کیا کوئی معجزہ ہو سکتا ہے

زاہدہ حنا  بدھ 7 اکتوبر 2020
zahedahina@gmail.com

[email protected]

جب یہ سطریں لکھی جارہی ہیں اس وقت اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایک اہم مقدمے کی سماعت ہورہی ہے۔ ہم نہیں جانتے کہ اس کا فیصلہ کیا آئے گا لیکن اس بات سے ضرور آگاہ ہیں کہ یہ فیصلہ پاکستان میں جمہوریت کے مستقبل کے حوالے سے اپنے اندر گہرے اثرات چھوڑے گا۔

اس وقت یہ خیال بھی آرہا ہے کہ تقسیم کے بعد عدلیہ میں جو افراد ہمارے حصے میں آئے، ان میں جسٹس کارنیلیس، جسٹس دوراب پٹیل، جسٹس ایم آر کیانی اور جسٹس فخر الدین جی ابراہیم موجود تھے۔ ان لوگوں نے اپنی بساط بھر وہ فیصلے کیے جنھوں نے ملک کو صراط مستقیم پر چلانے کی کوشش کی لیکن وہ بھی تھے جن کے فیصلے بگاڑ کا سبب بنے۔

چند دنوں پہلے اسلام آباد میں انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ فار جسٹس ایکسی لینس دی ہیگ کی طرف سے ہونے والے ایک سیمینار (ویب پر ہونے والے سیمینار) سے خطاب کرتے ہوئے ہائی کورٹ کے چیف جسٹس جناب اطہر من اللہ نے کہا کہ اہم مقدموں کے حوالے سے ججوں پر با اثر اور مقتدر حلقوں کی جانب سے بہت دباؤ ہوتا ہے۔ انھوں نے یہ بھی بتایا کہ جھوٹی خبریں کس طرح گھڑی جاتی ہیں اور وہ چشم زدن میں سوشل میڈیا پر پھیل جاتی ہیں۔ ذاتی مثال دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ میں چند دوسرے معزز جج حضرات کے ساتھ ایک کانفرنس میں شرکت کے لیے جنوبی افریقا کے شہرکیپ ٹاؤن گیا ہوا تھا۔

ہم کانفرنس میں شرکت کے بعد ہوٹل سے باہر آئے وہاں ایک جھل مل کرتی کوبرا اسپورٹس کار نمائش کے لیے کھڑی تھی۔ میں اور ایک ساتھی جج اس گاڑی میں چند منٹ کے لیے تفریحاً بیٹھ گئے۔ ایک دوسرے ساتھی جج نے ہماری تصویریں کھینچ لیں۔ کچھ دیر بعد یہ فوٹو اس کیپشن کے ساتھ وائرل ہو گئی کہ میں لندن میں ہوں اور جس جج کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا، اس کے بارے میں یہ لکھا تھا کہ وہ ایک سیاسی جماعت کا اہلکار ہے۔

انھوں نے کہا کہ تھوڑی دیر بعد میری بیوی کا فون آیا۔ وہ پوچھ رہی تھی کہ کیا تم واقعی لندن میں ہو۔ وہ کہہ رہے تھے کہ جعلی اور جھوٹی خبریں پھیلانے کے لیے سوشل میڈیا سب سے اہم ہتھیار ہے۔ وہ اس بارے میں گفتگو کر رہے تھے کہ ٹیکنالوجی کے اس دور میں ججوں پر آزادانہ فیصلوں کے حوالے سے کس قدر دباؤ ہوتا ہے، یہ ہم ہی جانتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ جج حضرات کو اپنے اندر وہ صلاحیت پیدا کرنی لازمی ہے جس سے وہ غلط اور نازیبا جعلی خبروں کو برداشت کر سکیں۔

یہ ایک ایسا موضوع ہے جس پر ہم سب کو غورکرنا چاہیے اورکوشش کرنی چاہیے کہ عدلیہ پر کسی قسم کا دباؤ نہ پڑے۔ یہ عدلیہ ہے جو ہمارے مستقبل کے فیصلے کرتی ہے اور اگر وہ ذرا سا بھی مشکوک اور افواہیں پھیلانے والوں کے زیر اثر آ جائے تو اس کی اپنی حیثیت اور شفافیت زیر بحث آ جاتی ہے۔

اس وقت مجھے اپنا ہی لکھا ہوا سالہا سال پرانا کالم یاد آ رہا ہے جو میں نے سابق سوویت یونین کے نظام انصاف کے بارے میں لکھا تھا۔ ان دنوں مشہور روسی ادیب سولزے نتسن کی وہ یاد داشتیں پڑھ رہی تھی جو اس نے سائبیریا کے سرد جہنم کے بارے میں لکھی تھیں اور ان ہی میں اپنے دورکے ظالم و جابر افسر اعلیٰ بیریا کے حوالے سے کچھ باتیں لکھی تھیں۔ سولزے نتسن نے گلاگ میں گزرنے والے ان دنوں کے بارے میں لکھا تھا جب اس وقت کے حکمرانوں سے سیاسی اختلاف کی بنیاد پر قید شاعروں، ادیبوں اور صحافیوں سے ان کے نام تک چھین لیے گئے تھے اور انھیں نمبر الاٹ کر دیے گئے تھے۔

بیریا نے جو 50 کی دہائی میں جبرو تشدد کی سب سے بڑی نشانی تھا، اس نے سوویت یونین کے تمام دانشوروں، صحافیوں، ادیبوں اور مصوروں کے ساتھ ظلم و ناانصافی کی انتہا کردی تھی۔ سب سے بڑی بات یہ کہ اس نے سوویت نظام عدل کو تباہ و برباد کردیا تھا۔

نوبل انعام یافتہ اور مشہور روسی ادیب سولزے نتسن نے اپنی یاد داشتوں میں بیریا کے بارے میں لکھا ہے کہ بیریا کے زوال کی خبر ہم لوگوں پر (بیگارکیمپ میں کام کرنے والوں پر) بجلی بن کر گری۔ وہ Archipelago کا سرپرست، اس کا وائسرائے، بے تاج بادشاہ تھا۔ یہ خبر جب ریڈیو سے نشر ہوئی تو اس کے محکمہ خفیہ (MUD) کے افسران کی گھبراہٹ، اور احساس ذلت دیدنی تھا۔ ان کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ لاؤڈ اسپیکروں سے نشر ہونے والی اس خبرکو ہاتھ سے پکڑکر لاؤڈ اسپیکروں میں واپس ٹھونس دیں۔ اس کے بجائے انھیں اپنے کانپتے ہوئے ہاتھوں سے اپنے مربی، اپنے سرپرست کی تصویریں دیواروں سے اتارنی پڑیں اور اپنے ان ہاتھوں سے پھاڑنی پڑیں جن سے وہ بیریا کو سلامی دیتے تھے۔

ان کا خیال تھا کہ اب ان کی باری  ہے چنانچہ متعدد اہلکار اور افسر اچانک قیدیوں پر مہربان ہوگئے … بیریا کے زوال نے صرف اس کی ذات کو ہی نہیں، اس کی سرپرستی میں چلنے والی تمام خفیہ ایجنسیوں کا نام داغدار کر دیا۔ اس سے پہلے کسی قیدی، کسی آزاد شہری کو اگر اپنی زندگی عزیز تھی تو اس کی مجال نہیں تھی کہ وہ خواب میں بھی کسی خفیہ ایجنسی کے افسر یا اہل کار کے حب وطن اور اس کی دیانتداری پر شبہ کر سکے لیکن اب کسی کو ’’بیریا کا وفادار‘‘ کہنے کا مطلب  بہت بھیانک تھا۔

سولزنے نتسن کی یادداشتیں پڑھتے ہوئے چند بہت دلچسپ جملے نظر سے گزرے۔ ان میں سے چند آپ کی نذر ہیں:

٭… جج اپنے چیمبر میں ایک ٹیلی فون کی شکل میں رکھی ہوئی ’’سیاہ سچائی‘‘ کو ہر لمحہ اپنے سامنے رکھتا ہے۔ وہ جب تک اس سے وصول ہونے والے فیصلے سناتا رہے گا، اس کے لیے ’’ معجزے ‘‘رونما ہوتے رہیں گے۔

٭… ججوں کے اے محترم ٹولے مرحبا ! خدا کرے کہ انصاف آپ کے قدموں کے نیچے دبیز قالین کی طرح بچھا رہے۔

٭… کسی بھی سماج میں بس اسی وقت بہتری آ سکتی ہے جب ہر گنہگار سزا پائے اور مجرمانہ سرگرمیوں کی تحقیقات کرنے والے پولیس افسران کو انعامات دیے جائیں۔

٭… ہمارے قانون میں جھوٹی شہادت دینے والے کے لیے کوئی سزا نہیں، بلکہ قانون اس عمل کو جرم ہی تصور نہیں کرتا۔ ہمارے یہاں جھوٹی شہادت دینے والوں کی ایک فوج موجود ہے جو نہایت عزت و احترام کے ساتھ لمبی عمر پاتی ہے اور آرام کی زندگی گزارتی ہے۔ ہم شاید دنیا کا واحد سماج ہیں جہاں وعدہ معاف گواہوں کے ناز نخرے اٹھائے جاتے ہیں۔

آخر میں سولزنے نتسن نے کسی اور کا ایک جملہ نقل کیا ہے جو کچھ یوں ہے ’’ ایک غیر منصف عدالت، ٹھگوں اور بٹ ماروں سے کہیں بدتر ہے۔‘‘

ایوان عدل میں ہونے والے مقدمات کا حتمی فیصلہ کرسی عدل پر بیٹھنے والے نہیں، تاریخ کرتی ہے اور تاریخ نے ایک بار نہیں بار بار یہ ثابت کیا ہے کہ اسی کا فیصلہ درست ٹھہرتا ہے۔

روسی ججوں کے اس فیصلے کی تفصیل پڑھتے ہوئے مجھے خیال آیا تھا کہ پاکستان کی تاریخ ایسے متعدد ناموں سے بھری پڑی ہے جن پر مختلف الزامات عائد کیے گئے اور چونکہ ان کے بدترین مخالفین برسر اقتدار تھے اس لیے ان میں سے کوئی اکیس برس کے لیے سیاست میں حصہ لینے سے محروم ہوا، کسی کوکسی سازش کیس میں موت کی سزا سنائی گئی،کسی نے قتل کے الزام میں پھانسی پائی اورکوئی سازش اور غداری کے الزام میں سزایاب ہوا، جلا وطن ہوا ، دربدر ہوا۔

ظالموں کے ہاتھوں سے جب اقتدار پھسلتا ہے تو ان کے آہنی ہاتھ لکڑی کی سوکھی ہوئی کھیچیاں بن جاتے ہیں۔ ہمیں خواہش کرنی چاہیے کہ ہمارے نظام عدل کو گھن نہ لگے۔ اس کا یہ حشر ہونے سے پہلے ہی کوئی معجزہ ہو جائے، لیکن کوئی معجزہ اسے بچا سکتا ہے؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔