حکومتی صفوں میں بوکھلاہٹ کیوں؟

مزمل سہروردی  جمعرات 8 اکتوبر 2020
msuherwardy@gmail.com

[email protected]

ملک کا سیاسی منظر نامہ غیر محسوس طریقہ سے اپوزیشن کے حق میں جا رہا ہے۔ دو سال سے حکومت کو اپوزیشن پر واضح برتری حاصل تھی لیکن گزشتہ ہفتہ کی سیاسی سرگرمیوں نے اپوزیشن کو پہلی دفعہ حکومت پر سیاسی برتری دی ہے۔ یہ سیاسی برتری عارضی ہے یا مستقل۔ اس پر بحث اور اختلاف ہو سکتا ہے۔

پی ڈی ایم کے مستقبل کے حوالہ سے شکوک و شبہات اپنی جگہ موجود ہیں۔ لیکن پھر بھی پی ڈی ایم کے قیام اور نواز شریف کی چند تقاریر نے ہی منظر نامہ بدل دیا ہے۔ آپ اب جتنی مرضی پابندیاں لگا لیں لیکن چند تقاریر نے اپنا کام کر دیا ہے۔ اب مزید تقاریر کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ بلکہ ن لیگ میں ایک رائے یہ بھی موجود ہے کہ ا ب انھیں مزید تقاریر نہیں کرنی چاہئیں۔

حیرانی کی بات تو یہ ہے کہ ان تقاریر کے بعد ن لیگ کا ایک بڑا طبقہ خوف کا شکار تھا کہ پتہ نہیں ان تقاریر کا رد عمل کتنا شدید ہوگا۔ لیکن حکومت کی بوکھلاہٹ نے ن لیگ کے اندر سے وہ تمام خوف ختم کر دیا ہے۔ بالخصوص لاہور میں درج ہونے والے غداری کے مقدمہ اور بعدازاں اس پر حکومتی بوکھلاہٹ نے اپوزیشن کے غبارے میں بے وجہ اتنی ہوا بھر دی ہے۔ اب حکومت کمزور اور اپوزیشن طاقتور نظر آ رہی ہے۔ کل تک جو اپوزیشن گرفتاریوں کے خوف سے عدالتوں سے ضمانتیں کروا رہی تھی۔ اب اعلان کر رہی ہے کہ بے شک گرفتار کر لو ہم نے کوئی ضمانت نہیں کروانی۔

یہ بات بھی حقیقت ہے کہ حکومت کی اپوزیشن پر برتری میں اب تک نیب کا کلیدی کردار رہا ہے۔ اپوزیشن نیب اور اس کی گرفتاریوں کے خوف سے دبی ہوئی تھی۔ لیکن کیا حکومت پولیس سے بھی نیب جیسا کام لے سکتی ہے۔ یہ ایک الگ سوال ہے۔ ماضی گواہ ہے کہ حکومتوں نے جب بھی پولیس کے ذریعے اپوزیشن کو شکست دینے کی کوشش کی وہ ناکام ہوئی ہے۔ پولیس کے ڈی این اے میں وہ طاقت ہی نہیں جس سے حکومتیں اپوزیشن کو شکست دے سکیں۔

ایسے میں سوال یہ ہے کہ پھر حکومت پولیس سے کیا کام لے سکتی ہے۔ کیونکہ نیب سے بھی محدود کام ہی لیا جا سکتا ہے۔ آخر نیب کی بھی ایک حد ہے وہ کتنے لوگ گرفتار کر سکتی ہے۔ بات سادہ ہے۔ اپوزیشن کی سیاسی قیادت کو پولیس اور پولیس مقدمات سے نہیں ڈرایا جا سکتا۔ البتہ سیاسی کارکنوں کو پولیس سے ڈرایا جا سکتا ہے۔ ہمیشہ سے پولیس کا ایک طریقہ رہا ہے کہ اپوزیشن کے سیاسی جلسہ اور ریلی سے قبل پولیس اپوزیشن کے متحرک سیاسی کارکنوں کو پکڑ لیتی ہے تا کہ جلسہ اور ریلی میں حاضری کم کی جا سکے۔

ٹرانسپورٹ پکڑ لیتی ہے تا کہ اپوزیشن کو اپنے جلسہ اور ریلی کے لیے ٹرانسپورٹ نہ مل سکے۔ تیاریوں کے لیے بنائے گئے کیمپ آفس بند کروا دیے جاتے ہیں۔ کارکنوں کو ڈرایا دھمکایا جاتا ہے کہ وہ غیر فعال ہو جائیں۔ لیکن پولیس کو اپوزیشن کی قیادت کو ڈرانے دھمکانے کے لیے استعمال کرنے کی کوئی بھی کوشش کبھی کامیاب نہیں ہوئی ہے۔ اب بھی ایسا ہی ہو رہا ہے۔

حکومت کے اندر ایک عجیب ڈر اور خوف پیدا ہو گیا ہے کہ پولیس میں اپوزیشن اور بالخصوص ن لیگ کے ہمدرد موجود ہیں۔ اس لیے گزشتہ دو دن سے پولیس میں تبادلوں کا طوفان آیا ہوا ہے۔ کچھ کو پنجاب بدر کیا جا رہا ہے، کچھ کو کھڈے لائن لگایا جا رہا ہے، کچھ کو سامنے فرنٹ لائن پر لایا جا رہا ہے۔

غرض کہ صاف نظر آ رہا ہے کہ حکومت پولیس کے اندر سے ایک ایسی ٹیم بنانے کی کوشش کر رہی ہے جو اس کی اپوزیشن کے ساتھ لڑائی میں فرنٹ لائن پر لڑے۔ اب یہ کوشش کتنی کامیاب ہو گی یہ تو وقت ہی بتائے گا۔ ماضی میں ہم نے ایسی تمام کوششیں ناکام ہوتی ہوئی دیکھی ہیں۔

پنجابی کا ایک محاورہ ہے کہ نانی اماں نے شادی کی بری بات کی لیکن کرنے کے بعد طلاق لے لی وہ اس سے بھی زیادہ بری بات کی۔ اسی طرح حکومت نے اپوزیشن رہنماؤں پر غداری کا مقدمہ قائم کیا، غلط کیا۔ لیکن مقدمہ بنانے کے بعد اس پر یو ٹرن لے لیا۔ یہ اس سے بھی غلط کام کیا۔ حکومتی یوٹرن نے اپوزیشن کو خواہ مخواہ جیت کا جشن منانے کا موقع دے دیا۔ یہ اہم نہیں کہ اپوزیشن غدار ہے کہ نہیں۔ مقدمہ قائم رہنا اہم تھا۔ جیسے اپوزیشن چور ہے کہ نہیں اہم نہیں ہے۔

اپوزیشن پر چوری کے مقدمے قائم رہنا اہم ہیں۔  اس لیے اگر حکومت نے اپوزیشن کے سرکردہ رہنماؤں کے خلاف غداری کا مقدمہ قائم کر ہی لیا تھا تو اس پر قائم رہنے کی ضرورت تھی۔ گرفتاریاں کرنی چاہیے تھیں۔ ایسے مقدمات میں مدعی مقدمہ بھی سوچ سمجھ کر منتخب کرنا چاہیے۔ حکومت کو کونسی مدعیوں کی کمی ہوتی ہے۔ اپوزیشن کا کوئی تھرڈ کلاس رہنما بھی مدعی بننے کے لیے تیار ہو سکتا تھا۔یہ پولیس ریکارڈ یافتہ مدعی سامنے لانے کی کیا ضرورت تھی۔ یہ تو گلو بٹ والی بات ہو گئی۔ اب سب کہہ رہے ہیں کہ تحریک انصاف اس مقدمہ میں اپنے گلو بٹ کو سامنے لے آئی ہے۔

حکومتی بوکھلاہٹ کہیں نہ کہیں یہ بھی ظاہر کر رہی ہے کہ اب تک جو طاقت حکومت کے لیے معاملات حل کرتی رہی ہے وہ اب شاید نہیں کر رہی ہے۔ پہلی دفعہ حکومت خود اپنے معاملات حل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس لیے حکومتی اقدامات میں اناڑی پن نظر آرہا ہے۔ پھر حکومتی صفوں میں بھی اتحاد نظر نہیں آ رہا۔ اس موقع پر جب حکومت اور اپوزیشن کے درمیان پہلے معرکہ کے لیے صف بندی ہو رہی ہے۔ حکومتی صفیں تقسیم نظر آ رہی ہیں۔ جب کہ اپوزیشن کی صفوں میں غیر معمولی اتحاد نظر آ رہا ہے۔ حکومت کے اندر بلیم گیم جاری ہے۔

کوئی بھی ایک دوسرے کے ساتھ چلنے کے لیے تیار نظر نہیں آ رہا۔ یہ ٹھیک نہیں ہے۔ ایسے تو جیتی ہوئی گیم بھی ہاری جا سکتی ہے۔ اپوزیشن پر تنقید کرتے کرتے حکومتی حلقہ ایک دوسرے پر بھی تنقید کرنے لگ گیا ہے۔ یہ منظر بھی نیا ہی ہے۔ ورنہ ایسی غیر معمولی صورتحال میں سب حکومت بچانے کے لیے اکٹھے ہو جاتے ہیں۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ حکومت کے اندر یہ خیال مضبوط ہے کہ حکومت کہیں نہیں جا رہی ہے۔ اپوزیشن جو مرضی کر لے مقتدر حلقہ حکومت کے ساتھ ہے۔

اس لیے کچھ نہیں ہوتا۔ لیکن اس طرح تو حکومت مقتدر حلقوں کو بھی مشکل میں ڈال رہی ہے۔ کب تک وہ اس حکومتی بوکھلاہٹ اور اناڑی پن اور بیڈ گورننس کا ساتھ دیتے رہیں گے۔ اگر کہیں ان کی اور اپوزیشن کی بات چیت ہو گئی تو حکومت کے گھر جانے میں ایک لمحہ بھی نہیں لگے گا۔

حکومتی بوکھلاہٹ کی ایک بڑی وجہ یہ بھی نظر آ رہی ہے کہ بات تنقید سے آگے نکل گئی ہے۔ دوسال  سے صرف تنقید سے ہی کام چل رہا تھا۔ اب عملی کام کرنا ہے جس کی حکومت کو عادت نہیں ہے۔ اپوزیشن سے نبٹنے کے لیے کس نے کیا کام کرنا ہے یہ بھی طے نہیں ہے۔ صاف نظر آ رہا ہے کہ ابھی تک حکومت نے کوئی واضح حکمت عملی بھی نہیں بنائی ہے۔ اسی لیے بوکھلاہٹ ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت سر جوڑ کر بیٹھے اور کوئی حکمت عملی بنائے اور اس پر عمل کرے۔ اس طرح ایک قدم آگے دو قدم پیچھے، تو لڑائی لڑنے سے پہلے ہی ہار جائیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔