کراچی میں عالم دین کا قتل

ایڈیٹوریل  پير 12 اکتوبر 2020
وفاقی اور سندھ حکومت کو اس صورتحال کا بغور جائزہ لے کر ایک مربوط حکمت عملی تیار کرنے کی ضرورت ہے

وفاقی اور سندھ حکومت کو اس صورتحال کا بغور جائزہ لے کر ایک مربوط حکمت عملی تیار کرنے کی ضرورت ہے

ملک کے نامور عالم دین اور جامعہ فاروقیہ کراچی کے مہتمم شیخ الحدیث مولانا ڈاکٹر عادل خان ایک ٹارگٹڈ حملے میں اپنے ڈرائیور سمیت شہید ہو گئے ۔ ان کی نمازِ جنازہ اتوار کو ادا کر دی گئی جس میں جید علمائے کرام،ان کے عقیدت مندوں اور شہریوں کی ایک بہت بڑی تعداد نے شرکت کی۔

ان کی تدفین جامعہ فاروقیہ میں ان کے والد مولانا سلیم اللہ خان کے پہلو میں کر دی گئی۔وزیراعظم عمران خان، آرمی چیف قمر جاوید باجوہ،وزیر اعلی سندھ اور سیاسی و مذہبی رہنماؤں نے مولانا عادل پر قاتلانہ حملے کی مذمت کی اور ان کی شہادت پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔ حکام کے مطابق اس واردات کا مقصد ملک میں فرقہ ورانہ فسادات کرانا ہو سکتا ہے۔

مجلس وحدت المسلمین کے صوبائی سیکریٹری جنرل علامہ باقر عباس زیدی نے کہا ہے کہ یہ قاتلانہ حملہ شہر کے امن تباہ کرنے کی سازش ہے۔ اہلسنّت والجماعت پاکستان کے صدر علامہ اورنگزیب فاروقی نے کہا ہے کہ وفاقی حکومت سمیت پاکستان کی تمام ایجنسیز 24 گھنٹے کے اندر مولانا ڈاکٹر محمد عادل خان کے قاتلوں کو گرفتار کرکے منظر عام پر لائیں ۔ پاکستان کی متحدہ اپوزیشن پی ڈی ایم اے نے 18 اکتوبر کو کراچی میں جلسہ عام کا اعلان کر رکھا اور اس سے ایک ہفتہ قبل یہ واقعہ پیش آیا ہے۔

وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ نے پولیس حکام کو قاتلوں کی گرفتاری فوری عمل میں لانے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ کچھ شدت پسند شہر کا امن خراب کرنا چاہتے ہیں۔ کراچی میں ایک سال کے اندر دہشت گردی کا یہ دوسرا بڑا واقعہ ہے۔ اس سے قبل گزشتہ سال مارچ میں دارالعلوم کورنگی کے سربراہ مفتی تقی عثمانی پر حملہ کیا گیا تھا جس میں وہ محفوظ رہے لیکن دو افراد جاں بحق ہو گئے تھے۔ یہ افسوس ناک واقعہ ہفتہ اور اتوار کی درمیانی شب ساڑھے سات اور آٹھ بجے کے درمیان پیش آیا۔ پولیس کے مطابق مولانا عادل کی گاڑی شاہ فیصل کالونی پر ایک جگہ رکی، جہاں موٹر سائیکل پر سوار حملہ آور نے ان پر فائرنگ کر دی۔ نتیجے میں مولانا عادل اور ڈرائیور مقصود زخمی ہوگئے۔

ان دونوں کو اسپتال پہنچایا گیا لیکن کسی کی جان نہ بچائی جا سکی بلکہ ڈرائیور تو اسپتال مردہ حالت ہی میں لایا گیا تھا۔ پولیس کے مطابق فائرنگ پستول سے کی گئی، ملزمان مولانا عادل کی گاڑی کی ریکی کر رہے تھے۔ پولیس کو جائے وقوع سے گولیوں کے پانچ خول ملے ہیں۔ مولانا عادل جامعہ فاروقیہ کے سیکریٹری جنرل کے منصب پر بھی فائز رہے، جہاں سے وہ انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی ملائشیا چلے گئے جہاں معارف الوحی اور علم انسان فیکلٹی سے وابستہ رہے۔ مولانا عادل کے والد مولانا سلیم اللہ نامور عالم اور استاد تھے، وہ ایک بڑے عرصے سے وفاق المدارس العربیہ کے صدر رہے۔

اس سے قبل وہ تحریک سواد اعظم کے بنیادی قائدین میں شامل تھے۔ مولانا سلیم اللہ خاں دارالعلوم دیوبند سے فارغ التحصیل تھے اور 1955 میں پاکستان آئے ۔ 2017 میں والد کے انتقال کے بعد مولانا عادل ملائیشیا سے وطن واپس آگئے اور جامعہ فاروقیہ کی ذمے داری سنبھال لی۔ چند ملک دشمن عناصر ملک خصوصاًکراچی میں فرقہ ورانہ کشیدگی پیدا کرنے کی کوشش کررہے۔

وفاقی اور سندھ حکومت کو اس صورتحال کا بغور جائزہ لے کر ایک مربوط حکمت عملی تیار کرنے کی ضرورت ہے تاکہ کراچی اور ملک کا امن تباہ کرنے والے دہشت گردوں، شرپسندوں اور ان کے پشت پناہوں کا خاتمہ کیا جاسکے۔ حکومتی ارباب کو تمام مسالک کے علمائے کرام سے مل کر ٹھوس لائحہ عمل طے کرنا چاہیے اور پولیس سمیت تمام ایجنسیوں کو متحرک کیا جائے تاکہ آیندہ ایسے اس قسم کے ناخوشگوار واقعہ سے محفوظ رہا جا سکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔