کہاں گئے وہ لوگ؟

عابد میر  جمعرات 19 دسمبر 2013
khanabadosh81@gmail.com

[email protected]

ریلوے لائن کے بیچوں بیچ بنی اس عجوبہ روزگار بلوچستان یونیورسٹی کی آرٹس فیکلٹی میں داخل ہو کر شمال کی جانب چلیں تو پہلی ہی رو میں دائیں جانب آتا ہے شعبہ اردو… (یہ اردو والے لاکھ ترقی پسندی کے باوجود کہیں بھی ’دائیں سمت‘ سے جان نہ چھڑا سکے) یہاں آنے والوں کی اکثریت بھی دو طرح کے المیوں کی ماری ہوتی ہے، ایک وہ جو کہیں اور داخلہ نہ ملا تو چلو اردو میں ہی لے لیتے ہیں اور دوسرے وہ جو یہ سوچ کے آجاتے ہیں کہ باقی مضامین انگریزی میں پڑھنے پڑتے ہیں، یہ چلو پھر بھی اردو ہے، کسی نہ کسی طرح پاس ہو ہی جائیں گے۔

شاید اسی لیے جب کلاس میں پہلے ہی دن ’’اردو کا انتخاب کیوں کیا؟‘‘ کے جواب میں، میں نے کہا کہ ’’کیوں کہ میرا اوڑھنا بچھونا یہی ہے‘‘ تو میڈم نے حیرت سے گھور کے دیکھا۔ اور شاید اسی لیے میڈم اکثر کہا کرتی تھیں ’’یہاں تو کلاس میں بولتے ہوئے ایسا لگتا ہے جیسے میں دیواروں سے باتیں کر رہی ہوں، کلاس تو کراچی یونیورسٹی میں ہوتی ہے، وہاں پڑھا کے تو…‘‘۔

ایک اور صاحب ہمیں اردو ادب کی تاریخ پڑھانے پہ مامور تھے۔ کلاس شروع ہوئی، لیجیے صاحب نے رام بابو سکسینہ کی کتاب ’تاریخ اردو ادب‘ گود میں لی اور ڈکٹیشن شروع کردی۔ اب چالیس منٹ تک ان کی زبان چلنی ہے اور ہمارا ہاتھ! جھگڑا تو ہونا ہی تھا، سو اگلے ہی روز ہوگیا۔

’’ہم کوئی ہائی اسکول کے اسٹوڈنٹ نہیں کہ آپ بولتے جائیں اور ہم لکھتے جائیں، ہم سے بحث کیجیے، سوالات کا موقع دیں!‘‘

صاحب نے کتاب میز پہ رکھ دی اور نہایت متکبرانہ لہجے میں گویا ہوئے ’’میاں آپ پڑھنے آئے ہیں یا سوال کرنے۔‘‘

’’سوال نہیں کریں گے تو پڑھیں گے کیسے!‘‘

بس اتنی سی بات پہ ہوگیا بائیکاٹ… ان کی طرف سے پڑھانے کا، ہماری طرف سے پڑھنے کا!

اردو نثر کے اسالیب پڑھانے والی خاتون نے پڑھاتے پڑھاتے ہاتھ میں پکڑی کتاب میز پہ پٹخ دی اور تنک کے بولیں ’’یہ سرسید بھی کتنی مشکل اردو لکھتا ہے، کیسے پڑھ لیتے ہیں لوگ اسے‘‘۔ لو کر لو گَل… سرسید کی ہوگئی چھٹی۔ خاتون نے کلاس موقوف کرکے لڑکیوں سے میک اپ اور جوتوں پہ گفتگو شروع کردی۔

ہم سر اور پیر پٹختے باہر نکلے۔ کلاس روم کے دروازے پہ کھڑے کھڑے چیخنا شروع کردیا۔ واویلا ہوگیا۔ اساتذہ سے بدتمیزی، گستاخانہ زبان اور وہ بھی ادب کے طالب علم ہو کر… لاحول ولا۔

ایسے میں ایک مہربان آدمی ساتھ کے کمرے سے برآمد ہوتا ہے۔ معاملہ معلوم کرکے ہمیں پیار سے اپنے پاس بلاتا ہے۔ کلاس روم میں آ کے بٹھاتا ہے۔ پھر وہ بولنا شروع کرتا ہے تو ہماری زبان کے بے لگام گھوڑے کو جیسے لگام آجاتی ہے۔ بل فائٹر نے جیسے چنگھاڑتے ہوئے بل پر قابو پا لیا ہو، چہرہ شفقت کا بھرپور تاثر لیے، لہجہ اپنائیت سے بھرا ہوا، گفتگو جیسے یہی سننے کے لیے ہم آئے ہوں۔ باتیں، گویا جو ہماے دل میں ہیں۔ پہلے ہی تاثر میں اپنا گرویدہ کر لینے کی خداداد صلاحیت رکھتے تھے ہمارے استاد محترم، ڈاکٹر فاروق احمد۔

ایک طرف چالیس منٹ کی کلاس کو بیس منٹ پہ اونگھنے پہ مجبور کرنے والے اساتذہ تھے اور ایک طرف وہ آدمی تھا، جس نے ایک بار دیوانِ غالب کی اولین غزل ’نقش فریادی ہے‘ پہ کلاس لینی شروع کی تو محض لفظ ’نقش‘ کی تشریح میں سوا دو گھنٹے تک بولتا رہا… جی ہاں، دو گھنٹے بیس منٹ کی کلاس، پن ڈراپ سائلینس… مجال ہے جو کوئی پانی کے بہانے بھی اپنی جگہ سے ہلا ہو۔

ہفتوں، بلکہ اکثر مہینوں میں ایسی ایک کلاس ہوتی تھی اور پھر ہم خود ہفتوں کسی کلاس کی ضرورت ہی محسوس نہ کرتے۔ انھی چند کلاسوں میں پورا ادب گھول کے پلادیا تھا اس عالم آدمی نے۔ درست سمت کی جانب پہلے قدم کی رہنمائی اسی کے حرف کی محتاج ہے۔ میری پریشاں فکری پہ ہی ایک دن انھوں نے کہا تھا ’’یہی عمر کا وہ مرحلہ ہے، جہاں یا تو تمہاری فکر پک کر کندن بن جائے گی، یا پھر پاگل ہوجاؤ گے۔‘‘ فکر کی پختگی کا تو علم نہیں، اتنا ضرور ہوا کہ ان کی رہنمائی میں پاگل ہونے سے بچ گیا میں۔

فاروق صاحب حقیقی معنوں میں سر تا پا معلم تھے۔ ان کی محفل میں بیٹھ جائیے، کچھ نہ بھی بولیں تو بھی لگتا تھا کچھ نہ کچھ سکھا رہے ہیں۔ ایسا کئی بار ہوا کہ ہم محض ملنے کے لیے گئے اور کمرے میں جا کے بیٹھ گئے۔ انھوں نے سگریٹ سلگا لیا، اور پھر سگریٹ سے سگریٹ سلگاتے چلے گئے۔ پہروں کوئی مکالمہ نہ ہوتا۔ ہم ان کی خاموشی سے علم کشید کرکے اجازت لینے لگتے تو چونک کے کہتے، ارے یار بیٹھو، چائے کا تو میں نے پوچھا ہی نہیں!

اور جب بولتے، تو ایک ایک فقرہ نپا تلا ہوا۔ گویا اندر فقرہ سازی کا کوئی سانچہ ہے کہ لفظ جس میں ڈھل کر مربوط ہو کر نکلتے ہیں۔ ایک حرف اضافی نہیں، ایک حرف بے کار نہیں۔ اور ہم جوانی کے منہ زور گھوڑے پہ بیٹھے، بے تکان اور بے فضول گفتگو کے مارے ہوئے۔ سو ایک بار یونہی اشارتاً کہا ’’اگر ادب پڑھنا چاہتے ہو تو پانچ دیگر مضامین پر دسترس نہیں تو ان کا سرسری علم ضرور حاصل کرو۔‘‘ میں ہمہ تن گوش… حکم ہوا ’’فلسفہ، نفسیات، تاریخ، سوشیالوجی اور فزکس۔‘‘ بہت بعد میں احساس ہوا کہ ’’کم بولو، زیادہ پڑھو‘‘ والی عام سی بات کی جانب انھوں نے کمال ہوشیاری سے راغب کردیا تھا۔

اختلافِ رائے کو رشتوں پر اثرانداز نہیں ہونا چاہیے، یہ سبق بھی ہم نے قلم قبیلہ میں ہونے والی ان کی نشستوں سے سیکھا۔ جہاں فلسفے والے حامد صاحب اور ’محبت کا کبھی تجزیہ نہیں ہوتا‘ جیسا لافانی فقرہ بولنے والے عبداﷲ اکثر ایک دوسرے کے حریف ہوتے۔ بحث شروع ہوتی تو علم کے دریا امڈ پڑتے اور پھر میدان جنگ چھڑ جاتا۔ یوں لگتا کہ جیسے ابھی یہ دونوں اٹھ کر ایک دوسرے کے گریبان میں ہاتھ ڈال دیں گے۔ یا کبھی کم از کم آج کے بعد پھر کبھی ایک دوسرے کی شکل نہیں دیکھیں گے… لیکن معاملات کے نقطہ عروج پر پہنچنے سے قبل فاروق صاحب ریفری کی طرح میدان میں کود پڑتے اور کچھ یوں بحث کو اختتام کی جانب لے جاتے کہ دونوں فریقین شیر و شکر ہو جاتے۔ لیجیے چائے آگئی، اور وہ جو ابھی چند لمحے پہلے ایک دوسرے پر تنے ہوئے تھے، مل کر قہقہے لگا رہے ہیں اور ہاتھ میں ہاتھ ڈالے گپیں ہانک رہے ہیں… کیا بڑے لوگ تھے!

مجھے لگتا تھا کہ ان کی بس ایک ہی کمزوری تھی، عشق… جو ہر اچھے اور نیک آدمی کی کمزوری ہوتا ہے۔ جو پاک انسانوں کی نشانی ہوتا ہے۔ بس ہوا یوں کہ ان سے عشق کرنے والی بھی شاید مغل خاندان سے تھی، اس لیے اس نے اس شریف آدمی کو عمر بھر مار رکھا اور ان کی رواداری نے رہی سہی کسر پوری کردی۔ کئی بونوں نے انھیں عمر بھرگھیرے رکھا۔ اپنی کوتاہ قامتی چھپانے کے لیے اس برگد کے پیچھے پڑے رہے اور جیسے کسی بڑے برگد کے ارد گرد اگنے والی جھاڑیاں اس کے سائے سے لوگوں کو محروم کر دیتی ہیں، ایسے ہی کئی بونوں کا ساتھ بھی ایک بڑے قد کے آدمی کو چھپا دیتا ہے۔ فاروق صاحب اپنی رواداری میں ان بونوں کے ہاتھوں وقت سے پہلے مارے گئے، تنہا کرکے مارے گئے، فکری دوستوں سے دوری کے غم میں مارے گئے۔

کتنے لوگ رہ گئے ہیں اس جہاں میں جو ’عشق آدمی بنا دے گا تمہیں‘ جیسی پیش گوئی کرتے ہوں، جو الفاظ کی روح سے آشنا کرنے کا درس دیتے ہوں، جو جھوٹ کے خمیر سے گندھے معاشرے میں اپنے حصے کی سچائی کے ساتھ جینے کا حوصلہ دیتے ہوں، جو برائی کے مقابلے میں (بنا کسی خوف اور لالچ کے) اچھائی کیے جانے پر یقین رکھتے ہوں، جو انسانوں کی خامیوں کے بجائے خوبیوں پر بات کرنا زیادہ اہم جانتے ہوں، جو سرمائے کی ذخیرے والی ذلت میں مبتلا معاشرے میں بھی انسان کو، سچ کو، محبت کو، خلوص کو، ایمانداری کو، اختلاف رائے کو، یاری دوستی کو، دوسرے کے فائدے میں اپنے نقصان کو، مقدم جانتے ہوں۔

ایسے لوگ ناپید ہوئے، ایسے انسان کمیاب ہوئے… اس لیے ایسے انسانوں کی اچھی یادوں کو دہراتے رہنا چاہیے۔ ایسے نیک انسانوں کے نقش قدم پر چلتے رہنا چاہیے کہ ان کے نقشِ پا محفوظ رہیں، ان کی یادوں سے ہمارے حافظے پاک رہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔