کچرا اورگندگی اٹھانے والے سینیٹری ورکرز سماجی رویوں سے نالاں

کاشف حسین  پير 12 اکتوبر 2020
وارث سندر گلی کی صفائی کے بعد کچرا ٹرالی میں ڈال کر لے جارہا ہے

وارث سندر گلی کی صفائی کے بعد کچرا ٹرالی میں ڈال کر لے جارہا ہے

 کراچی:  کراچی کی کچرے اور گندگی سے جنگ میں سینیٹری ورکرز کا کردار بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔

ان سینیٹری ورکرز کو خاکروب، جمع دار یا بھنگی کے ناموں سے بھی پکارا جاتا ہے یہ صرف نام نہیں بلکہ معاشرے میں سینیٹری ورکرز کے ساتھ اختیار کیے جانے والے رویوں کی بھی عکاسی کرتا ہے، آندھی طوفان، بارشوں، سردی گرمی میں یہ سینیٹری ورکرز اپنا کام تندہی سے انجام دیتے ہیں۔

وارث سندر کا شمار بھی ان فرنٹ لائن ورکرز میں ہوتا ہے جو گزشتہ تیس سال سے کراچی کی گلیوں اور رہائشی علاقوں میں نکلنے والے کچرے اور گندگی کواپنے ہاتھوں سے جمع کرکے کچراکنڈی تک پہنچانے کی ذمے داری فرض شناسی سے انجام دے رہے ہیں، وارث سندر دن کے 8سے 10گھنٹے گھروں سے نکلنے والا کچرا جمع کرتے ہیں گلیوں میں پھیلا ہوا کچرا جھاڑوں سے اکھٹا کرکے ٹرالی میں ڈالتے اور دن میں کئی چکر ٹرالیاں جمع کرکے کچرا منتقل کرنے کے مقام تک پہنچاتے ہیں، سندر وارث اب 60سال کی عمر کو پہنچ چکے ہیں اور 3ماہ بعد ان کی رٹائرمنٹ ہوجائے گی۔

وارث سندر کہتے ہیں کہ سینٹری ورکرز کے ساتھ اختیار کیا جانے والا سماجی رویہ بھی ان کی حوصلہ شکنی کا سبب بنتا ہے، سینٹری ورکرز کو تیسرے درجے کا شہری بھی نہیں سمجھا جاتا، جن علاقوں میں وہ کام کرتے ہیں وہاں بہت کم ہی افراد انھیں پانی پلانے کے لیے اپنے دروازے کھولتے ہیں، سینٹری ورکرز کو چھوت کا مریض سمجھا جاتا ہے۔

ان کے استعمال شدہ برتوں گلاس اور چائے کے کپ بھی گھر سے باہر رکھ دیے جاتے ہیں، سماجی بے حسی یہیں تک ختم نہیں ہوتی بلکہ سینٹری ورکرز کی اولادیں بھی اس رویے کا شکار ہوتی ہیں جیسے تیسے اپنا پیٹ کاٹ کر اولادوں کو اچھی تعلیم بھی دلوادیں تو وہ سینٹری ورکر کی اولاد ہی کہلاتی ہیں۔

انھیں اچھی ملازمت نہیں ملتی، اپنی ہی کمیونٹی میں بچیوں اور لڑکوں کو اچھے رشتے تک نہیں ملتے، سینٹری ورکرز کی تنخواہیں کئی ماہ بعد ملنا معمول ہے اسی طرح مکانات بھی کرایے پر نہیں دیے جاتے، ان سماجی رویوں کے باوجود وارث سندر اور ان جیسے سینٹری ورکرز خندہ پیشانی کے ساتھ گلی محلوں کی صفائی کرتے ہیں۔

کئی سال سے شوگر اورہائی بلڈ پریشر کامریض ہوں

وارث سندر نے بتایاکہ کئی سال سے شوگر اور ہائی بلڈ پریشر کامریض ہوں، شوگر کم یازیادہ ہو تو اس کے پرواہ کیے بغیراپنا کام پورا کرتاہوں، مجھ جیسے جیسے لاتعداد سینیٹری ورکرز اس خوف سے اپنے طبی ٹیسٹ نہیں کرواتے کہ کسی نئی بیماری کا انکشاف نہ ہوجائے، محکمہ کی جانب سے طبی سہولتیں نہ ہونے کے برابر ہیں اور گندگی کچرے میں کام کرنے کی وجہ سے ہیپا ٹائٹس، پھیپڑوں کے امراض اور کینسر جیسی موذی بیماریاں بھی سینیٹری ورکرز کی جان کا روگ بن جاتی ہیں۔

لاک ڈاؤن کے دوران گھروں کا کچرا 4 گنا بڑھ گیا

وارث سندر کاکہناہے کہ لاک ڈاؤن کے دوران گھروں سے نکلنے والے کچرے کی مقدار میں چار گنا اضافہ ہوااور شہریوں نے کچراباہر رکھنے کے بجائے گلیوں میں پھینکنا شروع کردیاکیونکہ کچرے دان دینے اور خالی کچرے دان واپس لینے میں بھی شہریوں کو کورونا کی وباسے متاثر ہونے کا خدشہ تھا ،حکومت نے سینٹری ورکرز کو یکسر نظر انداز کردیا ہے ، کورونا کی وبامیں سینٹری ورکرز نے بھی دیگر فرنٹ لائن ورکرز کی طرح اپنی جان خطرے میں ڈال کر کام کیاہے مگر حکومتی سطح پر ان کی خدمات کا اعتراف نہیں کیا گیا اور نہ ہی دیگر ہیلتھ ورکرز کی طرح انھیں کورونا کی وبا میں جان خطرے میں ڈالنے پر کوئی پذیرائی ملی ہے۔

30سال میں صرف دوسرے گریڈتک ترقی مل سکی

وارث سندر کاکہنا ہے کہ ملازمت کی مدت3 ماہ بعد ختم ہوجائیگی ،30سال کی ملازمت کے بعد صرف دوسرے گریڈ میں ترقی مل سکی ہے اور تنخواہ بمشکل تیس ہزار روپے تک پہنچ سکی ہے،اب رٹائرمنٹ کے بعد گریجویٹی اور پنشن کے حصول کا کڑا مرحلہ درپیش ہے، دیگر سرکاری محکموں کے برعکس کے ایم سی میں سینیٹری ورکرز کی ترقیاں نہیں ہوتیں جو محنت کرتا ہے گلیوں کی خاک چھانتا رہتا ہے اور من پسند افراد کو سپروائزر کے عہدوں پر ترقی مل جاتی ہے جو زیادہ تر کم عمر ہوتے ہیں اور عمر رسیدہ سینٹری ورکرز پر دھونس جماتے ہیں۔

انھوں نے کہاکہ اگر سینٹری ورکرز کی ترقی ہوتی رہے اور یہ رٹائرمنٹ کی عمر تک پہنچتے پہنچتے چوتھے پانچویں گریڈ تک پہنچ جائیں تو پنشن اور گریجویٹی کی معقول رقم مل جائے لیکن ادارہ جاتی استحصال کی وجہ سے سینٹری ورکرز گریڈ ایک یا دو میں ہی رٹائر ہوجاتے ہیں،رٹائرمنٹ کے بعداپنی گریجویٹی کے حصول کے لیے 4،4سال تک انتظار کرنا پڑتا ہے بعض اوقات رٹائر ہونے والے سینٹری ورکرز فوت ہوجاتے ہیں اور معاملہ ان کے لواحقین میں تنازع کی شکل اختیار کرجاتا ہے۔

وارث سندر کاکہناہے کہ میں بھی اسی پریشانی میں مبتلا ہوںکہ گریجویٹی کب ملے گی ،پنشن کی قلیل رقم میں کیسے گزارا ہوگا،سینٹری ورکرز رٹائرمنٹ کے بعد بھی گھر چلانے کے لیے گلی محلوں میں نجی طور پر خدمات انجام دیتے رہتے ہیں اور گھروں سے ملنے والے سو دوسو روپے سے گھر چلاتے ہیں جو آج کی مہنگائی کے دور میں ناممکن ہے۔

1992کے بعد سے سینیٹری ورکرزکی مستقل بھرتی بندہے

کراچی اربن ریسورس سینٹر کے ڈائریکٹر زاہد فاروق کے مطابق کراچی میں 1992کے بعد سے سینیٹری ورکرز کی مستقل بھرتی بند کردی گئی ہے اور اب کنٹریکٹ پر سینیٹری ورکرز رکھے جاتے ہیں جنھیں 15سے 18ہزار روپے اجرت ملتی ہے اور کسی قسم کی طبی سہولت فراہم نہیں کی جاتی، کراچی میں گزشتہ دو دہائیوں کے دوران آبادی میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے ،آبادیاں تیزی سے بڑھ رہی ہیں اسی تناسب سے کچرا بھی بڑھ رہا ہے۔

اس تناسب سے سینیٹری ورکرز کی تعداد میں اضافہ نہیں کیا جارہا صورتحال کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ پاپوش کے علاقے کی ایک یونین کونسل میں نوے کی دہائی تک 70سینیٹری ورکرز تھے جواب 7رہ گئے ہیں اور وہ بھی چند ماہ میں ریٹائر ہوجائیں گے یہی صورتحال شہر کے دیگر علاقوں کی بھی ہے جہاں آبادی اور کچرے میں کئی گنا اضافہ ہوا لیکن سینٹری ورکرز کی تعداد نہیں بڑھائی گئی جس کی وجہ سے سینٹری ورکرز جو عمر رسیدہ ہوچکے ہیں بہت زیادہ دباؤ میں کام کرنے پر مجبور ہیں۔

زاہد فاروق کے مطابق کراچی میں کچرے اور گندگی کے ڈھیر لگے ہوئے اس کی ایک اہم وجہ سینٹری ورکرز کی تعداد میں کمی ہے کیونکہ گھروں اور گلیوں سے نکلنے والے کچرے کو کچرا کنڈیوں اور پھر گاربیج ٹرانسفر سینٹر تک پہنچنانے کی اولین ذمہ داری سینٹری ورکرز پر عائد ہوتی ہے گلی محلوں سے کچرا اکھٹا کرنے والے سینٹری ورکرز ہی کچرے کو گاڑیوں میں لوڈ کرنے کا کام کرتے ہیں حالانکہ یہ ان کا کام نہیں ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔