پارلیمنٹ اہم یا کابینہ

محمد سعید آرائیں  منگل 6 اکتوبر 2020
m_saeedarain@hotmail.com

[email protected]

کسی بھی ملک میں وہاں کی پارلیمنٹ کو سب سے اہم سمجھا جاتا ہے ہر جگہ پارلیمنٹ اپنے دو اداروں پر مشتمل ہوتی ہے، جس میں ایک ادارے کے ذریعے ملک کا وزیر اعظم منتخب ہوتا ہے اور اسی ادارے کی گئی قانون سازی کی پارلیمنٹ کے دوسرے ادارے سے توثیق ضروری ہوتی ہے۔

پاکستان میں پہلا پارلیمانی ادارہ قومی اسمبلی اور دوسرا پارلیمانی ادارہ سینیٹ ہے جس کے چیئرمین کو صدر کی غیر حاضری میں قائم مقام صدر بننے کا موقعہ ملتا ہے جو اگر ملک میں موجود نہ ہو تو اسپیکر قومی اسمبلی کو صدر کی غیر موجودگی میں قائم مقام صدر بنایا جاسکتا ہے اور اسپیکر قومی اسمبلی کا انتخاب وزیر اعظم سے پہلے ہوتا ہے اور اسپیکر ہی پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کی صدارت کرتا ہے۔

پارلیمنٹ میں سینیٹ ختم نہیں ہوتی برقرار رہتی ہے اور قومی اسمبلی مدت پوری نہ ہونے سے قبل بھی توڑی جاسکتی ہے۔ جمہوریت میں وزیر اعظم قومی اسمبلی توڑ سکتا ہے جو قومی اسمبلی کی اکثریت حاصل کرکے منتخب ہوتا ہے اور ہوتا یہ آیا ہے کہ قومی اسمبلی جس کو وزیر اعظم منتخب کرتی ہے وزیر اعظم حلف اٹھانے قبل تک قومی اسمبلی کو اہمیت دیتا ہے اور حلف اٹھا کر قومی اسمبلی کو نظر انداز کر دیتا ہے اور اسے اپنے اہم مسئلے یا قانون سازی کے لیے ہی قومی اسمبلی یاد رہتی ہے اور اس ایوان میں آنا گوارا نہیں کرتا جہاں سے وہ منتخب ہوا ہوتا ہے تو وہ سینیٹ کو کیوں اہمیت دے گا۔

پارلیمنٹ کی اہمیت ہی ہے کہ صدر مملکت کو ہر سال وہاں خطاب کرنا ہوتا ہے اور غیر ملکی سربراہ بھی پاکستان کی پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے رہے ہیں مگر صدر مملکت اور غیر ملکی کسی سربراہ نے وفاقی کابینہ سے کبھی خطاب نہیں کیا۔

سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کا یہ ریکارڈ عمران خان توڑسکے نہ نواز شریف،کیونکہ دونوں قومی اسمبلی سے غیر حاضری اور اسے اہمیت نہ دینے کا ریکارڈ رکھتے ہیں ۔ نواز شریف وزیر اعظم بن کر ایک سال تک سینیٹ کے اجلاس میں نہیں آئے تھے اور یہی حال وزیر اعظم عمران خان کا ہے ۔ نواز شریف کی کچن کابینہ مشہور تھی اور عمران خان پارلیمنٹ کو نظرانداز کرکے کابینہ کے سب سے زیادہ اجلاس یعنی ہر ہفتے کابینہ کا اجلاس منعقد کرنے اور مہینوں قومی اسمبلی کے ایوان میں نہ آنے کا ریکارڈ قائم کرچکے ہیں۔

وزیر اعظم یوسف رضاگیلانی زیادہ تر قومی اسمبلی کے اجلاس میں موجود ہوتے تھے اور وزیر اعظم عمران خان اور نواز شریف کے برعکس قومی اسمبلی کو اہمیت دیتے تھے اور ایوان میں ارکان سے ملتے تھے اور دیر تک موجود رہنے کے علاوہ ایوان سے باہر بھی ارکان پارلیمنٹ سے ملاقاتیں کرتے رہتے تھے جب کہ عمران خان اور نواز شریف مہینوں ارکان قومی اسمبلی سے ہی نہیں ملتے، جن کے ووٹوں سے وہ وزیر اعظم منتخب ہوئے اور بعد میں اسی قومی اسمبلی میں آنا انھیں بہت کم ہی گوارا رہا اور دیگر مصروفیات کی بنیاد پر انھیں قومی اسمبلی آنا غیر ضروری محسوس ہوا۔

نواز شریف اور شوکت عزیز اور چار عشروں قبل کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کا قومی اسمبلی کو اہمیت دینے کا کوئی اچھا ریکارڈ تھا ہی نہیں، یہ اچھا ریکارڈ یوسف رضاگیلانی، محمد خان جونیجو اور ظفر اللہ خان جمالی کا ضرور رہا جنھوں نے پارلیمنٹ میں اپنی حاضری ممکنہ طور پر یقینی بنائی تھی۔

اکثر وزیر اعظم قومی اسمبلی سے منتخب ہونے کے بعد اپنے اسی ایوان میں اس لیے نہیں آتے کہ انھیں ایوان میں موجود اپوزیشن کی تنقید اور برداشت نہ ہونے والے حقائق اور کڑی کسیلی تقریر سننا پڑتی ہے جب کہ وہ صرف اپنی پسندیدہ کابینہ کے خوشامدی وزرا کی پسندیدہ باتوں کے عادی ہوچکے ہوتے ہیں۔ اس لیے انھیں اپوزیشن ارکان کی تنقید اور عوام کو درپیش مسائل کو ایوان میں اپنے منہ پر اجاگر کرنا بہت ہی برا محسوس ہوتا ہے۔

اس سلسلے میں دیکھا گیا ہے کہ پہلی بار وزیر اعظم بنائے جانے والے عمران خان سے اپوزیشن کا وجود برداشت ہی نہیں ہو رہا۔ عمران خان غالباً پہلے وزیر اعظم ہیں جو کبھی صوبائی وزیر تک نہیں رہے وہ اگرکبھی وزیر رہے ہوتے تو انھیں عوامی تقریبات میں جانے کا موقعہ، وہاں عوام سے ملنے اور ان میں گھل مل جانے اور عوامی مسائل جاننے کا موقعہ میسر آیا ہوتا تو ممکن تھا ان کا رویہ غیر جمہوری اور اپوزیشن کی تلخ باتیں برداشت نہ کرنے کا نہ ہوتا۔ ایوان میں موجود رہنے پر ہر وزیر اعظم کو اپنی آمد پر اپنی پارٹی کے استقبال، ہر غلط بات پر بھی ڈیسک بجائے جانے اور اپوزیشن کی تنقید سننے کا حوصلہ ہوتا ہے مگر پہلا موقعہ ہے کہ عمران خان کو وزیر اعظم کا پروٹوکول ملا ہے جس نے انھیں اپنے ارکان اسمبلی سمیت عوام سے بھی دور رہنے پر مجبور کر دیا ہے، وہ ایوان میں اس لیے بھی نہیں آتے کہ انھیں وہاں اپوزیشن کی طرف سے تنقید سننا پڑتی ہے ۔

ایسا ہی سامنا سابق صدر جنرل پرویز مشرف کو بھی پارلیمنٹ کے اجلاس سے دوران خطاب کرنا پڑا تھا اور انھوں نے اپنے مخالف ارکان کو غیر تہذیب یافتہ قرار دے کر آیندہ پارلیمنٹ نہ آنے کا فیصلہ کیا تھا مگر عمران خان ایسا نہیں کرسکتے کیونکہ وہ اسی ایوان سے منتخب کیے جانے والے وزیر اعظم ہیں اور  ایوان میں آنا ان کی مجبوری ہے۔

ہر وزیر اعظم کے قومی اسمبلی آنے کے وقت ارکان کی بڑی تعداد اس لیے موجود ہوتی ہے کہ انھیں وہاں وزیر سے ملنے کا آسانی سے ملنے کا موقعہ مل جاتا ہے اور وہ وزیر اعظم سے گفتگو اور اپنے مسائل کی نشاندہی اور اپنے کام کرا لیتے ہیں ویسے باہر انھیں یہ موقعہ ہی نہیں ملتا۔ حکومت کو ضرورت ہو تو وہ اپنے ارکان کی حاضری یقینی بنا لیتی ہے اور وزیر اعظم خود بھی موجود ہوتے ہیں وگرنہ اکثر قومی اسمبلی میں کورم کا مسئلہ برقرار رہتا ہے اور نشاندہی نہ ہونے پر کورم کے بغیر بھی بل پاس کرا لیے جاتے ہیں۔

وزیر اعظم عمران خان نے 25 ماہ میں سب سے زیادہ کابینہ کے اجلاس منعقد کرنے کا ریکارڈ ضرور قائم کیا ہے، کیونکہ کابینہ اجلاس میں اپوزیشن نہیں بلکہ وزیر اعظم کے اپنے مقرر کیے ہوئے وزیر موجود ہوتے ہیں، جن میں اکثر خاموش رہنا پسند کرتے ہیں اور صرف وزیر اعظم کی ہاں میں ہاں ملاتے ہیں اور وزیر اعظم کو عوام کی حالت زار اور ملک کے اصل حقائق نہیں بتاتے۔ صرف ایک دو وزیر ہی بعد میں میڈیا میں آنے کے لیے بتاتے ہیں کہ انھوں نے کابینہ میں یہ تیر مارا۔یہ میری ذاتی رائے ہے ہو سکتا ہے کہ معاملہ اس کے الٹ ہو۔

میرے خیال میں اگر کابینہ میں وزیر اعظم کو حقائق بتائے گئے ہوتے تو وزیر اعظم کو آئی ایم ایف تاخیر سے جانے کا اعتراف، دوبارہ وزیر صحت اور اسد عمر سمیت متعدد وزیروں، مشیروں و معاونین خصوصی کو ہٹانا نہ پڑتا۔میرے خیال میں کابینہ اجلاس میں وزیر اعظم کو کوئی ناپسندیدہ بات سننا پڑتی ہے نہ ان کے فیصلے کی مخالفت ہوتی ہے اور انھیں وزیر اعظم ہاؤس سے باہر سب ہرا ہی ہرا، عوام خوش و خرم ، مکمل امن و امان اور اپوزیشن کی ناکامی اور عوام میں حکومت کی بڑھتی مقبولیت کی غیر حقیقی باتیں بتائی جاتی ہیں تو وزیر اعظم ایوان میں کیوں آئیں انھیں توکابینہ کے اجلاس ہی اچھے لگیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔