پیٹ سے سوچنے والے

آفتاب احمد خانزادہ  اتوار 11 اکتوبر 2020
aftabkhanzada2@yahoo.com

[email protected]

یاد تک نہیں ہے کہ چیختے چلاتے روتے کتنا وقت بیت چکا ہے، دہائیاں دے دے کر آواز بھی ہم سے روٹھ چکی ہے لیکن کریں تو کریں کیا۔

بااختیار، طاقتور،تختوں پر بیٹھے ہمیں بھونکتے انسانوں سے زیادہ کوئی حیثیت، رتبہ یا مرتبہ دینے کو تیار ہی نہیں ہیں،اپنا ڈھانچہ چباتے بھونکتے انسان زنجیروں میں جکڑے سلاخوں کے پیچھے قید بھونکتے انسان اس کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں ہیں حد تو اب یہ ہوگئی ہے کہ کوئی پیچھے مڑ کر دیکھنے تک کو تیار نہیں ہے کیونکہ انھیں اچھی طرح سے معلوم ہوگیا ہے کہ یہ صرف بھونکے کے علاوہ اور کچھ کر ہی نہیں سکتے ہیں۔

اس لیے ان کی طرف دیکھ کر اپنا وقت کیوں ضایع کیا جائے اور واقعی سچ بھی تو یہ ہی ہے کہ کوئی ہم سے آخر ڈرے تو ڈرے کیوں، کیونکہ بقول ان کے ہم نے اب تک بھوکنے کے علاوہ کیا کچھ ہے جواب کچھ کریں گے ساری زیادتیوں، سارے ظلم و ستم ساری ناانصافیوں کے باوجود چین کی زندگی گذار رہے ہیں کبھی کبھار دوچار ہزار کی چوری کر نے والوں کو سرعام پیٹ کر یا انھیں نذر آتش کرکے اپنا غصہ نکال لیتے ہیں کبھی کبھی بجلی، گیس کی لوڈ شیڈنگ پر کھمبوں کو ڈنڈے یاپتھر مارکر خو ش ہوجاتے ہیں تو پھر ظاہر ہے ہمیں اہمیت دینا زیادتی ہی ہوگی۔

ان کے نزدیک ہم بھوکے ننگوں کی ایک فوج ہیں، کیڑے مکوڑوں کاایک جم غفیر ہیں، زمین پر رینگتے، سسکتے،سانس لیتے کیڑے ہیں جو کبھی کبھار سڑکوں پر نکل آتے ہیں پیلے چہروں، گندگی آنکھوں، بہتی ناک فاقہ زدوں کا ایک قافلہ ہیں کمزور، لاغر،ا فلاس کے ماروں کا ایک ہجوم ہیں جسم سے باہر نکلتی پسلیوں والوں پھٹے پرانے کپڑوں میں ملبوس وقت سے پہلے قبروں میں ڈالے گئے مردوں کا جلوس ہیں اور مردوں سے کیا ڈرنا کیو ں ڈرنا۔

اور ویسے بھی ہم صرف مال ہیں صرف سودا ہیں اس لیے ہم سب ٹھیکے پر ہیں آج ہمیں کسی نے ٹھیکے پر لے رکھا ہے کل اور کوئی ٹھیکیدار یا سوداگر آئے گا وہ اس سے زیادہ بولی لگا کر ہمارا سودا کر لے گا حضور اعلیٰ کبھی مال یا سودے کی کوئی مرضی یا منشا یا خواہش نہیں ہوتی ہے ہمیشہ ٹھیکیدار یا سوداگر کی مرضی، منشا اور خواہش چلتی ہے ہمارے ساتھ تو اس سے بھی برا ہونا چاہیے کیونکہ ہم اسی لائق اور قابل ہیں اور اسی سلوک کے مستحق ہیں ہم سے زیادہ بے حس لوگ دنیا میں کوئی اور ہوہی نہیں سکتے ہیں قصور سارا خود کا ہوتاہے الزام دوسروں کو دیتے پھرتے ہیں چوری،ڈاکے، کر پشن، لوٹ مارکی اجازت خود دیتے پھرتے ہیں اور نصیبوں اور قسمت کو برابھلا کہتے پھرتے ہیں لٹیروں کا ساتھ خود دیتے پھرتے ہیں اور جب وہ اپنا کام کر چکے ہوتے ہیں تو بیچ چوراہے پر بیٹھ کر لٹنے کی دہائیاں دیتے پھرتے ہیں اور تو اور اپنی بزدلی،کمزوری،خوف، ڈرکی وجہ سے چوروں، لٹیروں کانام لینے تک کانپتے ہیں اور غضب خدا کا سارا الزام ملک دشمنوں پر لگاتے پھرتے ہیں۔

آئیں! اب باتیں کرتے ہیں چوروں، لٹیروں اور کمیشن ایجنٹوں کی۔ اصل میں یہ سب بہت ہی دلچسپ مخلوق ہیں جو ذہن یادل سے نہیں بلکہ پیٹ سے سو چتے ہیں ان سب نے اپنا پہلا قاعدہ ہی غلط پڑھا ہواہے یہ سمجھے بیٹھے ہیں کہ زندگی کی تمام خوشیاں، راحتیں، مسرتیں اور سکون و چین سب روپو ں پیسوں ہیرے جواہرات، محلوں میں چھپی ہوئی ہیں اگر ان سب کی زندگیوں کا نفسیاتی مطالعہ کر لیاجائے تو یہ بات کھل کر سامنے آکھڑی ہوگی کہ یہ سب زندگی کے کسی نہ کسی موڑ پر محرومیوں اور ناکامیوں کاشکار ر ہے ہیں اور وہ محرومیاں آج تک ان کا پیچھا نہیں چھوڑ رہی ہیں۔ اصل میں یہ سب ادھورے انسان ہیں جو اپنے آپ کو مکمل کرنے کی کو ششوں میں اپنے آپ کو اورادھورا کرتے جارہے ہیں اور مزے کی بات یہ ہے کہ انھیں اس بات کا احساس تک نہیں ہے یہ سب خود لذتی کا شکار ہیں یہ اپنے آپ کو تسکین پہنچانے کی خاطر کسی کا بھی چین لوٹنے میں ایک سیکنڈ کی دیر نہیں لگاتے ہیں۔

انھیں یہ معلوم ہی نہیں ہے کہ دنیاکابدترین انسان وہ ہے جس کی وجہ سے کوئی دوسرا انسان روئے۔اور دوسری دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ سب دراصل انتہائی ڈرپوک، بزدل اور کمزور ہیں اسی لیے ہر مہینے خانہ کعبہ اور مدینہ منورہ کی طرف بھاگتے ہیں کیونکہ اندر کا خوف اور ڈر انھیں چین لینے نہیں دیتا ہے وہ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ لوگوں کی طر ح خدا کو بھی بے وقوف بنا سکتے ہیں اور وہ اپنی سی اس کوشش میں ہر مہینے مصروف رہتے ہیں اگرآپ ان کے چہروں کو بغور پڑھیں تو آپ کو ان کی پریشان، تفکرات صاف پڑھنے میں آجائیں گی۔

یاد رہے، یہ سب عذابوں میں گرفتار ہیں اسی لیے انھیں لوٹ مار، کر پشن کے سوا اور کچھ سجھائی نہیں دیتا ہے کہتے ہیں تمام قسم کی بھوک بیماری کی علامت ہوتی ہیں بھوک وہ عذاب ہے کہ جس کو چمٹ جائے تو پھر قبر تک ساتھ جاتی ہے ان سب کی ساری زندگی رشوت لیتے لیتے دھوکا بازی کرتے کرتے کرپشن اور لوٹ مار کر تے کرتے گذر تی ہے اور جیسے ہی بڑھاپا ان کے سامنے آجاتا ہے تو ایک دن آپ کو اچانک معلوم چلتا ہے کہ فلاں صاحب نے ساری برائیاں چھوڑ دی ہیں اور اب اللہ والے بن گئے ہیں۔

یہ سنتے ہی آپ کے ذہن میں فوراً یہ سوال جاگتا ہے اور آپ یہ سوال کر بیٹھتے ہیں تو کیاان صاحب نے اپنی ساری دولت، جائیدار،محل خیرات کردیے ہیں تو آپ کو یہ حیران کن جواب سننے کو ملتا ہے کہ نہیں خیرات تو کچھ نہیں کیالیکن اب اللہ والے بن چکے ہیں، لمبی داڑھی رکھ لی ہے، بیوی اور بچیاں برقعہ پہننے لگے ہیں ہر سال عمرے کرتے ہیں ہر سال حج کی سعادت حاصل کررہے ہیں نماز اور روزوں کی پوری پابندی کرنے لگے ہیں سرپر ٹوپی لگائے اونچی شلوار کے ساتھ ہاتھ میں تسبیح پکڑے پانچ وقت مسجد آتے جاتے نظر آتے ہیں اور ہر بات کے بعد انشاء اللہ، ماشاء اللہ اور الحمد للہ کہنا ان کاتکیہ کلام بن گیا ہے۔

ایک درویش بازار میں بیٹھا تھا بادشاہ کا گذر وہاں سے ہوا تو اس نے پوچھا کہ’’ بھائی کیا کررہے ہو‘‘ تو درویش نے کہاکہ ’’بندوں کی اللہ سے صلح کروارہاہوں، اللہ تو مان رہاہے مگر بندے نہیں مان رہے۔ ‘‘کچھ دنوں بعد درویش قبرستان میں بیٹھا تھا کہ اتفا ق سے بادشاہ وہاں آپہنچا تو پھر پوچھا کہ ’’بھائی یہاں کیاکررہے ہو‘‘ درویش نے کہا’’ اللہ کی بندوں سے صلح کروارہا ہوں لیکن آج بندے تو مان رہے ہیں مگر اللہ نہیں مان رہا۔‘‘ یاد رکھو، آج اللہ تومان رہا ہے لیکن اگر دیر ہوگی تو پھر اللہ نہیں مانے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔