احتجاج کے چیمپئن

جاوید چوہدری  جمعرات 19 دسمبر 2013
www.facebook.com/javed.chaudhry

www.facebook.com/javed.chaudhry

میں نے پہلی دھند 1982ء میں دیکھی‘ میں اس وقت اسکول میں پڑھتا تھا‘ دسمبر کی صبح تھی‘ ہم لوگ اسکول جانے کے لیے گھر سے نکلے تو شہر کی تمام گلیاں‘ گھر‘ دروازے‘ موڑ اور چوک دھند میں گم تھے‘ ہم لوگ زمین کی طرف دیکھتے تھے تو گھٹنوں کے نیچے ٹانگیں نظر نہیں آتی تھیں‘ سامنے نظر دوڑاتے تھے تو تاحد نظر غبار ہی غبار تھا‘ دائیں بائیں دیکھتے تھے‘ پیچھے مڑ کر دیکھتے تھے تو ہر طرف اڑتے ہوئے‘ ڈولتے ہوئے بادل دکھائی دیتے تھے اور ہم لوگ خواب کی طرح دھند کے ان بادلوں میں لپٹے ہوتے ‘ یہ میری زندگی کی پہلی دھند تھی‘ میں حیرت سے کبھی دھند کو دیکھتا اور کبھی اپنے آپ پر نظر ڈالتا تھا‘ ہم لڑکوں نے اس دن نئی گیم ایجاد کی‘ ہم لوگ دھند کو پھونک مارتے‘ ہمارے منہ سے بھی دھند نکلتی اور یہ دھند‘ دھند میں مل کر فضا میں ڈولنے لگتی‘ ہم لوگ راستہ ٹٹولتے ٹٹولتے اسکول پہنچے‘ اس شام پتہ چلا دھند کی وجہ سے پورے پنجاب میں بیسیوں حادثے ہوئے‘ بسیں ٹرکوں سے ٹکرا گئیں‘ وین اور ٹیکسیاں ایک دوسرے کو لگ گئیں‘ گاڑیاں فٹ پاتھوں اور لوگوں پر چڑھ گئیں‘ یہ بھی معلوم ہوا ملک میں ٹرین سروس معطل ہو چکی ہے‘ جہاز رک چکے ہیں اور دفتروں میں چھٹی کر دی گئی ہے۔

اس زمانے میں پی ٹی وی کے علاوہ کوئی ٹیلی ویژن چینل نہیں ہوتا تھا اور پی ٹی وی بھی کوئی بری خبر عوام تک نہیں پہنچاتا تھا‘ خبر بلکہ اصل خبر کا ماخذ اخبارات ہوتے تھے‘ میں نے اگلے دن کے اخبارات دیکھے‘ اخبارات بھی دھند اور حادثوں کی خبروں سے بھرے ہوئے تھے‘ میں آپ کو یہ بھی بتاتا چلوں ہمیں اگلے دن کے اخبارات صبح کے بجائے شام کو ملے تھے کیونکہ اخبارات لاہور میں آتے تھے اور دھند کی وجہ سے اس صبح اخبارات ہمارے شہر میں نہیں پہنچ سکے تھے‘ میں نے اگلے دن اپنے استاد سے پوچھا ’’ سر کیا یہ دھند پہلی بار آئی ہے‘‘ ہمارے ماسٹر جی دلچسپ شخص تھے‘ یہ منہ کے بجائے ڈنڈے اور تھپڑ سے بات کرتے تھے‘ یہ شروع میں ہمیشہ مسکراتے تھے‘ یونانی دانشوروں جیسی سنجیدہ شکل بناتے تھے‘ ہاتھ کا مکا بنا کر ٹھوڑی کے نیچے رکھتے تھے اور پھر نہایت فلسفیانہ انداز سے انتہائی نامعقول جواب دیتے تھے‘ ہم میں سے اگر کوئی بچہ اس جواب میں سے کوئی نیا سوال نکالنے کی غلطی کر بیٹھتا تھا تو وہ ٹھوڑی کے نیچے سے مکا ہٹا کر اس کے منہ‘ گردن یا کمر پر جڑ دیتے تھے‘ بچے کے منہ سے سسکی نکل جاتی تھی‘ استاد جی کو اس سسکی سے بہت پیار تھا۔

وہ ایسی سسکیاں بار بار سننا چاہتے تھے چنانچہ وہ اس بچے کو ٹھڈا بھی مار دیتے تھے اور یوں سنجیدہ گفتگو ’’ باکسنگ رنگ‘‘ میں تبدیل ہو جاتی تھی‘ ہم لوگ ماسٹر جی کے ہاتھوں روز پٹتے تھے لیکن ہمارے سوال ختم نہیں ہوتے تھے‘ یہ سوال ہمارے ذہن کے فطری بھنور بھی ہوتے تھے اور ہم لوگ بعض اوقات تماشہ لگانے کے لیے بھی ماسٹر صاحب سے سوال پوچھنا شروع کر دیتے تھے‘ اس دن میں نے سوال کی غلطی کر دی‘ ماسٹر صاحب نے ٹھوڑی کے نیچے مکا لگایا اور بولے ’’ یہ دھند ہرسال ہوتی ہے لیکن اس سال ذرا زیادہ ہو گئی‘‘ میں نے پوچھا ’’ سر یہ کتنے دن رہتی ہے‘‘ ماسٹر جی نے جواب دیا ’’ یہ سردیوں کے تین ماہ کسی بھی دن ہو سکتی ہے‘ اس کا کوئی اصول‘ کوئی ضابطہ نہیں‘‘ میں نے پوچھا ’’کیا تین ماہ میں ٹریفک اسی طرح معطل رہتی ہے اور حادثے بھی ہوتے رہتے ہیں‘‘ ماسٹر صاحب کی جواب دینے کی کیپسٹی جواب دے گئی‘ انھوں نے اپنا مکا ٹھوڑی کے نیچے سے ہٹانا شروع کر دیا اور میں نے بھی فرش پر بیٹھے بیٹھے پیچھے کھسکنا شروع کر دیا‘ اس صورتحال میں ماسٹر جی کے نتھنے ہمیشہ پھولنے لگتے تھے اور ان کی سانسیں تیز ہو جاتی تھیں‘ مجھے ان کے نتھنے صاف اوپر نیچے ہوتے نظر آ رہے تھے مگر وہ شاید میرے ساتھ رعایت کر گئے لیکن لہجے کا غصہ اپنی جگہ قائم تھا‘ انھوں نے جواب دیا ’’ ہاں پنجاب کی زندگی تین ماہ دھند میں لپٹی رہتی ہے‘‘ میں نے ان سے اگلا سوال یہ پوچھنا چاہتا تھا ’’ یہ دھند اگر ہر سال آتی ہے تو ہم اس کا کوئی حل تلاش کیوں نہیں کرتے‘‘ مگر میں ماسٹر صاحب سے یہ سوال نہ پوچھ سکا کیونکہ ان کا مکا ٹھوڑی سے الگ ہو چکا تھا اور پائوں ٹھڈا بننے کے لیے زمین پر بار بار گھسٹ رہا تھا لیکن یہ سوال آج بھی میرے ذہن میں موجود ہے اور میں سردی کے ہر موسم میں اپنے آپ سے پوچھتا ہوں‘ ہمارے ملک میں اگر ہر سال دھند ہوتی ہے اور ہماری سڑکیں‘ ہمارے ریلوے ٹریکس اور ہمارے ائیرپورٹس اگر ہر بار دھند میں گم ہو جاتے ہیں اور ہماری سماجی زندگی ہر سال معطل ہو جاتی ہے تو ہم اس مسئلے کا کوئی حل تلاش کیوں نہیں کرتے۔

ہم گاڑیوں کے لیے ایسی ’’فوگ لائیٹس‘‘ ایجاد کیوں نہیں کرتے جو دھند کے موسم میں بھی دور تک دکھائی دے سکیں اور ہمیں بھی دیکھنے میں مدد دے سکیں‘ ہم اپنی ونڈ اسکرینز کے لیے ایسے شیشے کیوں نہیں بناتے جن سے ہم دھند میں بھی دیکھ سکیں اور ہم ایسے کیمیکل مرکب ایجاد کیوں نہیں کرتے ہم جن کا چھڑکائو کریں اور ہماری سڑکیں‘ ہمارے ریلوے ٹریکس اور ہمارے ہوائی اڈے دھند سے پاک ہو جائیں‘ ہم سائنس کے ایک ایسے دور میں زندہ ہیں جس میں انسان کا سر تک تبدیل کر دیا گیا ہے‘ سائنس دانوں نے لیبارٹری میں مصنوعی خون اور مصنوعی جلد تک بنا لی‘ سائنس دان فصلوں پر مصنوعی بارش تک کر لیتے ہیں‘ انسان مریخ تک پہنچ چکا ہے‘ چاند کی زمین نیلام ہو رہی ہے‘ سائنس زمین کے اندر سوراخ کر کے دوسری طرف نکلنے کی کوشش کر رہی ہے‘ سمندروں کے اندر سے تیل اور گیس نکالی جا رہی ہے اور ہم ایک ایسی فورڈی اور فائیو ڈی ٹیکنالوجی کی طرف بڑھ رہے ہیں جس میں انسان ٹی وی کے سامنے بیٹھے گا اور کیمرہ جب برف پوش پہاڑوں پر جائے گا تو دیکھنے والے کو باقاعدہ ٹھنڈ لگے گی اور اسکرین پر جب گرم تپتے صحرا دکھائے جائیں گے یا گرم ہوائیں چلیں گی تو اسکرین سے باقاعدہ گرمی کی لہریں پیدا ہوں گی لیکن ہم سائنس کے اس عظیم اور حیران کن دور میں دھند کا علاج نہیں کر پا رہے‘ ہم اپنے ائیر پورٹس‘ ریل اور سڑکیں بند کر کے بیٹھ جاتے ہیں اور اگر سڑک پر نکلنا مجبوری ہو تو ہم حادثوں کا شکار ہو جاتے ہیں‘ کیا ہم وقت سے بہت پیچھے نہیں ہیں۔

یہ صرف دھند ہے‘ ہم تو آج تک سیلابوں کا بندوبست نہیں کر سکے‘ ہم برسات کے موسم میں ڈوب کر مرتے ہیں اور اگلے سات آٹھ ماہ میں خشک سالی سے‘ ہم زلزلے کے بعد دو دو دن تک متاثرین تک نہیں پہنچ سکتے اور ہم اگر پہنچ جائیں تو انھیں سال سال بھر بحال نہیں کرپاتے‘ ہم بڑی دلچسپ قوم ہیں‘ ہمارے ملک میں آج بھی لاکھوں کی تعداد میں ایسے لوگ موجود ہیں جن کے پاس شناختی کارڈ نہیں‘ ہمارے ملک کا ہر تیسرا ڈرائیور لائسنس کے بغیر گاڑی چلا رہا ہے‘ ہم آج تک ملک کی پوری آبادی کا ڈیٹا جمع نہیں کر سکے‘ ہمیں یہ تک معلوم نہیں دہشت گردی کی جنگ میں ہمارے کتنے لوگ شہید اور زخمی ہوئے‘ ہمیں روزانہ کتنے ٹماٹر‘ آلو اور پیاز چاہیے ہوتے ہیں اور پاکستان کے عوام سالانہ کتنی چینی استعمال کرتے ہیں‘ ہم فیکٹریاں چلانے کے لیے گھروں کی گیس بند کرتے ہیں‘ پھر چولہے جلانے کے لیے فیکٹریوں کو گیس سے محروم کرتے ہیں اور آخر میں چولہوں اور فیکٹریوں کی گیس معطل کر کے سی این جی آن کر دیتے ہیں‘ ہمارا بجلی کے بارے میں بھی یہی رویہ ہے۔

ہم آج کے دور میں فرنس آئل سے بجلی بنا رہے ہیں اور ہمارا پانی سمندر میں گر رہا ہے‘ ہمارا ڈالر خود بخود مہنگا ہوتا جا رہا ہے اور بازار حکومت کے کنٹرول سے باہر ہیں‘ دنیا کے جس ملک میں الیکشن کے سات ماہ بعد بھی ووٹوں کی دوبارہ گنتی کا ایشو چل رہا ہو اور جس میں حلقے کے ووٹ دوبارہ گننے جائیں اور وہاں چالیس چالیس ہزار مشکوک ووٹ نکل آئیں‘ آپ اس میں یہ توقع کریں وہ ملک دھند کا مسئلہ حل کر لے گا‘ کیا یہ توقع درست ہوگی؟ نہیں‘ ہرگز نہیں‘ ہماری اپروچ ہی بنیادی طور پر غلط ہے‘ ہم احتجاج اور مذمت کو مسئلے کا حل سمجھتے ہیں‘ جہاز اور ٹرین لیٹ ہو گئی‘ آپ نعرے بازی شروع کر دیں‘ دفتر پر حملہ کر دیں‘ فرنیچر اور شیشے توڑ دیں‘ آگ لگا دیں‘ پٹڑی پر لیٹ جائیں‘ اخبارات میں مذمتی بیان چھپوا دیں‘ اپوزیشن اس مسئلے کے خلاف پریس کانفرنس کر دے‘ قومی اسمبلی اور سینیٹ میں پوائنٹ آف آرڈر پر تقریر جھاڑ دے یا پھر زیادہ سے زیادہ واک آئوٹ کر دے اور بات ختم۔ کیا اس سے ٹرینیں اور جہاز وقت پر چلنے لگیں گے؟ نہیں‘ ہرگز نہیں‘ پھر اس احتجاج یا واک آئوٹ کا کیا فائدہ ہوا؟

کچھ بھی نہیں! امریکا پاکستان میں ڈرون حملے کر رہا ہے‘ اس کا حل کیا ہے؟ ڈرون روکے جائیں‘ ہم کیا کر رہے ہیں‘ ہم دس سال سے احتجاج کر رہے ہیں‘ حکومت بھی احتجاج کر رہی ہے اور اپوزیشن بھی قراردادیں پاس کر رہی ہے‘ ملک میں لاء اینڈ آرڈر اور مہنگائی کا ایشو ہے‘ اس کا حل کیا ہے؟ حکومت اور اپوزیشن مہنگائی اور لاء اینڈ آرڈر کے خلاف کوئی جامع پالیسی بنائے لیکن ہم کیا کر رہے ہیں‘ ہم احتجاج کر رہے ہیں‘ ریلیاں نکال رہے ہیں اور مذمتی قراردادیں پاس کر رہے ہیں‘ کیا اس سے مہنگائی کم ہو جائے گی یا پھر لاء اینڈ آرڈر کی صورتحال بہتر ہو جائے گی‘ بالکل نہیں ہوگی‘ پھر ہم ایسا کیوں کر رہے ہیں‘ اس کی واحد وجہ ہماری اپروچ ہے‘ ہم آج تک مسائل کے حل کی طرف نہیں آئے‘ ہم نے اپنے دماغ‘ اپنی ذہانت کو حل پر منتقل ہی نہیں کیا‘ ہم نے مسائل کا حل تلاش کرنا ہی شروع نہیں کیا اور ہماری اپروچ کی اس خرابی کی وجہ سے ملک میں صرف احتجاج کرنے والے تبدیل ہو رہے ہیں‘ کل پاکستان مسلم لیگ ن احتجاج کرتی تھی‘ آج پاکستان پیپلز پارٹی‘ پاکستانی تحریک انصاف اور اے این پی احتجاج کر رہی ہے اور کل کو پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی مل کر احتجاج کر رہی ہوں گی لیکن مسئلے جوں کے توں رہیں گے‘ مسائل کے پہاڑ اسی طرح اپنی جگہ کھڑے رہیں گے‘ ہم نے دراصل چیخ اور ماتم کو مسئلے کا حل سمجھ لیا ہے لہٰذا ہم صدیوں سے چیختے چلے آ رہے ہیں لیکن ہمارے مسئلوں کا انبار اپنی جگہ قائم ہے‘ اگر بددعائوں اور ماتم سے دشمنوں کی توپوں میں کیڑے پڑ سکتے‘ اگر سینہ کوبی اور ریلیوں سے مہنگائی کم ہو سکتی تو آج ہم دنیا کی واحد سپر پاور ہوتے کیونکہ پوری دنیا میں ہم سے بہتر سیاپا کرنے والا کوئی نہیں‘ ہم ماتم اور احتجاج کے چیمپئن ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔