آزادی کی طلب اور جمہوریت

زاہدہ حنا  اتوار 4 اکتوبر 2020
zahedahina@gmail.com

[email protected]

بادشاہ، وزیر، ملکہ، فیل، اسپ اور سرجھکائے ہوئے دونوں طرف کے سفید وسیاہ پیادے۔ یہ نام کانوں میں اس وقت پڑے جب گھر میں شطرنج کھیلی جاتی تھی۔ اسپ ڈھائی گھرکی چال چلتا تھا اور پیادے اگر آخری خانے میں پہنچ جائیں تو وزیر بن جاتے تھے۔

ان ہی دنوں کچھ کہانیاں جادوئی شطرنج کی پڑھیں اورکچھ امی نے ان کی کہانیاں سنائیں۔ کہانیاں جن میں مڑ کر دیکھنے والے پتھرکے ہوجاتے تھے اور جب تک کوئی شہزادہ آکر ان پر جادوئی پانی نہ چھڑکے، وہ پتھرکے رہتے تھے۔

وقت کے غلاموں کی کیا کیا کہانیاں تھیں، انھیں سنو تو سنتے ہی چلے جائو۔ یہی وہ دن تھے جب تاریخی ناول پڑھے۔ اس وقت اندازہ نہیں تھا کہ یہ تاریخی ناول جن میں سچ ماشہ برابر اور لن ترانیوں کے طور مار ہوتے ہیں کس قدرباد ہوائی ہوتے ہیں۔ تاریخی ناولوں کی اسی چیٹک نے ہندوستان جنت نشان، سلطنت برطانیہ اور یورپ کی تاریخ پڑھنے کی طرف رخ موڑ دیا۔

چند دنوں پہلے تین مرتبہ وزیر اعظم رہنے والے شخص کی زبان سے لفظ ’’غلام‘‘ سنا توکیسی کیسی باتیں یاد آکے رہ گئیں۔ یہ ہندوستان تھا جس میں غلام بادشاہوں کا ذکر ہے اور ایک پورا دور خاندان غلاماں کے نام سے موسوم ہے اسی سے ہمیں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ کس حملے کے دوران کنیزیں اور غلام کس طرح بنائے جاتے تھے۔

کئی برس پہلے ہمارے کرم فرما محمد مظاہر صاحب نے کے ایس لال کی کتاب Muslim Slavery System In India کا ترجمہ ’’برصغیر میں غلامی‘‘ کے عنوان سے کیا۔ یہ کتاب جہاں تک مجھے معلوم ہے ابھی شایع نہیں ہوسکی ہے۔ مظاہرصاحب کی عنایت کہ انھوں نے یہ ترجمہ مجھے پڑھنے کے لیے عنایت کیا۔ مظاہر صاحب کے صبرکی داد دینی پڑتی ہے کہ وہ تیرہ سو اور چار سو صفحوں کی کتابوں کا ترجمہ کرتے ہیں اور پھر اس شخص کا انتظارکرتے ہیں جو اسے شایع کردے۔ ’’برصغیر میں غلامی‘‘ بھی ایک ایسی ہی کتاب ہے۔ یہ اہم کتاب اب تک اپنے ناشرکی تلاش میں ہے۔

ان علاقوں میں جہاں اسلام تھا غلامی خوب پھیلی ہوئی تھی۔ ابتدا میں ترک حملہ آور اور ہندوستان کے حکمراں غلام تھے یا پھر ان کی آل اولاد تھے۔ غزنی کا محمود ایک خرید کردہ غلام سبکتگین کا بیٹا تھا۔ سبکتگین کو کبھی الپتگین نے خریدا تھا۔ جو خود بھی خرید شدہ غلام تھا۔ الپتگین پہلا ترک غلام اور جنگجو حکمران تھا جس نے ہندوستان پر چڑھائی کی تھی۔ اس کا پورا زمانہ اور خوش تدبیری تمام ترک غلاموں کی تاباں علامت ہے۔

قطب الدین ایبک جو ترقی کرکے ہندوستان کا پہلا غلام سلطان بنا ، اسے صغیر سنی میں فخر الدین نے خریدا تھا جو نیشا پورکا قاضی القضاۃ تھا۔ اور لگتا ہے غلاموں کا ایک بڑا تاجر بھی تھا۔ اس کی عنایات اور اس کے بیٹوں کی رفاقت سے ایبک نے قرآن کو باقرات پڑھنا سیکھ لیا اور شہسواری کے علاوہ تیر اندازی کی تربیت بھی مل گئی۔ ایسی تربیت پر اٹھنے والے اخراجات کو غلاموں کے سوداگروں کی نظر میں (آج کل کی زبان میں) سرمایہ کاری سمجھا جاتا تھا۔ تربیت یافتہ غلام کی منڈی میں بہتر قیمت لگتی تھی۔ قاضی کی موت کے بعد اس کے بیٹوں نے ایبک کو ایک تاجر کے ہاتھ بیچ ڈالا جو اسے غزنی لے آیا اور اسے سلطان معیز الدین کو فروخت کر دیا۔ دیکھنے میں اگرچہ وہ بدصورت تھا۔ تربیت یافتہ ایبک میں ’’ قابل تعریف صفات اور متاثر کرنیوالی خوبی‘‘ پیدا ہوچکی تھی۔ اس نے اپنے گردو پیش کے لوگوں میں اپنی آزاد خیالی سے رہنمائی کی۔

’’جن میں محافظین کے علاوہ خانہ دار غلام بھی تھے۔‘‘ اس طرح اسے ان سب کی انسیت کے علاوہ حمایت بھی حاصل ہوگئی۔ اس کے حقدار ہونے سے اسے امیر آخور (اصطبلوں کا حاکم) کے عہدے پر ترقی مل گئی۔ اسے ہندوستا ن میں بھیجی جانے والی مہموں میں بھی تواتر سے روانہ کیا گیا، ان فرائض کو اس نے بڑے عزم اورکامیابیوں سے انجام دیا۔ وفاداری اور سلطان معیز الدین کے لیے نمایاں خدمات نے اس کے لیے نائب فرمانروا بننے کی راہ ہموارکر دی۔ معیز الدین کی خواہشات کے مطابق سلطان کے ایک اور غلام تاج الدین یلدوز نے اپنی بیٹی کی شادی ایبک سے کردی۔ ایبک نے ہندوستان میں مسلم مقبوضہ جات میں اضافہ کرنے کی خاطر اپنے آقا کی مہموں میں نیابت کی۔ لگتا یہ ہے کہ سلطان کی خواہش ہوکہ ایبک ہندوستان میں اس کا جانشین بنے اور پھر سلطان کی موت پر وہ ہندوستان کے شہر لاہور میں 1206 میں تخت پر بیٹھا اور 1210 تک حکمرانی کی۔

مذکورہ غلاموں کی کامیابیوں کے زیر اثر متعدد اہل علم لوگوں نے قرون وسطی مسلم نظام غلامی کی بڑی تعریف کی اور اسے لاجواب قرار دیا ہے اور اس پر زور دیا کہ اس نظام میں اتنی گنجائش تھی جس میں ایک غلام بھی ترقی کرتا ہوا بادشاہ بن سکتا تھا، یہ کوئی درست جائزہ نہیں ہے۔ غلاموں کو اس لیے نہیں پکڑا جاتا تھا کہ انھیں بادشاہ بنانا مقصود ہوتا تھا۔ انھیں اغوا کیا جاتا، پکڑ لیا جاتا یا پھر خریدا جاتا تاکہ وہ بطور خانگی ملازم کام کریں۔ چوکیداری کریں یا سپاہی بن جائیں۔ وغیرہ وغیرہ۔

انھیں تحصیل زرکے لیے بیچ ڈالا جاتا ’’غلام‘‘ اور ’’بادشاہ‘‘ کی اصطلاح ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ اگر چند غلام بادشاہ بن گئے تو اس کا یہ سبب نہ تھا کہ رائج نظام انھیں یہ مواقع مہیا کرتا تھا بلکہ اس کی خاص وجہ یہ تھی کہ وہ اپنی صلاحیتوں کی وجہ سے ناروا ریشہ دوانیوں میں پڑ جاتے، لڑاکا دستوں کو اپنا پیرو بنالیتے اور مناسب موقعوں پر چوٹ لگاکر تخت پر قبضہ کر لیتے۔اگرچہ چند غلام ترقی کرکے بادشاہ بن بھی گئے تو کثیر تعداد ایسوں کی ہے جو اتنے ہی مرادیں رکھتے اور ایسے ہی کار گزار مگر گم کردہ راہ ہوگئے۔ یہ غلام جو اپنی شمشیر زنی، میدان جنگ میں اپنی وفادار فوج کے بل بوتے پر آگے بڑھتے اور تخت و تاج پر قابض ہوجاتے، انھوںنے سالہاسال ہندوستان پر حکومت کی۔

ان شاہانِ غلامان کے سیکڑوں برس بعد خلیل جبران نے لکھا کہ ’’ انسان اس وقت تک آزاد نہیں ہوسکتا جب تک وہ جبر واستبدادکی ماہیت اورکیمیا کو نہ سمجھ لے ‘‘ خلیل جبران کہتا ہے کہ ’’ جسے تم آزادی کے نام سے پکارتے ہو وہ دنیا کی زنجیروں میں سب سے زیادہ مضبوط ایک زنجیر ہے۔ اس کی کڑیاں سورج کی روشنی میں چمکتی ہیں اور وہ تمہاری نظروں کو خیرہ کرتی ہیں۔ تو پھر وہ کیا چیز ہے جس کو ترک کرکے تم آزاد ہوسکتے ہو؟ وہ تمہارے ہی وجود کے چند ٹکڑے ہیں۔

اگر زندگی کا وہ قانون جس کو تم منسوخ کرکے آزاد ہونا چاہتے ہو جو غیر منصفانہ ہے اور چاہتے ہو کہ تم اس سے آزاد ہوجائو تو یہ بھی یاد رکھو کہ وہ قانون تمہارا ہی مرتب کیا ہوا ہے اور تم ہی نے خود اس کو اپنی پیشانی پر لکھا تھا۔ تم محض قانون کی کتابوں کو آگ لگاکر قانون نہیں مٹا سکتے۔ نہ تم اپنے حاکموں کی پیشانیوں کو دھوکر جو کچھ ان پر لکھا ہے اسے مٹا سکتے ہو۔ خواہ تم پیشانیوں کے ان نقوش پر سات سمندر بہا دو! اور اگر تم اس بادشاہ کو تخت سے اتارنا چاہتے ہو جو خود مختار، سخت گیر اور ظالم ہے تو پہلے اس کی فکر کرو کہ اس بادشاہ کا وہ تخت جو تمہارے دل کے اندر قائم ہے اسے اپنے جگہ سے ہٹایا جاسکے! اس لیے کہ کوئی ظالم حاکم اپنی آزاد اور آزادی کی طالب یا آزادی پر فخر کرنے والی رعایا پر حکومت نہیں کرسکتا جب تک کہ خود رعایا کی آزادی میںظلم کے عناصرکی آمیزش نہ ہو۔

ان تاریخی حوالوں اور اصولوں کو نگاہ میں رکھتے ہوئے آج آزادی کے طلبگاروں اور جمہوریت کی بات کرنے والوں کو یہ سمجھنا چاہیے کہ کوئی انھیں غلام بنا کر رکھنا چاہے یا ان کی اور ان کے خاندان کی جائیدادیں قرق کررہا ہو، انھیں اس شکنجے سے اسی وقت نجات مل سکتی ہے جب وہ اپنے موقف اور اپنے بیانیے پر قائم رہیں اور ان لوگوں کا حوصلہ بڑھائیں جو ان کی خاطر مشکلیں سہہ رہے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔