پاکستان آئی لینڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی

عبدالرحمان منگریو  اتوار 11 اکتوبر 2020

ملک میں فعال جمہوری سسٹم اور پارلیمنٹ موجود ہونے کے باوجود صدارتی آرڈیننس بذات ِ خود پارلیمنٹ و جمہوریت کی توہین ، حکمرانوں کی بد نیتی و نااہلی اور عوام کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے کے مترادف ہوتا ہے۔ پھر یہ آئی لینڈ اتھارٹی والا آرڈیننس تو نصف ملک کے عوام کے فطرتی اور آئینی و قانونی قومی حق سے متعلق ایسا خفیہ فیصلہ ہے جس سے رات کی تاریکی میں عوام پر حملہ کیا گیا ہے۔

اس آرڈیننس کی قانونی و آئینی حیثیت پر تو ملک میں قانونی و آئینی ماہرین کی جانب سے شدید تنقید ہورہی ہے ، مگر ہمارا مقصد قانونی و آئینی پیچیدگیوں میں اُلجھنے کے بجائے اس مسئلے پر عام فہم کے مطابق زمینی حقائق پر روشنی ڈالنا ہے ۔ چونکہ اس آرڈیننس نے جو بنیادی سوال پیدا کیا ہے وہ سمندر اور اُس میں موجود جزائر و دیگر وسائل پر مالکانہ اختیار کا ہے ۔ جس پر بحث میں سندھ کی صوبائی حکومت اور وفاقی حکومت میں رسہ کشی کا نکتہ اُٹھایا جارہا ہے ۔

سب سے پہلے دیکھنا یہ ہے کہ کیا یہ سمندر ، اُس کے جزائر اور دیگر وسائل سمیت صوبوں کی جغرافیائی حدود سے چھیڑ چھاڑ یا کمی و بیشی یا مالکانہ حقوق ایسی چیز ہیں، جن میں کسی بھی حکومت کی رائے یا خواہش پر تبدیلی لائی جاسکے؟ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ قدیم زمانے کے دقیانوسی بادشاہی نظام والی سوچ تو ہوسکتی ہے مگر 21ویں صدی کے مہذب ، جمہوری و عوامی معاشرے میں اس کا گمان بھی نہیں کیا جاسکتا۔ آج دنیا میں ملک و ملکی وسائل پر اختیار عوام کا تسلیم شدہ حق قرار دیا جاچکا ہے ۔ اقوام ِ متحدہ کا آئین و منشور اس بات کی دلیل ہے ۔

جس میں دنیا بھر کی حکومتوں کے اُمور کو نہیں بلکہ ان ممالک میں بسنے والی قوموں کے حقوق کے تحفظ کی بات تسلیم کی گئی ہے ، اور یہی بات صوبوں کی بری ، بحری و فضائی جغرافیائی حدود پر بھی لاگو ہوتی ہے ۔ اس لحاظ سے ملک کے سمندر اور تمام کوسٹل بیلٹ پر صرف اورصرف مقامی قوموں کا حق ہے ۔ جن سے چھیڑ چھاڑکا حق نہ تو صوبائی حکومتوں کو ہے اور نہ ہی وفاقی حکومت کو۔ کیونکہ ملکی آئین و قانون اور عالمی قانون بھی ان حکومتوں کو اس کی موجودہ صورتحال میں برقراری قائم رکھتے ہوئے محض اُس کے وسائل سے بہرہ مند ہونے کی اجازت دیتا ہے ، نہ کہ اُن میں ردوبدل کا اختیار دیتا ہے ۔

یہ یاد رکھنا چاہیے کہ دنیا بھرپر قابض برطانیہ کے چنگل سے سیکڑوں ملکوں کی آزادی ، خود پاکستان کا قیام ، امریکا جیسی سپر پاور ایٹمی طاقت سے وینز ویلا اور کیوبا کی آزادی اس بات کا ثبوت ہے کہ 20 ویں صدی کے نصف سے دنیا میں جنگوں اور فوجی طاقتوںکے بل پر قوموں کے حقوق سلب کرنا یا ان کی دھرتی پر قبضہ کرنا اب ممکن نہیں رہا۔ یہی وجہ ہے کہ اب دنیا میں کشمیر اور فلسطین سمیت تمام محکوم قوموں کی بات بڑے پیمانے پر اُبھر آئی ہے اور دنیا اُسے توجہ دینے لگی ہے ۔

یہ جو تمام پاکستانی بھارت کی جانب سے کشمیر اور اسرائیل کی جانب سے فلسطین پر قبضہ کے خلاف جو ہلکان ہوئے جاتے ہیں یہ اسی بات کی دلیل ہے۔کسی بھی دھرتی پر حق اس کی قوم کا ہوتا ہے ، نہ کہ کسی حکومت کا ۔ یہاں یہ بات ذہن میں رکھی جائے کہ پاکستان کوئی فطری و ارضی وطن نہیں بلکہ ہزارہا سالوں سے آزاد وطن رکھنے والی چار قوموں کے ایک نظریے پر متفق ہوکر اتحاد کی صورت میں یکجا ہونیوالے 4الگ الگ ملکوں کی جغرافیائی حدود پر قائم محض ایک نظریاتی وجود کا نام ہے ۔

جو صرف اپنے نظریے کی پختگی اور اُس پر ایمانداری ، رواداری، مساوات اور ہم آہنگی کے اُصولوں پر کاربند رہنے سے ہی یکجا اور مضبوط و مستحکم رہ سکتا ہے ۔ جب کہ کسی بھی قسم کی اجارہ داری ، ناجائز قبضہ و غیر مساوی سلوک اس ملک کی تنزلی اور تباہی کا باعث ہوسکتا ہے ، جو کہ بدقسمتی سے 73 سالہ حکمرانوں اور ملک پر قابض قوتوں کی بداعمالیوں اورایسے صدارتی آرڈیننس جیسی اجارہ داری والی فطرت کے باعث ہم بھگت بھی رہے ہیں ، لیکن ہمیں فکر اس بات کی ہے کہ قوموں کے وجود اور اُن کی ماتر بھومی سے چھیڑ چھاڑ والی غیر جمہوری کارروائیوں سے خدا نخواستہ اگر کہیں قوموں کا اتحاد ختم ہوگیا تو کیا ہوگا ۔ اس لیے ہم سمجھتے ہیں کہ یہ صدارتی آرڈیننس سے قوموں کو آپس میں لڑاکر ملک کی سالمیت کے خلاف سازش کی گئی ہے۔

ماضی میں بھی ایسی ہی ایک سازش ون یونٹ کے روپ میں کی گئی تھی جس کے نتیجے میں ہم نے بنگلہ دیش کی علیحدگی کی صورت میں پاکستان کے دو ٹکڑے ہوتے دیکھے ۔ اس ملک پر قابض قوتیں آج بھی اپنی سازشوں میں مصروف ہیں کہ کسی طرح اس ملک کے ٹکڑے ٹکڑے کرلیں ۔ یاد رکھیں کہ یہ سازشیں اب تک اگر ناکام رہی ہیں تو اُس کے پیچھے عوام کی وہ جوانمردی، برداشت اور وطن عزیز کے ساتھ خلوص ہے جو اس ملک کی بقا کے لیے سرگرم ہیں ، ورنہ علیحدگی کے نظریات کی طرف اگر وہ مائل ہوکر متحد ہوجاتے تو ظاہری طور پر خود کو وطن پرست ظاہر کرنے والی اور درحقیقت ملک توڑنے پر کام کرنیوالی یہ سازشی قوتیں کب کی کامیاب ہوجاتیں اور الزام علیحدگی پسندوںپر لگا دیتیں۔

عوام کے 73سالہ زخمی بدن پر مرہم رکھنے کے بجائے اُلٹا اُن پر نت نئے حملے کرنا کسی طور بھی دانش مندی نہیں ہوگی ۔ تجزیہ کاروں کی رائے ہے کہ موجودہ حکومت اپنے قیام کے اول روز سے ملک میں تضادات اُبھارنے اور بحرانوں کا باعث بنی ہوئی ہے ۔ کبھی معیشت کا رونا روکر ملکی پالیسیوں میں عالمی مالیاتی اداروں کو براہ ِ راست شامل کرنا، کبھی کراچی پر وفاقی قبضے کی فضا پیدا کرنا۔ کبھی این ایف سی ایوارڈ اور 18ویں ترمیم کے نام پر صوبوں کی خودمختاری پر وار کرنا اور کبھی ملک میں آٹا، چینی ، پیٹرول ، گیس اور دیگر اشیاء کا بحران پیدا کرکے عوام پر مہنگائی کے بم برسانا جیسے اقدامات بھی اسی حکومت کے مرہون ِ منت ہیں ۔ اس آرڈیننس کو ایک دو ماہ تک خفیہ رکھا گیا ۔

جس سے ثابت ہوتا ہے کہ وفاقی حکومت ہو یا صوبائی حکومت دونوں اس کھیل میں برابر کی شریک ہیں ۔ اگر یہ کام آئینی اور قانونی ہوتا تو اِسے یوں چھپایا نہ جاتا ۔ اس لیے ملک کے دیرپا استحکام کے لیے ملک کے ایماندار ججز پر مبنی بااختیار کمیشن تشکیل دیا جائے ۔ جو درج ذیل چند باتوں کی تحقیق کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی سفارشات ترتیب دے۔ (1) کمیشن غور کرے کہ اس سازش میں کون کون شریک ہے ۔ (2) ان جزائر کی ترقی ضروری ہے یا نہیں ، اور اگر ضروری ہے تو اس سے کس کو فائدہ ہوگا؟ (3) لاکھوں مقامی لوگوں کے روزگار اور دیگر حقوق کا کیا ہوگا؟ (4) ان جزائر پر اور ان سے ہونے والی آمدنی پر کس کا اختیار ہونا چاہیے ؟ (5) اگر یہ منصوبہ ضروری ہے تو کیوں نہ قانونی و آئینی راستہ اختیار کیا گیا؟ (6) آیندہ کس طرح صوبوں کے حقوق کا تحفظ برقرار رہ سکتا ہے ۔ (7) کیا یہ منصوبہ صوبائی اور وفاقی شراکت و اختیار پر نہیں چل سکتا؟ (8) اس منصوبے سے دونوں صوبوں کو ڈیمو گرافیائی تحفظ دیا جائے گا یا نہیں ؟ (9) ان نئے بننے والے شہروں میں آباد ہونیوالے لوگوں کی قانونی حیثیت کیا ہوگی ؟ (10) اس کے سندھ و بلوچستان پر کیا اثرات پڑیں گے ؟

حقیقت یہ ہے کہ اس دور میں جب دوسرے علاقے کسی کی اجارہ داری اور طاقت کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں ، ایسے میں کیسے اور کب تک مختلف قوموں سے طاقت سے فیصلہ منوا سکتے ہو؟ لیکن ہاں برابری ، سراسری اور مساوانہ حقوق و سلوک اور ہم آہنگی و تعظیم ایسی چیزیں ہیں جو ایک دوسرے کے لیے دل میں خلوص اور نرم گوشہ ومحبت پیدا کرنے کا سبب بنتی ہیں ، اور یہی وہ چیز ہے جو قوموں کو ہنسی خوشی ساتھ رکھ سکتی ہے۔ جس کی پہلی منزل اعتماد ہے ۔

تو سب سے پہلے قوموں (صوبوں) میں ایک دوسرے کے مابین اور وفاق کے لیے اعتماد پیدا کریں۔جس کا واحد حل آئین و قانون کو مقدس جان کر تمام ملکی اُمور کو اُس کے تابع کیا جائے جب اعتماد پیدا ہوجائے گا تو ملک میں کسی بھی کا م کے لیے آپ کو یوں خفیہ کام نہیں کرنا پڑیں گے بلکہ ملک بھر میں کہیں بھی وفاقی منصوبوں اور اسکیموں پر عوام مطمئن و خوش نظر آئیں گے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔