- پولیس سرپرستی میں اسمگلنگ کی کوشش؛ سندھ کے سابق وزیر کی گاڑی سے اسلحہ برآمد
- ساحل پر گم ہوجانے والی ہیرے کی انگوٹھی معجزانہ طور پر مل گئی
- آئی ایم ایف بورڈ کا شیڈول جاری، پاکستان کا اقتصادی جائزہ شامل نہیں
- رشتہ سے انکار پر تیزاب پھینک کر قتل کرنے کے ملزم کو عمر قید کی سزا
- کراچی؛ دو بچے تالاب میں ڈوب کر جاں بحق
- ججوں کے خط کا معاملہ، اسلام آباد ہائیکورٹ نے تمام ججوں سے تجاویز طلب کرلیں
- خیبرپختونخوا میں بارشوں سے 36 افراد جاں بحق، 46 زخمی ہوئے، پی ڈی ایم اے
- انٹربینک میں ڈالر کی قدر میں تنزلی، اوپن مارکیٹ میں معمولی اضافہ
- سونے کے نرخ بڑھنے کا سلسلہ جاری، بدستور بلند ترین سطح پر
- گداگروں کے گروپوں کے درمیان حد بندی کا تنازع؛ بھیکاری عدالت پہنچ گئے
- سائنس دانوں کی سائبورگ کاکروچ کی آزمائش
- ٹائپ 2 ذیا بیطس مختلف قسم کے سرطان کے ساتھ جینیاتی تعلق رکھتی ہے، تحقیق
- وزیراعظم کا اماراتی صدر سے رابطہ، موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے مشترکہ اقدامات پر زور
- پارلیمنٹ کی مسجد سے جوتے چوری کا معاملہ؛ اسپیکر قومی اسمبلی نے نوٹس لے لیا
- گزشتہ ہفتے 22 اشیا کی قیمتیں بڑھ گئیں، ادارہ شماریات
- محکمہ موسمیات کی کراچی میں اگلے تین روز موسم گرم و مرطوب رہنے کی پیش گوئی
- بھارت؛ انسٹاگرام ریل بنانے کی خطرناک کوشش نے 21 سالہ نوجوان کی جان لے لی
- قطر کے ایئرپورٹ نے ایک بار پھر دنیا کے بہترین ایئرپورٹ کا ایوارڈ جیت لیا
- اسرائیلی بمباری میں 6 ہزار ماؤں سمیت 10 ہزار خواتین ہلاک ہوچکی ہیں، اقوام متحدہ
- 14 دن کے اندر کے پی اسمبلی اجلاس بلانے اور نومنتخب ممبران سے حلف لینے کا حکم
تتلیوں اور کھلونا ڈرون سے گرائے جانے والے باریک سینسر تیار
واشنگٹن: یونیورسٹی آف واشنگٹن کے سائنس دانوں نے مختلف کاموں کے لیے انتہائی چھوٹے اور کم وزن ڈرون بنائے ہیں جو کسی بھی پتنگے، تتلی اور پرواز کرنے والے کیڑے یا پھر کھلونا ڈرون پر رکھ کر ماحول میں گرائے جاسکتے ہیں۔ یہ سینسر ماحولیاتی تحقیق اور سائنسی تفتیش کا کام کرسکتے ہیں۔
ایسے سینسر کی بدولت ہوا میں آلودگی سے لے کر دیگر معاملات کو نوٹ کیا جاسکتا ہے۔ کسی کیڑے یا ڈرون کے ذریعے سینسر کو پھینکنے کے لیے ضروری ہے کہ وہ بہت ہلکے پھلکے اور مؤثر ہوں ۔ یہی وجہ ہے کہ ان سینسر کا وزن 90 سے 100 ملی گرام کے درمیان ہے۔
دوسرا چیلنج یہ ہے کہ سینسر کو خاص وقت پر گرانے کے لیے ’گرا دو‘ کی ہدایات دینا بہت ضروری ہے۔ تیسری مشکل یہ ہے کہ سینسر کو گرنے کے بعد محفوظ رکھنا ضروری ہے تاکہ وہ مقررہ وقت تک کام کرتے ہوئے ڈیٹا جمع کرتا رہے۔
ان تمام باتوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے سینسر کو تمام ضروری مراحل سے گزارا گیا ہے۔ جہاں تک سینسر کا سوال ہے تو اس کا وزن جیلی بھری بین کے دسویں حصے کے برابر ہے۔ اسی بنا پر اسے چھوٹے ڈرون یا کیڑے پر رکھا جاسکتا ہے۔
سینسر کو ایک مقناطیسی پِن اور کوائل سے دبا کر رکھا جاتا ہے۔ اسے گرانے کے لیے بلیو ٹوتھ سے پیغام دیا جاتا ہے۔ وائرلیس ہدایت کے ساتھ کوائل میں ہلکا کرنٹ دوڑتا ہے اور پِن کھل جاتی ہے جبکہ مقناطیسی میدان سینسر کو دھکیل کر باہر پھینکتا ہے اور وہ ڈرون یا کیڑے سے الگ ہوجاتا ہے۔
زمین پر گر کر خراب ہونے سے محفوظ رکھنے کے لیے بیٹری کو ایک کنارے پر لگایا گیا ہے جس کی بدولت سینسر گھومتا ہوا دھیرے دھیرے گرتا ہے اور اس کی رفتار 18 کلومیٹر فی گھنٹہ رہ جاتی ہے۔ تجرباتی طور پر اسے 72 فٹ کی بلندی سے گرایا گیا اوراسے کوئی نقصان نہیں پہنچا۔
یہ سینسر درجہ حرارت، نمی اور دیگر ماحولیاتی اثرات نوٹ کرسکتا ہے اور تمام ڈیٹا ایک کلومیٹر دوری تک وصول کیا جاسکتا ہے اور بیٹری سینسر کو ڈھائی سال تک چلانے کے لیے کافی ہے۔
اسے بہت چھوٹے کھلونا ڈرون سے گرایا گیا ہے جو خود 28 ملی میٹر جتنے تھے۔ پھر سینسر کو بڑے پتنگوں پر بھی رکھا گیا جس کا مظاہرہ ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے۔ اس طرح آپ کے ہاتھ میں کئی درجن سینسر سماسکتے ہیں۔ یہ ٹیکنالوجی ایک جگہ پر بہت سارے سینسر بکھیرنے کے لیے بہت کافی ہے۔
دوسرہ جانب ماہرین نے ان سینسر کے مختلف استعمالات پر سوال اٹھائے ہیں کہ کیا یہ زمین پر گر کر قدرتی ماحول کو نقصان پہنچاسکتے ہیں یا پھر عملی میدان میں یہ کس طرح کام کرسکے گا وغیرہ۔ یہی وجہ ہے کہ ماہرین اس پر مزید کام کررہے اور وہ ان سوالات کے جوابات تلاش کرنا چاہتے ہیں۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔