ایک تکلیف دہ سفر…

شیریں حیدر  اتوار 11 اکتوبر 2020
Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

اپنے گزشتہ کالم میں، میں نے بتایا تھا کہ میرا کورونا ٹسٹ منفی آ گیا تھا اور اس سے دلی سکون حاصل ہوا تھا، اس سے پہلے ٹسٹ کی رپورٹ کاانتظار،  جس نے چوبیس گھنٹے تک ایک ایسی اذیت میں مبتلا رکھا تھا جو ایک عمر تک بھاری تھے۔ ٹسٹ منفی آگیا تھا مگر نہ جسمانی درد کم ہو رہا تھا نہ بخار۔

مزید شبے سے بالا ہونے کے لیے اگلے ایک دو روز میں ہی دونوں بچے بھی جا کر کورونا کا ٹسٹ کروا آئے اور ان کا ٹسٹ بھی منفی رہا تھا اس سے مزید تسلی ہو گئی… بچوں نے پاپا سے بھی کہا مگر انھیں ہم سب کے ٹسٹ پر اعتماد تھا اور انھوں نے اس کی ضرورت نہیں سمجھی۔

اٹھارہ یا انیس ستمبر سے مجھے یہ تکلیف شروع ہوئی تھی اور لگ بھگ دس دن گزرنے پر بھی بخار ختم نہ ہو رہا تھا یا جسم سے ناطاقتی ختم ہو رہی تھی، بخار اور درد کی دوائیں لے کر چل رہی تھی۔ کوئی کہتا دوبارہ کورونا کا ٹسٹ کروا لیں، کوئی سوال کرتا کہ کھانسی اور زکام بھی ہے کہ نہیں ۔ ہمارے عصر کی وہ لاعلاج بیماری ہے کہ جس کی نہ ابھی تک مکمل درست تشخیص ہو سکی ہے نہ اس کی علامات سب مریضوں میں ایک سی ہیں ، نہ سب میں ایک سی شدت اور نہ ہی ایک سا علاج۔

ابھی تک اس پر تحقیق جاری ہے اور نو دس ماہ کا عرصہ گزر چکا ہے اور سائنس کی اس قدر ترقی کے باوصف ابھی تک دنیا اس کے لیے ویکسین دریافت نہیں کر سکی۔  دس دن کا ہلکا ہلکا بخار انسان کی کمر توڑ کر رکھ دیتا ہے۔ پچھلے تین چار دن سے صاحب کو بھی جسمانی کمزوری اور بخار کی شکایت رہنا شروع ہو گئی تھی۔ اسی لیے جب منصور نے کہا کہ مجھے اپنا ملیریا اور ٹائیفائیڈ کے لیے خون ٹسٹ کروا لینا چاہیے تھا تو میں نے اس پر دوسری دفعہ بھی نہیں سوچا اور اپنے علاقے ہی کی ڈسپنسری میں موجود سہولت سے فورا ٹسٹ کروا لیا۔

چند گھنٹوں کے بعد ہی فون پر اس لیبارٹری کی طرف سے پیغام آ گیا کہ میرا ٹائیفائیڈ کا ٹسٹ مثبت تھا۔ صاحب کو بھی مشورہ دیا کہ وہ بھی ٹسٹ کروا لیں سو انھوں نے اس بار مشورہ مان لیا اور اپنا ٹسٹ کروا آئے۔ حسب توقع ان کا بھی ٹائیفائیڈکا ٹسٹ مثبت تھا۔ ہمیںلگا کہ کورونا جیسی بڑی بیماری سے ٹائیفائیڈ شاید پھر بھی کم ہے۔  اگلے ہی روز ہم اپنے ٹسٹوں کی رپورٹوں کے ساتھ شہر کے بڑے اسپتال جا پہنچے اور ایک سینئیر میڈیکل اسپیشلسٹ کو دکھایا۔

انھوں نے اس ٹسٹ کی رپورٹ کو درست ماننے سے انکارکر دیا کہ دنیا کے کسی بھی ملک میں ٹائیفائیڈ کے خون کے ٹسٹوں کو مستند نہیں سمجھا جاتا… انھیں شک تھا کہ جسم میں کوئی اور انفیکشن تھی اور خون میں وہ انفیکشن آگئی تھی اور اس لیبارٹری کے کمپیوٹر نے اسے ٹائیفائیڈ کے طور پر تسلیم کیا تھا۔

’’ ہمارے اسپتال میں اور دیگر اسپتالوں میں بھی ٹائیفائیڈ کے لیے stool ( پاخانہ) ٹسٹ کیا جاتا ہے۔ مجھے شک ہے کہ آپ جیسے طرز زندگی رکھنے والے لوگوں کا کسی ایسی صورت حال سے واسطہ پڑا ہو گا کہ جہاں سے آپ ٹائیفائیڈ میں مبتلا ہو سکیں۔ پھر دیگرایسی علامات جن میں کہ دست اور الٹیاں وغیرہ ہوتی ہیں، وہ بھی آپ کو نہیں ہیں۔ تاہم میں آ پ کو ایک اینٹی بائیوٹک لکھ دیتا ہوں، اسے آپ دونوں ایک ہفتہ تک استعمال کریں، اسی دوران آپ اپنے دیگر ٹسٹ کروائیں اور اپنی خوراک میں احتیاط کریں۔ کسی دوا سے کوئی مسئلہ ہو تو مجھ سے فون پر رابطہ کر لیں! ‘‘  انھوں نے ساری ہدایات دیں، ٹسٹوں کے نام لکھے اور نسخے پر ہی اپنا فون نمبر بھی لکھ دیا ۔ انھوں نے بتایا کہ جس نوعیت کا درد مجھے تھا اس کے لیے وہ دل اور سینے کے دیگر امراض کے شبے کو رفع کرنا چاہتے تھے۔

ہم نے ان سے نسخہ جات لیے، وہیں پر لیبارٹری میں ٹسٹ دیے، سی ٹی سکین اورای سی جی کروائی اور واپسی پر ایک میڈیکل اسٹور سے دوائیں لیتے ہوئے گھر آگئے۔ اب علاج اس شبے پر ہو رہا تھا کہ ٹائیفائیڈ ہے یا نہیں۔ تاہم اینٹی بائیوٹک کے دو دن کے ہی استعمال سے بخار اور جسم کا درد کم ہونا شروع ہو گیا۔ اب ہلکی ہلکی کھانسی بھی شروع ہو گئی تھی اور پہلے جو درد میرے سارے جسم میں تھا وہ اب سمٹ کر سینے کی پشت پر کمر کے اوپری حصے میں آ گیا تھا۔

سینے کی ایک محبوس سی کیفیت تھی اور ہر وقت لیٹ لیٹ کر سستی نے ڈیرے تان لیے تھے۔ بخار کا زور ٹوٹا تو ہم نے رات کے کھانے کے بعد کی معمول کی واک شروع کردی۔ معمول کی واک سے آدھی واک میں ہی تھکاوٹ طاری ہو جاتی، سوچا کہ ظاہر ہے اتنے دنوں سے بستر میں پڑے پڑے جوڑ بھی جڑ گئے ہوں گے۔ گھر پہنچنے تک سانس دھونکنی کی طرح چلنے لگتی تھی اور نقاہت سی طاری ہو جاتی۔ کھانے پینے کی طرف بھی طبیعت کم ہی مائل ہوتی تھی، ذرا سی طبیعت بہتر ہوتی تو گھر کا معمول کا کام کر لیتی، کھانابھی بنا لیتی۔

دوا لیتے ہوئے سات دن ہو گئے تھے اورطبیعت پہلے سے کافی بہتر ہو گئی تھی۔ میرا بخار تو اب اتر چکا تھا مگر وہی ہلکا ہلکا سا بخار 99-100 اب صاحب کو رہنے لگا تھا اور ساتھ ہی ہم دونوں کو کھانسی شروع ہو گئی تھی۔ اسے بھی ہم نے موسم کی تبدیلی کا شاخسانہ سمجھا اور خود سے ہی کھانسی کا شربت لے کر اسے دواؤں میں شامل کر لیا۔ تھوڑی دیر تو اس سے کھانسی بہتر رہتی مگر رات کو سونا اور نماز پڑھنا مشکل ہو جاتا تھا۔ ایسی کھانسی چھڑ جاتی کہ جیسے دورہ پڑ گیا ہو۔ اس پر دیسی قہوے اور علاج بھی شروع کر دیے۔

احباب خیریت دریافت کرنے کے لیے کال کرتے تو ساتھ ایک نسخہ ضرور تاکید کردیتے اور ہم اس پر جس حد تک ممکن ہوتا عمل کر لیتے تھے۔ ہر کوئی ہمیں ٹائیفائیڈ کے حساب سے خوراک بہتر کرنے، پروٹین اور فائبرز کو خوراک سے منہا کرنے کے مشورے دے رہا تھا اور ساتھ مشورہ کہ تازہ پھلوں کا جوس پئیں لیکن اس وقت تک کمزوری اس قدر ہو چکی تھی کہ اپنا ہی گویا سارا جوس نکل چکا تھا۔خدا خدا کر کے وہ وقت تمام ہوا اور ہم نے اپنی ساری رپورٹیں لیبارٹری وغیرہ سے وصول کیں …

اس روز ساری رپورٹیں لینے میں ایک سے دوسری عمارت جاتے ہوئے چلنا دو بھر ہورہا تھا، حلق میں کانٹے سے اگے ہوئے تھے اور سانس اکھڑ رہی تھی۔ خون اور پیشاب کے نتائج لے کر دوسری عمارت کی طرف چلے۔ اسپتال میں کار پارک کرنے کا مسئلہ اتنا شدید ہے کہ اس سے بچنے کے لیے ہم نے ایک پارکنگ ایریا میں گاڑی کھڑی کی اور اس کے بعد ہر طرف پیدل ہی چلتے رہے۔

عام حالات میں یہ چلنا کچھ بھی نہ ہوتا مگر اس روز تو لگ رہا تھا کہ پہاڑ کی چوٹی سر کرنے کا مرحلہ درپیش ہے۔  آخری رپورٹ میری سینے کے سی ٹی سکین کی تھی، اسے لینے کے بعد ہمیں دوبارہ اسی میڈکل اسپیشلسٹ کے پاس جانا تھاا ور ان سے مزید دوائیں وغیرہ یا مستقبل کا علاج کی لائحہ ء عمل ان رپورٹوں کی روشنی میں طے کرنا تھا۔

’’ چلیں! ‘‘ صاحب نے کھانستے ہوئے،  میری سی ٹی سکین کی رپورٹ اور فلم کا بڑا سا لفافہ خاموشی سے مجھے تھمایا اور باہر کی طرف چل دیے۔ میںنے اٹھنے سے پہلے لفافے کو پلٹا… اور فورا اٹھ نہ سکی ، لفافے پر مارکر کی نمایاں موٹی لکھائی سے لکھے ہوئے ،  COVID- 19 Pneumonia کے الفاظ نے میرے سارے وجود سے جیسے ایک دم جان نکال دی تھی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔