چین اور امریکا کے تصادم کی تاریخ

سید عاصم محمود  اتوار 4 اکتوبر 2020
ان تاریخی عوامل کا تحّیر خیز قصہ جن کے بطن سے دو سپر پاورز کے معاشی و عسکری ٹکراؤ نے جنم لیا ۔  فوٹو : فائل

ان تاریخی عوامل کا تحّیر خیز قصہ جن کے بطن سے دو سپر پاورز کے معاشی و عسکری ٹکراؤ نے جنم لیا ۔ فوٹو : فائل

یہ 22 مئی 2013ء کی بات ہے جب پاکستان میں ’’سی پیک‘‘ (پاک چین اقتصادی راہداری) منصوبے کا باقاعدہ آغاز ہوا۔ یہ چین کے زیادہ بڑے منصوبے’’ بیلٹ اینڈ روڈ انشیٹیو‘‘ کا حصہ ہے جو دنیا کے ساٹھ ممالک میں پھیلا ہے۔

اس عظیم الشان منصوبے کے ذریعے چینی حکومت سبھی ممالک میں انفراسٹرکچر بناکر اپنا تجارتی نیٹ ورک مستحکم کرنا چاہتی ہے۔ مقصد یہ ہے کہ تمام ممالک مل جل کر ترقی و خوشحالی سے مستفید ہوں۔ منصوبے پر چار تا آٹھ ٹریلین ڈالر لاگت آئے گی۔سی پیک درج بالا چینی منصوبے کا اہم حصہ ہے۔

اس کے تحت پاکستان میں شاہراہیں، بجلی گھر، ڈیم، اکنامک زون اور ریلوے ٹریک تعمیر ہورہے ہیں۔ سی پیک منصوبے کی مالیت87 ارب ڈالر تک پہنچ چکی۔ یہ بنیادی طور پر اس لیے شروع کیا گیا تاکہ چین کو اپنے تجارتی سامان کی نقل و حمل کے لیے بحیرہ عرب میں ایک نئی بندرگاہ ’’گوادر‘‘ مل سکے۔ پچھلے چند برس سے گوادر کی اہمیت کچھ کم ہوگئی تھی مگر بین الاقوامی سطح پر جنم لیتی تبدیلیوں نے گوادر کو دوبارہ ارضی سیاسیات (جیوپولیٹکس) میں اہم مقام دے ڈالا ۔

ان تبدیلیوں کا آغاز یکم جنوری 2017ء سے ہوا جب امریکا کے صدر ڈونالڈٹرمپ نے حکومت سنبھالتے ہی صرف اکیس روز بعد چین سے تجارتی جنگ چھیڑ دی۔ 22 جنوری کو انہوں نے شمسی پینلوں کی درآمد پر 30 فیصد ٹیکس (ٹیرف) عائد کردیا۔ اسی طرح واشنگ مشینوں کی آمد پر بھی 20 فیصد ٹیکس عائد ہوا۔امریکی سب سے زیادہ شمسی پینل اور واشنگ مشینیں چین سے منگواتے ہیں۔ اسی لیے ان ٹیکسوں کے نفاذ کو چین کے خلاف تجارتی جنگ چھیڑنے کے مترادف سمجھا گیا اور بات بھی یہی تھی۔صدر ٹرمپ سمجھتے ہیں کہ چینی حکومت نے ’’نامنصفانہ تجارتی پالیسیاں‘‘ اختیار کر رکھی ہیں۔

اور یہ کہ چینی چوری چھپے اور حیلے بہانوں سے امریکی ٹیکنالوجی چوری کر کے کر چین لے جارہے ہیں۔ نامنصفانہ تجارتی پالیسیوں کے باعث باہمی تجارت میں زبردست عدم توازن پیدا ہوگیا۔ 2016ء میں امریکا نے چین سے 479 ارب ڈالر کی اشیا خریدیں جبکہ وہ صرف 170 ارب ڈالر کا امریکی سامان چینیوں کو فروخت کرسکا۔ گویا اس سال باہمی تجارت میں امریکا کو 386 ارب ڈالر خسارہ ہوا۔یہ خسارہ کم کرنے کی خاطر ہی ٹرمپ نے برسراقتدار آتے ہی چین سے تجارتی جنگ کا آغاز کردیا اور چینی سامان پر ٹیکس لگانے لگے۔ چین کی حکومت بھی جواباً امریکی مال پر ٹیرف عائد کرنے لگی۔

قوت پاتا چین

تجارتی جنگ چھڑنے کی اہم وجہ یہ بھی ہے کہ معاشی، عسکری اور سیاسی لحاظ سے طاقتور ہوتے چین کو امریکا اپنا سب سے بڑا حریف سمجھتا ہے۔ امریکی حکمران طبقے کا خیال ہے کہ چین کا عروج دنیا میں امریکا کی سپرمیسی ختم کردے گا۔ جبکہ وہ اپنے مفادات کی خاطر امریکا کو بدستور کرۂ ارض کی اکلوتی سپرپاور رکھنا چاہتا ہے۔ یہ مفادات معاشی، سیاسی اور عسکری ہیں۔مثلاً امریکا اکلوتی سپرپاور نہ رہے تو اس تبدیلی سے مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کی حیثیت کو نقصان پہنچے گا۔ دنیا میں امریکی حکمران طبقہ اسرائیل کا سب سے بڑا پشتی بان ہے۔

امریکا کے کمزور ہونے سے اسرائیلی حکومت کو بھی ضعف پہنچے گا اور خطّے میں اس کے لیے مشکلات بڑھ جائیں گی۔ مثلاً پھر اقوام عالم اسرائیل پر دباؤ ڈال سکیں گی کہ وہ آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کا اعلان کردے۔ اسرائیل کو محفوظ رکھنے کی خاطر ہی امریکی حکمران طبقے میں شامل یہودی اور ان کے دوست، اناجیلی عیسائی بھرپور کوششیں کرتے ہیں کہ امریکا عسکری، سیاسی اور معاشی طور پر مشرق وسطیٰ کے معاملات میں اہم کردار ادا کرتا رہے۔ اسرائیل اور عرب ممالک کے مابین معاہدہ دوستی کرانے میں بھی ٹرمپ حکومت نے نمایاں حصہ لیا۔

دنیا پر سپرمیسی پانے کی خاطر امریکا اور چین کے مابین جاری جنگ کا ایک اہم محاذ جنوبی ایشیا بن چکا۔ اسی لڑائی میں پاکستان نے اپنی جغرافیائی حیثیت کے باعث اہمیت حاصل کرلی۔ یہ عجوبہ جنم لینے کی اہم وجہ یہ کہ امریکا اور بھارت کے مابین قربت بڑھ رہی ہے۔ امریکی حکمران طبقہ بھارتی اسٹیبلشمنٹ کو اکسارہا ہے کہ وہ خطے میں چین کے خلاف معاشی، سیاسی، عسکری اور معاشرتی لحاظ سے پالیسیاں تشکیل دے تاکہ اسے نقصان پہنچ سکے۔ مقصد یہ ہے کہ خطے میں چین کا اثرورسوخ بڑھنے سے روکا جاسکے۔

صدر اوباما کے دور میں بھارت کی کانگریسی حکومت نے کھلم کھلا امریکیوں کا طفیلی بننے سے گریز کیا تھا۔ نریندر مودی مگر وزیراعظم بنتے ہی امریکی اسٹیبلشمنٹ سے تعلقات بڑھانے لگا۔ قوم پرست ٹرمپ صدر بنے تو جلد مودی ان کا چیلا بن گیا۔مودی حکومت نے پھر چین کو معاشی و سیاسی طور پر نقصان پہنچانے والی پالیسیاں بتدریج اختیار کرلیں۔ مثلاً نیپال، بنگلہ دیش، بھوٹان اور سری لنکا میں چین کا اثرورسوخ روکنے کے اقدامات کیے۔ بھارت چین مخالف علاقائی اتحادوں کا حصہ بن گیا۔ تبت کے باغیوں کی حمایت کی جانے لگی۔ تائیوان سے بھی تعلقات بڑھائے گئے۔

چینی حکمران اپنے پڑوسی کی بدمعاشی اور ’’بغل میں چھری، منہ پر رام رام‘‘ والی پالیسی کب تک برداشت کرتے؟ آخر کچھ عرصہ قبل لداخ میں دونوں قوتوں کا عسکری ٹکراؤ ہوگیا۔ اس تصادم میں چین کو فتح ملی اور اس نے بھارتی علاقے کے کئی سو مربع کلو میٹر رقبے کو اپنی ملکیت میں شامل کرلیا۔ بوکھلائی ہوئی مودی حکومت معمولی چینی ایپس پر پابندی لگا کر ہی جواب دے سکی اور اسے اپنا ’’شاندار کارنامہ‘‘ قرار دیا۔ مقصد یہ تھا کہ بھارتی عوام کو مطمئن کیا جاسکے جو اپنے جنگجو وزیراعظم سے بھرپور حملے کی توقع کررہے تھے۔

چینی تشویش کی وجہ

امریکا اور بھارت کے گٹھ جوڑ سے بہرحال چینی اسٹیبلشمنٹ کو شدید تشویش ہے۔ وجہ یہ کہ بحرہند میں بھارت بڑی بحری قوت کی حیثیت رکھتا ہے جبکہ اسی سمندر کے راستے چین کی 70 تا 90 فیصد تجارت انجام پاتی ہے۔ چین بحرہند کے راستے ہی مشرق وسطیٰ، افریقہ، یورپ اور شمالی و جنوبی امریکا اپنا سامان تجارت بھجواتا اور بیرون ممالک سے منگواتا ہے۔ بھارت اور امریکا کے ساتھ بڑھتی کشیدگی سے یہ خطرہ جنم لے چکا کہ مستقبل میں کسی بڑی جنگ کے دوران بھارتی بحریہ بہ آسانی چین آنے جانے والے بحری جہازوں کی ناکہ بندی کرسکتی ہے۔

گویا بھارت اس پوزیشن میں ہے کہ وہ جنگ کی صورت میں چین کی تجارت منجمند کرکے رکھ دے۔ مودی سرکار تیزی سے بھارتی بحریہ کو جدید جنگی جہازوں اور آبدوزوں سے لیس کررہی ہے۔اس جنم لیتی نئی صورتحال میں درہ خنجراب سے گوادر تک کے ارضی راستے نے زیادہ اہمیت حاصل کرلی۔

اگر امریکا و بھارت سے تصادم کی صورت دونوں قوتیں بحرالکاہل اور بحرہند میں چین کے بحری جہازوں کی آمدورفت روک دیتی ہیں تو تب بھی چینی حکومت گوادر کے راستے مشرق وسطیٰ، یورپ، افریقا اور جنوبی امریکا سے رابطہ رکھے گی۔یہ روس سے جانے والے راستے کی نسبت چھوٹا اور سیدھا ہے۔ یوں دشمن چین کی تجارت مکمل طور پر روک نہیں سکے گا اور چینی حکومت کو آکسیجن ملتی رہے گی۔ حالات سے عیاں ہے کہ بدلتی صورتحال میں پاکستانی راستہ چینی اسٹیبلشمنٹ کے لیے اہم ہوتا جارہا ہے۔

صدر ڈونالڈ ٹرمپ اگر حالیہ صدارتی الیکشن جیت گئے تو امریکا اور چین کی معاشی و عسکری جنگ مزید شدت اختیار کرجائے گی۔ وجہ یہ کہ ٹرمپ چین سے تجارت کم سے کم کرنا چاہتے ہیں۔ مدعا یہ ہے کہ تجارتی خسارہ ختم ہوسکے۔ ماہرین معاشیات نے اس ٹرمپ پالیسی کو ’’ڈی کپلنگ‘‘ (decoupling) کا نام دیا ہے۔ اس پالیسی کے تحت امریکا میں مختلف سامان بنانے والی کمپنیاں قائم کی جائیں گی تاکہ بیشتر اشیا بیرون ممالک خصوصاً چین سے نہ منگوانا پڑیں۔ نیز اس طرح امریکیوں کو روزگار بھی میسر آئے گا۔ ڈی کپلنگ کی پالیسی مگر امریکا اور چین کے مابین تناؤ بڑھا دے گی۔

عین ممکن ہے کہ سرد جنگ کے دوران کسی علاقائی مسئلے مثلاً تائیوان یا بحیرہ جنوبی چین میں قدرتی گیس و تیل کے ذخائر کی وجہ سے دونوں عالمی طاقتوں میں عسکری تصادم ہو جائے۔کم ہی پاکستانی جانتے ہیں کہ چین اور مغرب کے مابین معاشی، عسکری اور معاشرتی تصادم کوئی نیا عجوبہ نہیں بلکہ اس کی جڑیں بہت گہری ہیں۔ چونکہ امریکا دور حاضر میں مغرب کا سب سے بڑا نمائندہ بن چکا، اسی لیے چین کے ساتھ اس کا وہ ٹکراؤ جاری ہے جو آج سے پانچ سو سال قبل شروع ہوا تھا۔ اس تصادم کی تاریخ حیرت انگیز اور ڈرامائی ہے۔ یہ داستان ہمیں سبق دیتی ہے کہ انسان جب لالچی، مفاد پرست اور ہوسناک بن جائے تبھی وہ اپنی سرگرمیوں سے دیگر انسانوں کو بھی جنگ کے الاؤ میں دھکیل دیتا ہے۔

پرتگالیوں کی آمد

داستان کا آغاز 15 ستمبر1517ء سے ہوتا ہے جب فرناؤ پائیرس ڈی اندریدی (Fernão Pires de Andrade)چین میں واقع دریائے پرل کی بندرگاہ کینٹن پہنچا۔ مقامی انتظامیہ نے اسے وہاں ایک تجارتی کوٹھی (مرکز) قائم کرنے کی اجازت دے دی۔ فرناؤ پائیرس پرتگال کا تاجر اور سفارت کار تھا۔ یہ پہلا موقع تھا کہ کسی یورپی تاجر کو چین میں تجارتی مرکز قائم کرنے کی اجازت ملی۔ چین پچھلی کئی صدیوں سے براہ ایشیا یورپ سے تجارت کررہا تھا۔ لہٰذا کسی یورپی تاجر کا چین میں اپنا مرکز بنالینا بظاہر غیر معمولی واقعہ نہ تھا۔

مگر چینی حکمران اور عوام، دونوں اس امر سے بے خبر تھے کہ پرتگالی اور ہسپانوی حکمرانوں نے تجارت کو اپنے شرانگیز منصوبے پوشیدہ رکھنے کا ذریعہ بنالیا ہے۔ اور یہی تجارت انہیں مستقبل میں ذلت و رسوائی دینے والی تھی۔دراصل پرتگال اور اسپین کے حکمران مل جل کر 1490ء تک اپنے علاقوں میں طاقتور اسلامی ریاستیں ختم کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ اس فتح نے ان حکمرانوں کو مغرور و متکبر بنا دیا۔ وہ پھر ایشیا اور افریقہ میں اسلامی علاقوں پر قبضہ کرنے کے منصوبے بنانے لگے۔ ایک مقصد یہ بھی تھا کہ انڈونیشیا و ملایا جانے کا نیا بحری راستہ مل سکے۔

یہ دونوں علاقے مسالوں کی کاشت کے مرکز تھے جن کی یورپی منڈیوں میں بہت مانگ تھی۔ مسئلہ یہ تھا کہ 1453ء میں ارطغرل کی اولاد میں سے ایک مرد مجاہد، سلطان محمد فاتح نے قسطنطنیہ فتح کرلیا تھا۔ ایشیائی ممالک سے سارا تجارتی سامان اسی شہر کے راستے یورپ آتا تھا۔1453ء سے قبل قسطنطنیہ سلطنت مشرقی روما کا صدر مقام تھا۔ وہاں کی عیسائی حکومت یورپ جانے والے تجارتی سامان پر بہت کم ٹیکس لگاتی تھی۔ لیکن عثمانی ترک شہر کے حکمران بنے تو انہوں نے تجارتی سامان پر ٹیکس بڑھا دیئے۔

اس باعث یورپی منڈیوں میں پہنچنے والا تجارتی سامان بھی مہنگا ہوگیا۔ اس مہنگائی سے یورپی عوام بہت پریشان ہوئے اور اپنے حکمرانوں سے مطالبہ کرنے لگے کہ مسالے، ریشم، چینی کے برتن، چائے، اناج اور براعظم ایشیا سے آنے والی دیگر اشیا سستی کی جائیں۔ مگر حکمران مہنگائی پر کیسے قابو پاتے؟ اگر تاجروں پر قیمتیں کم کرنے کا دباؤ ڈالتے تو وہ تجارتی سامان لانا بند کردیتے۔ یوں روزمرہ استعمال کی اشیا کی قلت کا نیا مسئلہ جنم لے لیتا۔

مہنگائی میں اضافہ شروع سے انسانی معاشروں کا ایک بڑا مسئلہ رہا ہے۔ اس مسئلے کے باعث کئی بار حکمرانوں کو اپنے اقتدار سے محروم ہونا پڑا۔ اسی لیے ایشیا کا تجارتی سامان مہنگا ہونے سے یورپی ممالک میں عوام غم و غصّے میں مبتلا ہوئے تو وہاں کے حکمرانوں کو اپنے تخت بچانے کی فکر پڑگئی۔ مسئلے سے نکلنے کے حل سوچے جانے لگے۔

اسی غورو فکر سے یہ نکتہ سامنے آیا کہ ایسا بحری راستہ تلاش کیا جائے جو قسطنطنیہ کو بائی پاس کرتے ہوئے یورپی تاجروں کو انڈونیشیا و ملایا پہنچا دے۔ اس راستے کی دریافت سے یہ فائدہ بھی ملتا کہ تجارت کے لیے ایشیائی تاجروں کی ضرورت نہ پڑتی جن میں سے اکثر مسلمان ہوتے تھے۔

اسلامی علاقوں پر قبضے اور نئے تجارتی بحری راستے کی تلاش کے لیے پرتگالی و ہسپانوی بادشاہ اندلس پر قابض ہوتے ہی مہمات بجھجوانے لگے۔ 3 اگست 1492ء کو کرسٹوفر کولمبس نامی اطالوی ملاح کی زیر قیادت ایک ہسپانوی بیڑے نے اپنے سمندری سفر کا آغاز کیا۔

کولمبس انڈونیشیا پہنچنا چاہتا تھا مگر 12 اکتوبر کو شمالی امریکہ جاپہنچا۔ 8 جولائی 1497ء کو پرتگالی ملاح، واسکوڈی گاما اپنا بحری بیڑا لیے روانہ ہوا۔ وہ آخر کار افریقا کے نیچے سے گزرتے ہوئے ہندوستان اور انڈونیشیا کا نیا بحری راستہ ڈھونڈنے میں کامیاب رہا۔1500ء سے 1550ء کے دوران اس پچاس سالہ عرصے میں اپنی حکومتوں کی زیرپرستی پرتگالی اور ہسپانوی تاجروں اور مہم جوؤں نے افریقا، ہندوستان، انڈونیشیا و ملایا اور امریکا کے علاقوں پر قبضہ جمایا اور وہاں حکومت کرنے لگے۔ ان یورپی تاجروں کی سپاہ جدید اسلحے سے لیس تھی۔ اسی لیے علاقوں کی مقامی آبادی ان کا مقابلہ نہ کرسکی۔ اس امر نے یورپی تاجروں کو آمر بنا ڈالا۔ اب ان کی شیطانی اصلیت بھی ظاہر ہوئی۔

یورپی تاجروں نے جن علاقوں پر قبضہ کیا، وہاں کی آبادی کو اپنا غلام بنالیا۔ علاقوں کے قدرتی وسائل مثلاً اناج، مسالے، معدنیات، مویشی وغیرہ لوٹ کر اپنے ملک لے جاتے۔ مقامی لوگوں پر دباؤ ڈالا جاتا کہ وہ عیسائیت قبول کرلیں۔ ان پر ٹیکسوں کی بھی بھرمار کردی گئی۔ جو مقامی باشندے یورپی آمریت تسلیم نہ کرتے، انہیں خوفناک تشدد کا نشانہ بنایا جاتا۔ کرسٹوفرکولمبس اور واسکوڈی گاما، دونوں مختلف مفتوحہ علاقوں کے منتظم رہے۔ اور دونوں نہایت ظالم و جابر تھے۔ مقامی قبائل اور مسلمانوں پر ان کے مظالم کی تفصیل متفرق کتب میں ملتی ہے جسے پڑھتے ہوئے رگ و پے میں سنسنی دوڑ جاتی ہے۔ مغربی مورخین نے ان مظالم کی تاریخ اور داستانوں کو ’’نوآبادیاتی دور‘‘ (colonialism) کا بظاہر معصوم سا نام دے رکھا ہے۔ مگر اس کی اصلیت بڑی خوفناک ہے۔

انڈونیشیا و ملائشیا میں چینی تاجر بھی موجود تھے۔ پرتگالی و ہسپانوی تاجروں نے ان سے تعلقات بڑھالیے۔ یہ امر مگر حکومت چین کو ناگوار گزرا۔ وجہ یہ کہ تب صرف چینی حکومت کے نمائندے ہی غیر ملکی تجارت کرسکتے تھی۔ لہٰذا انڈونیشیا و ملائشیا میں مقیم چینی تاجر حکومت چین کی رو سے غیر قانونی اور ناجائز تجارت میں ملوث تھے۔ اس طرح چینی قوم کو علم ہوا کہ یورپی تاجر اپنے فائدے اور مفادات پورے کرنے کی خاطر ناجائز، غیر اخلاقی اور غیر قانونی کام بھی بلا دھڑک انجام دے سکتے ہیں۔

زیادہ سے زیادہ رقم کمانا ان کا مقصد زندگی ہے۔ اسی لیے چین میں یورپی باشندوں کے لیے ناپسندیدہ جذبات و خیالات نے جنم لیا اور انہیں مادہ پرست سمجھا جانے لگا۔چین میں مسلمان عرب تاجر کئی صوبوں سے تجارت کررہے تھے۔ انہیں بالعموم ایمان دار اور مخلص سمجھا تھا۔ اسی باعث چینی معاشرے میں کئی مسلمانوں نے نمایاں مقام پایا۔ چینی حکمران مگر غیر ملکیوں سے عموماً سرد مہری کا سلوک کرتے تھے۔ خاص طور پر نووارد تو شک و شبے کی نگاہ سے دیکھے جاتے۔ پرنگیزی بھی اجنبی تھے۔

اس لیے چین کے سرکاری عہدیداران کی چھان بین کرنے لگے۔ تب چینی شہنشاہ جنگ دو کی حکومت تھی جس نے پرتگال کا نام بھی نہیں سنا تھا۔ چناں چہ شاہی دربار میں یہ بحث و مباحثہ ہونے لگا کہ پرتگال کہاں واقع ہے اور کیسا ملک ہے۔ اِدھر پرتگالی تو اپنی عسکری طاقت کے نشے میں مخمور تھے۔ انہیں یہ پسند نہیں آیا کہ چینی حکومت انہیں نظر انداز کررہی ہے۔ لہٰذا وہ اپنی طاقت کے جوش میں چینی قوانین اور روایات پامال کرنے لگے۔ انہوں نے بعض ساحلی مقامات پر قلعے بنالیے۔ مقامی تاجروں سے اغوا شدہ بچے بچیاں خریدنے لگے تاکہ انہیں غلام بناکر اپنے ساتھ لے جاسکیں۔ پرتگیزی جس چینی علاقے میں قیام کرتے، وہاں بندوقیں سنبھال کر غنڈوں کی طرح گھومتے رہتے۔

اس غنڈہ گردی سے قدرتاً چینی حکومت کو بہت تاؤ آیا۔ جلد ہی پرتگالی اور چینی فوجیوں کے مابین جھڑپیں ہونے لگیں۔ چینی افواج کا اسلحہ فرسودہ تھا مگر ان کی تعداد بہت زیادہ تھی۔ عددی برتری سے فائدہ اٹھا کر آخر چینی فوجیوں نے پرتگالیوں کو مار بھگایا۔ بہت سے پرتگالی مارے گئے، کئی قید ہوئے۔چھوٹے پیمانے پر ہوئی اس جنگ نے چین میں یورپیوں کے خلاف نفرت بڑھادی۔ اس باعث یورپی تاجروں و چینیوں کا اعتماد بحال کرنے میں تیس چالیس سال لگ گئے۔ اس دوران یورپی تاجروں کو بھی سمجھ آگئی کہ تجارت امن و امان کے ماحول ہی میں ممکن ہے۔ لہٰذا انہوں نے اپنی خودسری اور غرور ترک کردیا۔ یہ تاجر چین سے چائے، چینی کے برتن اور ریشم یورپی منڈیوں میں لے جانے لگے جہاں ان اشیا کی مانگ تھی۔

انگریز بھی آ پہنچے

1600ء کے بعد ہالینڈ کی ڈچ ایسٹ کمپنی اور برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی بھی ایشیائی تجارت میں کود پڑیں۔ اگلے پچاس برس میں انہوں نے پرتگالی اور ہسپانوی تاجروں کو شکست دے کر ایشیائی تجارت پر اجارہ داری قائم کرلی۔ 1635ء کے بعد ایسٹ انڈیا کمپنی کے تجارتی جہاز چین آنے جانے لگے۔ یوں چین اور برطانیہ کے مابین تجارت بڑھتی چلی گئی۔رفتہ رفتہ یورپی باشندے خصوصاً برطانوی چین کی چائے کے شیدائی بن گئے۔ چناں چہ یورپی تجارتی کمپنیاں چین سے بڑی مقدار میں چائے اور چینی کے برتن درآمد کرنے لگیں۔

اس تجارت میں چین کا پلہ بھاری تھا۔ وجہ یہ کہ چین میں یورپی اشیا کی مانگ بہت کم تھی۔ اسی لیے یورپی کمپنیاں بہت کم اپنا سامان چین میں فروخت کرپاتی تھیں۔اس تجارت کا ایک منفرد پہلو یہ تھا کہ حکومت چین صرف سونے چاندی کے بدلے اپنا مال یورپی کمپنیوں کو فروخت کرتی تھی۔ کاغذی نوٹ کی چینی حکمرانوں کے سامنے کوئی اہمیت نہ تھی۔

اس وقت تک یورپی لاطینی امریکا اور افریقہ پر قبضہ کرچکے تھے جہاں سونے چاندی کے وسیع ذخائر تھے۔ یورپی استعمار دونوں براعظموں سے خزانے لوٹ کر اپنے ممالک میں لانے لگا۔ سونے چاندی کو سّکوں کی صورت ڈھال لیا جاتا۔ غرض لاطینی امریکا اور افریقہ میں ڈاکے ڈال کر یورپی ممالک کو جو سونا چاندی ملتا، وہ چین بھجوا دیا جاتا۔اسپین یورپی ممالک کو سونا چاندی فراہم کرنے والا اہم ملک تھا۔ اٹھارہویں صدی کے آخر میں اسپین نے برطانیہ کو ان معدنیات کی فراہمی روک دی۔ اس بندش کی وجہ چینی چائے بنی ۔

قصّہ یہ ہے کہ ایسٹ انڈیا کمپنی چین سے چائے لاکر امریکا میں فروخت کرتی تھی۔1780ء کے بعد امریکا میں چائے کی خرید و فروخت پر برطانوی حکومت نے مختلف ٹیکس لگا دیئے۔ امریکی تاجروں اور عوام نے ان ٹیکسوں کے خلاف احتجاج کیا۔ جب برطانوی حکومت نے زبردستی احتجاج ختم کرنا چاہا تو وہ پورے امریکا میں پھیل کر جنگ آزادی کی صورت اختیار کرگیا۔اس جنگ میں اسپین نے امریکی عوام کا ساتھ دیا اور برطانیہ سے تجارتی و معاشی تعلقات ختم کردیئے۔ اس باعث برطانوی حکومت کو اسپین سے سونے چاندی کا خام مال ملنا بند ہوگیا۔ چناں چہ جلد وہاں طلائی اور نقرئی سّکوں کی قلت نے جنم لیا۔ اس قلت نے سب سے زیادہ چین کے ساتھ تجارت کو متاثر کیا کیونکہ چینی حکومت صرف طلائی یا نقرئی سکوں کے عوض اپنا مال فروخت کرتی تھی۔

پچھلے ایک سو سال(1650ء تا 1750ء) کے دوران یورپ سے تجارت نے چین میں طلائی و نقرئی سکوں کی ریل پیل کردی تھی۔ اس عرصے میں چین اور ہندوستان دنیا کی دو سب سے بڑی معاشی و سیاسی قوتیں بن گئیں۔ گویا تب وہ سپرپاور کی حیثیت رکھتی تھیں۔ دونوں ممالک میں خوشحالی کا دور دورہ تھا۔ اندرونی طور پر متحارب گروہوں کے مابین لڑائیاں بھی ہوتیں مگر عوام الناس مجموعی طور پر سکھ چین سے زندگی بسر کرتی رہے۔ مہنگائی بہت کم تھی اور اشیائے ضرورت انہیں وافر دستیاب تھیں۔برطانیہ کا حکمران طبقہ مگر چین اور ہندوستان سے خسارے کی تجارت پر ناخوش تھا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کے شاطر ڈائریکٹر اور کرائے کے فوجی مگر برطانوی حکمرانوں کی ناخوشی دور کرنے میں کامیاب رہے۔

انہوں نے (1756ء تا 1765ء) امیر ترین ہندوستانی صوبے، بنگال کے نواب کے خلاف سازشیں کرکے انہیں شکست دی اور صوبے پر قبضہ کرلیا۔ اسی صوبے سے انگریزوں کو ایسی شے ہاتھ آئی جس کے ذریعے وہ چین کو جھکنے پر مجبور کر سکے، اس کا نام ’’افیون‘‘ تھا۔افیون پچھلی کئی صدیوں سے چین اور ہندوستان کے صرف امیر طبقے میں بطور نشہ مستعمل تھی۔ عام لوگ بہت کم اسے استعمال کرتے۔ درحقیقت چین اور ہندوستان کے مسلمان بادشاہوں نے وقتاً فوقتاً افیون کے استعمال پر پابندی لگائے رکھی کیونکہ وہ عوام کو کاہل اور سست بنادیتی تھی۔ ہندوستان میں بہار (صوبہ بنگال) اور مالوہ (وسطی ہندوستان) میں افیون کاشت ہوتی تھی۔

افیون معاشی ہتھیار بن گئی

مورخین کو تلاش بسیار کے باوجود اس انگریز یا ہندوستانی تاجر کانام نہیں ملا جس کے ذہن رسا میں پہلے پہل یہ تجویز آئی کہ افیون چین میںفروخت کی جائے۔ بہرحال یہ تجویز 1765ء کے بعد ہی سامنے آئی۔ جلد انگریزوں نے بنگال میں افیون کی تجارت اپنے ہاتھوں میں لے لی۔ وہ اپنی سرپرستی میں افیون تیار کرکے چین بھجوانے لگے۔

چین میں افیون کی خریدو فروخت پر مگر پابندی تھی۔ اس باعث انگریز چینی تاجروں کی ملی بھگت سے افیون چین اسمگل کر کے پھیلانے لگے۔ پیسا کمانے کے لالچ نے انگریز و چینی تاجروں کا اتحاد کرادیا۔1790ء کے بعد امریکی تاجر بھی اس غیر قانونی اور غیر اخلاقی دھندے میں شامل ہوگئے۔ وہ ترکی کی افیون لاکر چینی تاجروں کے ہاتھ بیچنے لگے۔ ترک افیون سستی تھی، اس لیے امریکی اور برطانوی تاجروں کے مابین افیون کی قیمت کم سے کم رکھنے کا مقابلہ شروع ہوگیا۔ اس مقابلے کے باعث چین میں افیون بہت سستے داموں ملنے لگی اور اس کا پھیلاؤ شروع ہوا۔

عام چینی بتدریج افیون استعمال کرنے لگے اور انہیں اس نشے کی لت پڑگئی۔1837ء تک برطانوی ،امریکی اور فرانسیسی تاجر ’’چودہ سو ٹن‘‘افیون چین میں اسمگل کرنے لگے۔پچھلے ساٹھ برسوں میں کروڑوں عام چینی افیون کے نشئی بن بیٹھے تھے۔وہ طلائی یا نقرئی سکے دے کر یہ نشہ خریدتے۔لہذا یہ سّکے واپس یورپ جانے لگے۔اس باعث چین میں سکوں کی قلت نے جنم لیا۔اس قلت سے معمول کا کاروبار ِحیات متاثر ہوا۔عوام سّکے آسانی سے نہ ملنے پر احتجاج کرنے لگے۔ملک میں مہنگائی بڑھ گئی۔

عوامی احتجاج پر حکومت چین ہوش میں آئی۔بادشاہ کے حکم پہ سرکاری افسروں نے افیون بیچنے والے تجار پر کریک ڈاؤن کر دیا۔کئی ٹن افیون تباہ کر دی گئی ۔یہ افیون یورپی تجار کی ملکیت تھی۔لہذا ایسٹ انڈیا کمپنی کے ڈائرکٹرچراغ پا ہو گئے۔انھوں نے برطانوی حکومت سے چین پر حملے کی اجازت طلب کی جو مل گئی۔1839ء سے 1842ئکے مابین برطانیہ اور چین کے درمیان ’’پہلی افیون جنگ‘‘انجام پائی۔

برطانوی فوج جدید اسلے سے لیس تھی ،اس لیے عددی طور پہ کمتر ہونے کے باوجود وہ چینی فوج کو شکست دینے میں کامیاب رہی۔فتح پاکر یورپی اس قابل ہو گئے کہ کم ٹیکس دے کر چین میں آزادانہ اشیا کی خریدوفروخت کر سکیں۔ہارنے کی وجہ سے چینی حکومت کو فاتحین کی مانگیں پورا کرنا پڑیں۔برطانیہ نے ہانگ کانگ پر قبضہ کر لیا۔بعد ازاں امریکا اور فرانس نے بھی چین سے تجارتی مراعات مانگ لیں۔مزید شکستوں سے بچنے کے لیے حکومت چین کو ان کے مطالبے بھی تسلیم کرنا پڑے۔مغربی استعمار سے ہار کر چین میں اس صدی کاآغاز ہوا جسے وہ ’’ذلت کی صدی‘‘(Century of humiliation)کہتے ہیں۔اس دوران چین ’’ایشیا کا مردبیمار‘‘(Sick man of Asia)کہلایا۔چین کی توہین آمیز حالت 1979ء تک برقرار رہی گو اس نے دوسری جنگ عظیم کے بعد مغربی وجاپانی استعمار سے آزادی پا لی تھی۔1979ء سے اصلاحات کا عمل شروع ہوا اور دوسو برس بعد چین پھر تجارتی ومعاشی قوت بن کا ابھرنے لگا۔اگلے چالیس برس میں وہ دنیا کا سب سے بڑا برآمد کنندہ(exporter)ملک بن گیا۔

وہ آج سالانہ ڈھائی ٹریلین ڈالر کا سامان بیرون ممالک فروخت کرتا ہے۔اور چینی مال کے سب سے بڑے خریدار امریکا اور یورپی ممالک ہیں۔امریکی صدر ٹرمپ 1839ء کے مانند پھر چین کو ڈرا دہمکا کر باہمی تجارت کا جھکاؤ اپنی طرف کرنے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔آج مگر چین بڑی عسکری طاقت بھی بن چکا۔لہذا ٹرمپ اور ان کی ہم خیال امریکی اسٹیبلشمنٹ کو ڈیرھ سو سال پہلے کی نسبت زیادہ طاقتور چین کا سامنا ہے۔اگر امریکا نے چین سے سرد یا گرم جنگ چھیڑی تو ممکن ہے،تاریخ کا پہیہ اُلٹا چل پڑے…یعنی اب امریکا کو شکست کھانا پڑے اور وہاں ذلت و توہین کے دور کا آغاز ہو جائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔