ایک اووسیز پاکستانی کا جذبہ

مزمل سہروردی  بدھ 7 اکتوبر 2020
msuherwardy@gmail.com

[email protected]

میں ذاتی طور پر بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے سیاسی اور سماجی کردار کا کوئی خاص معترف نہیں رہا ہوں۔ میں دہری شہریت کے حامل افراد کو الیکشن لڑنے کی اجازت دینے کے بھی خلاف ہوں۔ میری رائے میں دہری شہریت کے حامل افراد کو پاکستان کے انتخابی عمل میں شرکت کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔

میں نے پہلے بھی کئی بار کالم میں لکھا ہے کہ جہاں تک بیرون ملک سے بھیجی جانے  والی ترسیلات کا تعلق ہے تو یہ بھی بیرون ملک پاکستانی کوئی حکومت پاکستان کو نہیں بلکہ اپنے رشتے داروں کو بھیجتے ہیں۔ میں یہ بھی سمجھتا ہوں کہ تحریک انصاف کی حکو مت کو بیرون ملک مقیم پاکستانیوں سے جو امیدیں تھیں وہ پوری نہیں ہوئی ہیں۔ آپ ڈیم فنڈ دیکھیں، اس میں بیرون ملک سے کتنا چندہ آیا ہے؟

کہاں گئے وہ لوگ جو ہمیں سمجھاتے تھے کہ نئی حکومت آئے گی، بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کا اس پر اعتبار ہو گا تو ملک میں ڈالروں کے ڈھیر لگ جائیں گے۔ لیکن ایسا نہیں ہوا ہے۔جو لوگ ہمیں سمجھاتے تھے کہ بیرون ملک پاکستانی جب آئیں گے تو ملک کے قرضے ختم ہو جائیں گے، شاید انھیں بھی سمجھ آگئی ہوگی، وہ سب خواب ہی تھے۔ حقیقت ایسی نہیں ہے۔

بہر حال اس سب صورت حال اور میری اس واضح رائے کے بعد میری رحیم یار خان کے فاروق وڑائچ سے ملاقات ہوئی ہے۔ فارو ق وڑائچ نے میرے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے حوالے سے کالم پڑھے تھے۔ وہ میری رائے بخوبی جانتے تھے۔ انھوں  نے مجھے بتایا کہ وہ 1985 میں امریکا گئے اور وہاں ایک مالی کی نوکری سے کام شروع کیا۔

اب ان کا امریکا میں بہت بڑا کاروبار ہے۔ اﷲ نے ان پر خاص کرم کیا ہے۔ ان کی کاروباری ترقی کی امریکا میں مثالیں دی جاتی ہیں۔ وہ پاکستان کے لیے بھی کچھ کرنا چاہتے ہیں تاہم ان کے خیال میں ابھی پاکستان میں ماحول سازگار نہیں ہے،محض کچھ کرنے کا جذبہ کافی نہیں ہے، اس کے لیے ایک سازگار ماحول اور کاروباری آسانیاں بھی ضروری ہیں۔ فاروق وڑائچ نے مجھے مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ تصویر کا ایک رخ دیکھتے ہیں۔ میں دوسرا رخ بھی آپ کو دکھاتا ہوں۔ شاید آپ کی رائے بدل جائے۔ میں مسکرایا اور پوچھا تصویر کا دوسرا رخ کیا ہے؟

انھوں نے بتایا کہ وہ کورونا کے آغاز میں پاکستان آگئے تھے ۔میں ویسے پاکستان آیا ہوا تھا ، اس دوران کورونا آگیا اور میں نے واپس جانے کے بجائے یہیں رہنے کا فیصلہ کیا۔ لیکن میں اپنے لوگوں اور اپنے علاقے میں رہنا چاہتا تھا۔ اب مجھے پاکستان آئے دس ماہ ہو گئے ہیں۔فاورق وڑائچ نے کورونا لاک ڈاؤن کے دوران ضرورت مندوں میں پچاس لاکھ روپے سے زائد کا راشن تقسیم کیا۔

میں نے کہا، اب تو کورونا ختم ہو گیا ہے،اب کیا کر رہے ہیں۔ فاروق وڑائچ نے کہا میں نے اپنی دولت کا پچیس فیصد علاقے کی فلا ح و بہبود پر خرچ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ کوئی بڑائی کی بات نہیں ہے۔ یہ ہم سب کا فرض ہے۔ میں نے علاقے میں پانچ پارک بنائے ہیں۔ میں رحیم یار خان کو نیا کلچر دینا چاہتا ہوں۔ اس مقصد کے لیے دوستوں کو اکٹھا بھی کر رہا ہوں۔ ہمیں ہر کام کے لیے حکومت اور حکومتی وسائل کی طرف نہیں دیکھنا چاہیے، خود کام کرنا چاہیے۔ ہمارے ملک میں کلچر ہے کہ ہم کام کے لیے سرکاری وسائل کا انتطار کرتے ہیں لیکن اگر خود کریں تو سب کام ہو جائیں گے۔

میں نے کہا آپ نے اپنے وسائل سے حکومت کے ساتھ ملکر کام کرنے شروع کیے ہیں۔ کیسی کرپشن دیکھنے کو ملی ہے؟ فاروق وڑائچ نے قہقہہ لگایا اور کہا کہ کرپشن ختم نہیں ہو سکتی،کم ہو سکتی ہے، بہرحال سرکاری تعاون ناگزیر ہے۔ بلدیہ میں کرپشن کی فکس شرح رہی ہے۔ میں نے غور سے دیکھا ہے، ٹھیکوں میں کرپشن کا ریٹ 46  فیصد رہا ہے۔ حکومت بدلنے سے شرح میں کمی بیشی نہیں ہوتی۔

لیکن سخت محنت اور کوشش کے بعد کرپشن کی یہ شرح اب 46 فیصد سے کم ہو کر 26فیصد پر آگئی ہے۔ ہم نے سب کو ریٹ کم کرنے کا کہا ہے۔ پہلے رحیم یار خا ن بلدیہ میں ماہانہ پچاس لاکھ کا ڈیزل لگتا تھا جو چند ماہ میں ڈیزل کا خرچہ دس لاکھ ماہانہ پر آ گیا ہے۔ کوئی کیس نہیں بنایا۔ کچھ نہیں کیا۔ دو ایماندار لوگوں کو اپنی جیب سے تنخواہ دے رہا ہوں۔ وہ بس نظر رکھ رہے ہیں۔ سرکار کے چالیس لاکھ روپے ماہانہ بچ رہے ہیں۔

فارو ق وڑائچ نے کہا لاہور میں سے ایک نہر گزرتی ہے۔ اس نہر کو لاہور کا حسن قرار دیا جاتا ہے۔ میں اب بھی سمجھتا ہوں کہ اس نہر کی سجاوٹ عالمی معیار کی نہیں ہے۔ لیکن رحیم یار خان وہ خوش قسمت شہر ہے جس میں سے تین نہریں گزرتی ہیں۔ ان کا برا حال تھا۔ میں نے ان میں سے ایک نہر کے بارہ کلومیٹر سڑک کی تزئین و آرائش اپنی جیب سے کی ہے۔ اس سڑک پر رات کا سفر بہت دلفریب ہو گیا ہے۔ لائٹس نے ایک حسین منظر بنا دیا ہے۔ میں نے ایک نہر کو سجایا ہے۔ بقیہ دو نہروں کو سجانے کے لیے بھی مخیر حضرات کو آگے لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ سب کام حکومت نہیں کر سکتی۔ ہم سب نے اپنے شہروں کو خود خوبصورت بنانا ہے۔

اسی لیے میں تو رحیم یار خان میں ٹائم اسکوائر بنانے کی بھی تیاری کر رہا ہوں۔ رحیم یار خان بلدیہ میں صفائی کرنے کے لیے گاڑیوں اور دیگر سامان کی شدید کمی تھی۔ میں نے چند دوستوں کی مدد سے یہ تمام سامان پورا کر دیا ہے۔ یہ سب چھوٹے چھوٹے کام ہیں۔ ہم سب ملکر حکومت کی مدد کے بغیر یہ کام کر سکتے ہیں، لیکن کرتے نہیں ہیں۔ عوام انتظار سرکاری عملے کا انتظار کرتے رہتے ہیں۔ ایسا رویہ درست نہیں ، ہمیں خود کام کرنا ہوگا۔ مجھے ان کا انداز پسند آیا ہے۔ ہمیں ہر شہر میں ایک نہیں کئی فاروق وڑائچ چاہیے اور ان کو آگے لانا ہو گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔