کرکٹرز کی آزادی سلب نہ کریں

سلیم خالق  پير 5 اکتوبر 2020
بجائے ہر کسی سے لڑنے کے پی سی بی حکام کو اپنے گریبان میں جھانکنا چاہیے کہ کہیں ان میں ہی تو خامیاں نہیں۔ فوٹو: فائل

بجائے ہر کسی سے لڑنے کے پی سی بی حکام کو اپنے گریبان میں جھانکنا چاہیے کہ کہیں ان میں ہی تو خامیاں نہیں۔ فوٹو: فائل

’’آپ نے ہمارا ڈومیسٹک کنٹریکٹ دیکھا، بس اب تو یہی کسر رہ گئی ہے کہ اگلے سال اس میں لکھا ہو کہ اپنے بچے کو ڈانٹ نہیں سکیں گے، بیگم پر غصہ کرنے کی بھی اجازت نہیں ہوگی، چند ہزار روپے کے عوض ہماری آزادی سلب کر لی گئی ہے، ایسا آمرانہ دور ہم نے کبھی نہیں دیکھا‘‘

کل ہی کی بات ہے جب ایک فرسٹ کلاس کرکٹر نے فون کر کے مجھے اپنا دکھڑا سنایا، کئی دیگر کھلاڑیوں سے بھی بات ہوئی وہ بھی یہی شکوہ کر رہے تھے،ڈپارٹمنٹس سے انھیں سارا سال بھاری تنخواہیں ملتیں اور اہل خانہ سمیت میڈیکل کی سہولت بھی حاصل ہوتی، مگر اب محدود آمدنی پر گذارا کرنا ہوگا، ساتھ یہ تلوار بھی لٹکی رہے گی کہ کہیں بورڈ معاہدے سے محروم نہ کر دے،سیکڑوں کرکٹرز بے روزگار ہوئے مگر کنٹریکٹ صرف 192 کو ہی دیے گئے ہیں، سینٹرل کنٹریکٹ پانے والے سینئرز کی طرح ان پر بھی حد سے زیادہ سخت شرائط عائد کر دی گئیں۔

بیچارے کھلاڑی سخت ناخوش ہیں مگر بادل نخواستہ دستخط کرنا پڑے کیونکہ اور کوئی آپشن باقی نہیں ہے،محمد حفیظ، شعیب ملک اور کامران اکمل جیسے سینئرز تو ایک ماہ کا معاہدہ کرنا افورڈ کر سکتے ہیں مگر بیچارے جونیئرز کیا کریں گے؟

پی سی بی کے ڈائریکٹر میڈیا سمیع الحسن برنی نے جب سے عہدہ سنبھالا ان کی کوشش یہی رہی کہ سب کچھ اپنے کنٹرول میں کر لیں، بورڈ بنے بنائے انٹرویوز،میچ رپورٹس، تصاویر وغیرہ بھیجتا ہے تاکہ صرف بیانیہ ہی سامنے آئے، البتہ کچھ ہم خیال لوگوں کو انٹرویوزکرنے کا موقع بھی دیا جاتا ہے،غیرملکی صحافیوں پر میڈیا ڈپارٹمنٹ زیادہ مہربان ہے اورچیئرمین و سی ای او کے بیشتر انٹرویوز ہم بھارت اور برطانوی اخبارات و ویب سائٹس پر ہی دیکھتے ہیں۔

گذشتہ سال تک فرسٹ کلاس کرکٹرز ٹی وی پر بیٹھ کر تنقید کرتے نظر آتے تھے مگر اب وہ ایسا نہیں کر سکیں گے، میڈیا پر شور مچانے والے بیشتر سابق کھلاڑیوں کو ملازمتیں مل چکیں، اب گنتی کے چند کھلاڑی ہی باقی رہ گئے جو کھل کر بات کرتے ہیں،مگر آپ چیزوں کو جتنا بھی کنٹرول کر لیں حقائق چھپائے نہیں جا سکتے،قومی ٹی 20 کپ اس کی واضح مثال ہے، سوشل میڈیا پر اس کی ایسی ہائپ بنائی گئی جیسے پاکستان میں ورلڈکپ ہونے والا ہے مگر معیار دیکھ کر لوگ سر پکڑ کر بیٹھ گئے۔

ٹیلی ویڑن کوریج بھی سب کے سامنے ہے، کمنٹری میں بڑے ناموں کے ساتھ دوست بھی فٹ ہوئے اس لیے اتنی پذیرائی نہ ملی، شاید بڑے دعوے نہ کیے گئے ہوتے تو لوگوں کی توقعات بلند نہ ہوتیں، ایک میچ میں اچھا پرفارم کرنے والے نوجوان کرکٹرز کو بھی ہیرو بنا کر پیش کیا گیا جس کے بعد وہ انہماک کھو بیٹھے اور کارکردگی کا معیار گر گیا،انھیں کھیل پر فوکس کرنے دینا چاہیے، جب وقت آئے تو میڈیا میں ایکسپوژر بھی دیں، اب تک تو قومی ٹی 20کپ دیکھ کرشائقین کو مایوسی ہی ہوئی ہے، البتہ یقینی طور پر بورڈ کو بھی اندازہ ہو گیا ہوگا کہ ان سے کیا غلطیاں سرزد ہوئیں ابھی کافی میچز باقی ہیں انھیں دور کریں،ملتان میں انتظامات سے بھی کھلاڑی زیادہ خوش نہیں ہیں، ان سے پوچھیں اور مسائل حل کریں، ابھی تک توجو حال ہے اس پر تو سوشل میڈیا پر دوست بھی دفاع نہیں کر پا رہے۔

اس ٹورنامنٹ کو سنجیدگی سے لیں،زمبابوے سے سیریز بھی قریب ہے اچھا پرفارم کرنے والے نوجوانوں کو اس میں موقع دیں، کمزور حریف کے خلاف بڑے ناموں کو کھلانے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا، نئے لڑکوں کو آزمانے کا اس سے اچھا موقع مل ہی نہیں سکتا، یقیناً مصباح الحق کی نظریں نئے ٹیلنٹ پر ضرور مرکوز ہوں گی، ویسے اب تو ان کی اپنی کرسی بھی ہلتی نظر آ رہی ہے، وزیر اعظم سے ملاقات کرکے ڈومیسٹک سسٹم پر تحفظات ظاہر کرنے کی وجہ سے بورڈ حکام ان سے ناراض ہیں، اظہر علی کی ٹیسٹ کپتانی بھی اب زیادہ عرصے برقرار رہنا ممکن نہیں لگتا، دورۂ نیوزی لینڈ میں اگر نتائج اچھے نہ رہے تو وہ فارغ ہو جائیں گے۔

محمد حفیظ تو اب بونس کی کرکٹ کھیل رہے ہیں اس لیے بغیر لگی لپٹی سچی باتیں کہہ دیتے ہیں، کنٹریکٹ سے آزاد ہونے کی وجہ سے بورڈ ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا، سی ای او وسیم خان نے ایک انٹرویو میں عندیہ دیا ہے کہ جلد مصباح کی دہری ذمہ داریوں کا جائزہ لیا جائے گا،ان کی باتوں سے لگتا ہے کہ شاید مستقبل میں سابق کپتان کے پاس چیف سلیکٹر اورہیڈ کوچ میں سے کوئی ایک ہی عہدہ باقی بچے،البتہ زمبابوے سے سیریز میں تو کوئی تبدیلی ہوتی نظر نہیں آتی،ویسے قومی ٹی ٹوئنٹی کپ میں شاداب خان نے اب تک بہترین آل راؤنڈ کھیل کا مظاہرہ کیا ہے،کپتان کے روپ میں بھی وہ جچ رہے ہیں۔

پی سی بی کو انھیں بطور فیوچر قائد گروم کرنا چاہیے، اس سے بابر اعظم پر سے بھی دباؤ کم ہوگا، اب انھوں نے بہت آرام کر لیا قومی ٹی ٹوئنٹی کپ میں شائقین ان کو ایکشن میں دیکھنا چاہتے ہیں،دیکھتے ہیں یہ انتظار کب ختم ہوتا ہے، پی ایس ایل فرنچائزز اور میڈیا پارٹنر سے کورٹ کیسز، پبلک اکاؤنٹس کمیٹی میں لیگ کے ابتدائی دونوں ایڈیشنز کی آڈٹ رپورٹس میں مبینہ گھپلے،پروڈکشن رائٹس تنازع اور اب قومی ٹی 20کپ کے ناقص انتظامات کی وجہ سے پی سی بی گذشتہ کچھ عرصے سے مسلسل منفی خبروں میں ہے، اتنے سارے ’’دوستوں‘‘ کے باوجود جب میڈیا اور سوشل میڈیا میں بورڈ کیخلاف شور مچ رہا ہے تو اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ معاملات اچھے انداز میں نہیں چلائے جا رہے۔

بجائے ہر کسی سے لڑنے کے پی سی بی حکام کو اپنے گریبان میں جھانکنا چاہیے کہ کہیں ان میں ہی تو خامیاں نہیں،قذافی اسٹیڈیم میں بڑے بڑے طرم خان آئے آج ان کا کوئی نام لینے والا بھی موجود نہیں ہے، کرسیاں عارضی ہوتی ہیں آپ کے کام وجہ شہرت بنتے ہیں، موجودہ حکام کو بھی ایسے کارنامے انجام دینے چاہئیں کہ لوگ انھیں یاد رکھیں، ورنہ جب بْرا وقت آتا ہے تو ’’دوست میڈیا‘‘ اور ’’ٹویٹر آرمی‘‘ ہی سب سے پہلے آنکھیں پھیرتی ہے، تکبر انسان کو لے ڈوبتا ہے کاش یہ بات ان لوگوں کو کوئی سمجھا دے۔

(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔