سندھ ہائیکورٹ، بلدیاتی ترمیمی آرڈیننس اور حلقہ بندیوں کیخلاف 10 درخواستوں کی سماعت

اسٹاف رپورٹر  جمعـء 20 دسمبر 2013
مقامی آبادی پرمشتمل حلقے بنائے جائیں،ظفر علی شاہ و دیگر،انتخابی شیڈول کا سماعت پراثرنہیں پڑیگا، آبزرویشن بینچ۔ فوٹو: فائل

مقامی آبادی پرمشتمل حلقے بنائے جائیں،ظفر علی شاہ و دیگر،انتخابی شیڈول کا سماعت پراثرنہیں پڑیگا، آبزرویشن بینچ۔ فوٹو: فائل

کراچی: سندھ ہائیکورٹ کے جسٹس محمدعلی مظہر کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے بلدیاتی ترمیمی آرڈیننس اورحلقہ بندیوں کیخلاف جمعرات کو تقریبا 10 آئینی درخواستوں کی سماعت کی۔

متحدہ قومی موومنٹ کی جانب سے بیرسٹرفروغ نسیم نے دلائل دیتے ہوئے موقف اختیارکیاکہ پیپلزپارٹی شہری علاقوں سے اپنا میئرمنتخب کرانا چاہتی ہے اس لیے ساری بھاگ دوڑکی جارہی ہے،انھوں نے کہا کہ ڈسٹرکٹ کونسل کے خاتمے کے بعد بعض یونین کونسلوںکے ووٹوں کی تعداد10ہزارہوگی جبکہ شہری یونین کونسلوں کی تعداد 40/50ہزار ہے اس طرح  ڈسٹرکٹ کونسلوں کے ایک ووٹر کا حق 4شہری ووٹوں کے مساوی ہوگا، یہ آئین کے آرٹیکل 25کے منافی ہے ،کیونکہ ملک میں انتخابات ایک آدمی ایک ووٹ کی بنیاد پر ہوتے ہیں ، انتخابات کے موقع پرنئے اضلاع کی تشکیل اور یونین کونسلوں کی ٹوٹ پھوٹ سے  شہری قوتوں کے مینڈیٹ پر ڈاکہ ڈالا گیا ہے، ان تمام کوششوں کا مقصد متحدہ قومی موومنٹ کی سیاسی قوت کونقصان پہنچانا اورکراچی میں  پیپلزپارٹی کے میئر کوکامیاب کرانا ہے جس کے لیے بدنیتی پرمنبی اقدامات کیے جارہے ہیں انھوں نے موقف اختیارکیاکہ الیکشن کمیشن کا کام الیکشن کرانا نہیں بلکہ منصفانہ اور شفاف الیکشن کرانا آئین کا تقاضا ہے۔

بیرسٹر فروغ نسیم ایڈووکیٹ کے دلائل مکمل ہونے کے بعد بے نظیرآباد ،قمبر شہدادکوٹ ،نوشہروفیروز اور دیگر اضلاع کی حد بندیوں اور سندھ لوکل گورنمنٹ(ترمیمی) ایکٹ 2013کے خلاف دائر کردہ درخواستوں کی سماعت20دسمبر تک ملتوی کرتے ہوئے آبزرویشن دی ہے کہ انتخابی شیڈول جاری ہونے سے ان درخواستوں کی سماعت پراثرنہیں پڑے گا۔ رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر فاروق ستار کی جانب سے دائر درخواست میںملیر اور شرقی اضلاع کی یونین کمیٹیوں میں ردوبدل کوغیرقانونی قراردینے کی استدعا کی گئی ہے۔درخواست میں چیف سیکریٹری،الیکشن کمیشن ،کمشنر کراچی ،ملیر ،غربی ،شرقی ، وسطی اور جنوبی کے ڈپٹی کمشنرز اور دیگر کو فریق بناتے ہوئے موقف اختیار کیا گیا ہے کہ سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ کے تحت حلقہ بندیاں آخری مردم شماری کے مطابق کی جائیں گی،کراچی میں 1998میں آخری مردم شماری ہوئی جس کے مطابق کراچی کی آبادی 93لاکھ93ہزارتصور کی جاتی ہے۔

 photo 3_zps456d7214.jpg

پرانے بلدیاتی نظام کے تحت ایک یونین کونسل10سے 15ہزار نفوس کی بنیاد پر تشکیل دی گئی تھی جبکہ نئے نظام کے تحت 40سے 50ہزار نفوس پرمشتمل یونین کمیٹیاں قائم کردی گئی ہیں،اس نظام میں کراچی میں ڈسٹرکٹ کونسل بھی ختم کردی گئی ہے اور اس طرح کراچی میں صرف یونین کمیٹیاں ہی کام کریں گی۔اس ضمن میں 12نومبر کو سندھ لوکل گورنمنٹ (ترمیمی)ایکٹ2013کا نوٹیفیکیشن جاری کیا گیا ہے،درخواست میں  کہا گیا ہے کہ مذکورہ نوٹیفکیشن کے ذریعے ضلع ملیر میں 38یونین کمیٹیاں قائم کردی گئی ہیں، شاہ مریداور مائی گاڑھی کو غربی سے نکال کرملیر میں شامل کردیا گیا ہے جبکہ گابوپٹ کو غربی سے نکال کرضلع جنوبی میں شامل کیا گیا ہے پانچ یونین کمیٹیوں جان محمد بروہی گوٹھ ،ایوب گوٹھ،عباس ٹائون،گلزار ہجری اور صفورا گوٹھ کو ضلع ملیر سے نکال کر ضلع شرقی میں شامل کردیا گیا ہے۔اس طرح ملیر کے لیے41یونین کمیٹیاں اور جنوبی کے لیے 17یونین کمیٹیاں قائم کی گئی ہیں اور یونین کمیٹیوں میں آبادی کا تناسب بھی یکساں نہیں۔

درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ مذکورہ نوٹیفکیشن کوغیرقانونی اور کالعدم قراردیا جائے1998کی مردم شماری کے مطابق حلقہ بندیاں کی جائیں اور اسی لحاظ سے یونین کمیٹیاں بھی تشکیل دی جائیں۔مرید علی شاہ کی جانب سے دائر درخواست میں کہا گیا ہے کہ سندھ اسمبلی میں نئے بلدیاتی نظام کے حوالے سے سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ2013منظور ہوچکاہے،اس حوالے سے حکومت نے  بلدیاتی انتخابات کے سلسلے میں نئی مجوزہ حلقہ بندیوںپر 26ستمبر2013کو جاری نوٹیفیکیشن کے تحت شہریوں سے اعتراضات طلب کیے تھے،ایک اور نوٹیفکیشن کے ذریعے ڈپٹی کمشنرز کو لوکل کونسلز کیلیے حلقہ بندی افسر مقررکیا گیا تھا اور انھیں پابند کیا گیا تھا کہ مقامی آبادی کے لحاظ سے حلقہ بندیوں کا تعین کریں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔