بجلی اور مقناطیسی طاقت سے ذیابیطس کا علاج

ویب ڈیسک  پير 12 اکتوبر 2020
بجلی اور مقناطیسی میدان سے ذیابیطس کے علاج میں چوہوں پر کامیاب تجربات مکمل ہوچکے ہیں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

بجلی اور مقناطیسی میدان سے ذیابیطس کے علاج میں چوہوں پر کامیاب تجربات مکمل ہوچکے ہیں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

آئیووا: امریکی سائنسدانوں نے چوہوں پر تجربات کے بعد دریافت کیا ہے کہ بجلی اور مقناطیسی میدان (ای ایم ایف) سے ٹائپ 2 ذیابیطس میں افاقہ ہوتا ہے جبکہ یہ اثرات خاصی مدت تک برقرار بھی رہتے ہیں۔

یونیورسٹی آف آیووا میں کارور کالج آف میڈیسن کی سنی ہوانگ اور کیلون کارٹر کی مشترکہ سربراہی میں کی گئی اس تحقیق کے دوران ٹائپ 2 ذیابیطس میں مبتلا چوہوں کو روزانہ دو گھنٹے کےلیے، تین دن تک ساکن برقی مقناطیسی میدان (Static EMF) میں رکھا گیا۔

اس کے بعد چوہوں کے خون میں شکر (بلڈ شوگر) اور انسولین کی حساسیت (Insulin Sensitivity) کا جائزہ لیا گیا تو معلوم ہوا کہ وہ معمول پر واپس آچکی تھیں۔ واضح رہے کہ بلڈ شوگر اور انسولین کی حساسیت (یعنی کارکردگی) کو ذیابیطس کی شدت ناپنے کے دو اہم ترین پیمانوں میں شمار کیا جاتا ہے۔

خاص بات یہ دیکھنے میں آئی کہ اُن چوہوں میں بھی بلڈ شوگر اور انسولین کی کارکردگی معمول پر واپس آگئی جنہیں جینیاتی تبدیلیوں کے ذریعے ذیابیطس میں مبتلا کیا گیا تھا، جبکہ دوسری جانب برقی مقناطیسی میدان کے یہ اثرات بھی کئی دنوں تک برقرار رہے۔

تجربات کے دوران مقناطیسی میدان کی شدت ہمارے زمینی مقناطیسی میدان کے مقابلے میں 100 گنا زیادہ رکھی گئی، تاہم یہ شدت جانداروں کےلیے بے ضرر ہوتی ہے۔

کچھ اور تجربات میں ذیابیطس سے متاثرہ انسانی لبلبے کے خلیات جب ساکن برقی مقناطیسی میدان میں رکھے گئے تو معلوم ہوا کہ ان میں بھی انسولین بنانے کی صلاحیت بحال ہوگئی۔

چوہوں پر کامیاب تجربات کے بعد اب ان سائنسدانوں کا منصوبہ یہی طریقہ انسانوں پر بھی آزمانے کا ہے، تاہم اس کےلیے انہیں متعلقہ اداروں سے اجازت درکار ہوگی۔

تاہم انہیں امید ہے کہ یہی تدبیر انسانوں کےلیے بھی اتنی ہی کارگر ثابت ہوگی جتنی چوہوں کےلیے ہوئی ہے، جس کے بعد وہ ایک ایسا نظام تیار کرنے کے بارے میں سوچ رہے ہیں جسے رات کے وقت آن کردیا جائے گا اور ذیابیطس کا مریض پوری رات اس ماحول میں سوتا رہے گا۔ اس طرح ٹائپ 2 ذیابیطس کا آسان اور بے ضرر علاج ممکن ہوجائے گا۔

اس تحقیق کی تفصیلات ریسرچ جرنل ’’سیل میٹابولزم‘‘ کے تازہ شمارے میں آن لائن شائع ہوئی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔