کے لیے وقف کردی تھیں اور ان کا انجام تم نے دیکھ لیا۔‘‘

احادیث کریمہ میں دنیا اور مال میں دل نہ لگانے کی تاکید کی گئی ہے اور دنیا کی مذمت کی گئی ہے۔ جنہیں پڑھ کر ایک سلیم العقل اس جہانِ فانی کی محبت اور لگاؤ کو یقینا اپنے دل سے نکال دے گا۔ ہماری بربادی کی اور بہت سی وجوہات اور اسباب میں سے ایک بڑا سبب یہ بھی ہے کہ ہم نے آج محبت دنیا اور انہماک مال و دولت میں یومِ آخرت کو بھی فراموش کر دیا ہے، تصور آخرت سے ہم بالکل غافل ہوچکے ہیں۔ جب عالم آخرت کی طرف سب کا گزر ہوگا پھر اس کی تیاری کیوں نہیں کی جاتی؟

قرآن مجید میں بھی اس حقیقت کو بے نقاب کیا گیا ہے کہ دنیاوی زندگی مختصر ہے۔ اخروی زندگی ہی کام آنے والی ہے اور وہی ابدی ہے مگر پھر بھی یہ دنیا کو سب کچھ سمجھ بیٹھنے والا غافل انسان اپنی ساری جدوجہد اور دوڑ دھوپ فقط دنیوی زندگی کو باعزت اور آرام دہ بنانے کے لیے وقف کر رہا ہے اور اسے اپنی عاقبت سنوارنے کا خیال بھی نہیں آتا۔ جوں جوں دنیا کی محبت اس کے دل میں گھر بناتی جاتی ہے یہ غافل انسان اتنا ہی فکرِ آخرت سے دور ہوتا جاتا ہے۔ فانی دنیا میں دل لگانے کے بہ جائے آخرت کی فکر کرنے کے سلسلے میں احادیث نبویؐ میں بھی جا بہ جا تاکید آئی ہے اور کیوں نہ ہو کہ دنیا آخرت کی کھیتی ہے۔

یہاں انسان جو بھی بوئے گا اس کا ثمر وہ اخروی زندگی میں ضرور پائے گا۔ رسول اکرمؐ نے ہمیشہ اور ہر مقام پر اپنی گناہ گار امت کو یاد رکھا اور اس کی بخشش کے لیے دعائیں فرمائیں۔ فکرِ آخرت کی تاکید فرماتے ہوئے ایک مقام پر حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’میں تم پر دو چیزوں کے تسلط سے ڈرتا ہوں لمبی اُمیدوں اور خواہشات کی پیروی، بلا شبہ طویل امیدیں آخرت کی یاد بھلا دیتی ہیں اور خواہشات کی پیروی حق و صداقت سے روک دیتی ہے۔‘‘

ایک روایت کا مفہوم یوں ہے کہ حضورؐ، حضرت عائشہ صدیقہؓ کے قریب بستر پر استراحت فرما رہے تھے۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ آخرت کو یاد کرکے رو پڑیں اور ان کے آنسو حضورؐ کے چہرۂ انور پر گرے تو حضورؐ کی آنکھ کھل گئی۔ آپؐ نے فرمایا عائشہ! کیوں روتی ہو؟ عرض کیا حضورؐ! آخرت کو یاد کر کے روتی ہوں، کیا لو گ قیامت کے دن اپنے گھر والوں کو یاد کریں گے؟ آپؐ نے فرمایا: بہ خدا! تین جگہوں میں لوگوں کو اپنے سوا کچھ یاد نہیں ہوگا۔ جب میزان عدل رکھا جائے گا اور اعمال تولے جائیں گے، لوگ سب کچھ بھول کر یہ دیکھیں گے کہ ان کی نیکیاں کم ہوتی ہیں یا زیادہ۔ نامۂ اعمال دیے جانے کے وقت یہ سوچیں گے کہ دائیں ہاتھ میں ملتا ہے یا بائیں ہاتھ میں اور پل صراط سے گزرتے ہوئے سب کچھ بھول جائیں گے۔

صحابۂ کرام،ؓ رسول اﷲ ﷺ کے پروردہ تھے اور آپؐ کی بارگاہ سے دنیا اور آخرت کی بھلائیاں حاصل کرتے۔ فرمان نبویؐ پر وہ دل و جان سے عمل پیرا ہونے کی کوشش کرتے اور اس میں کام یاب و کام ران بھی ہوئے اور رسول اﷲ ﷺ نے انہیں فکرِ آخرت کی جو تعلیم عطا فرمائی اور اس پر وہ کس قدر عامل ہوئے۔

ذرا سیدنا ابودرداءؓ کے مندرجہ ذیل ارشادات ملاحظہ فرمائیے: ’’اے لوگو! جو کچھ میں جانتا ہوں اگر تم جانتے تو آبادی چھوڑ کر ویران ٹیلوں کی طرف نکل جاتے اور اپنے کو ریاضت میں مشغول کرتے، گریہ و زاری کرتے اور ضروری سامان کے علاوہ تمام مال و متاع چھوڑ دیتے لیکن دنیا تمہارے اعمال کی مالک بن گئی ہے اور دنیا کی اُمیدوں نے تمہارے دل سے آخرت کی یاد مٹا کر رکھ دی ہے اور تم اس کے لیے جاہلوں کی طرف سرگرداں ہو، تم میں سے بعض لوگ جانوروں سے بھی بدترین ہیں جو اپنی خواہشات میں اندھے بن کر انجام کی فکر نہیں کرتے، تم سب دینی بھائی ہو تے ہوئے ایک دوسرے سے محبت نہیں کرتے اور نہ ہی ایک دوسرے کو نصیحت کرتے ہو۔

تمہارے خبث باطن نے تمہارے راستے جدا کردیے ہیں اگر صراط مستقیم پر چلتے تو ضرور باہم محبت کرتے، تم دنیاوی امور میں باہم مشورے کرتے اور تم اس ذات سے محبت رکھتے جو تمہیں محبوب رکھتا ہے، تمہارا آخرت کی بھلائی کی طرف ایمان کم زور پڑچکا ہے اگر تم آخرت کی بھلائی پر یقین رکھتے جیسے دنیاوی اونچ نیچ پر یقین رکھتے ہو تو تم دنیا پر آخرت کو ترجیح دیتے، کیوں کہ آخرت تمہارے اعمال کی مالک ہے۔

اسی طرح وہ نفوسِ قدسیہ جنہوں نے اسلام اور ہادی اسلام حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کو اپنا راہ نما بنایا عبادت و ریاضت، اخلاق و کردار، خوف و خشیت ربانی، جہاد و مجاہدہ، صدق مقال، اکل حلال، صفائے نفس، تطہیر قلب، تزکیۂ باطن اور دیگر شعبہ ہائے دین و شریعت میں اپنی مثال آپ ہوا کرتے۔ جنہوں نے مرضیاتِ الہٰی کی طلب میں اپنے نفس کو ریاضت و مجاہدہ کے ذریعے مطیع و فرمان بردار بنایا اور دنیاوی و اخروی بھلائیاں حاصل کیں، دنیا کی محبت و انہماک کے بہ جائے آخرت کی پونجی جمع کرنے میں مساعی جمیلہ کیں۔ جن کی پوری زندگی ہمارے لیے نمونۂ عمل ہے ذرا ان پاک باز ہستیوں کے بھی تصور آخرت کے متعلق اقوال و ارشادات ملاحظہ کرتے چلیں۔

حضرت مالک بن دینارؒ کا ارشاد گرامی ہے: ’’تم جس قدر دنیا کے لیے غمگین ہو تے ہو اسی قدر آخرت کا غم کم ہو جاتا ہے۔ جس قدر آخرت کا غم کھاتے ہو اسی قدر دنیا کا غم مٹ جاتا ہے۔‘‘

حضرت ابراہیم بن ادہمؒ سے دنیا کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے فرمایا: ’’ہم نے دنیا کے لیے دین کو پارہ پارہ کر دیا مگر نہ دنیا ملی اور نہ دین باقی رہا۔‘‘

کسی دانا نے اس دنیائے فانی کی حقیقت کو یوں آشکار ہ کیا ہے: ’’وہ بندہ خوش نصیب ہوتا ہے جس نے اﷲ تعالیٰ کی طرف توجہ کی اور دنیا کو اچھی آخرت کی اُمید میں صرف کر دیا۔‘‘

ایک حکیم دانا کہتا ہے: ’’یہ دُنیا کسی اور کی طرف منتقل ہوجائے گی۔ اسے راہِ خدا میں خرچ کردے تجھے بخشش سے ہم کنار کر دے گی۔‘‘

’’ تیری دنیا سایے کی طرح ہے۔ کچھ دیر تیرے اُوپر سایہ کرتی ہے گی اور ڈھل جائے گی۔‘‘ (بہ حوالہ: مکاشفۃ القلوب)

دنیا عارضی اور آخرت ابدی ہے۔ ہمیں دنیا میں رہ کر آخرت کی تیاری کرنا ہے تاکہ ہمیشہ کی زندگی آسائش سے ہم کنار ہو۔ اگر عقیدۂ فکر آخرت ہمارے ذہنوں میں نقش ہوجائے تو گناہ و معاصی کی شرح میں بھی خاطر خواہ کمی آسکتی ہے۔

اﷲ تعالیٰ ہمیں فکر آخرت سے اپنے اعمال سنوارنے کی توفیق دے۔ آمین

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔