مہنگائی کے خلاف ایکشن

محمد رمضان زاہد  بدھ 14 اکتوبر 2020
مہنگائی کی ماری ہوئی اس قوم کو اس حال تک کس نے پہنچایا ہے؟ (فوٹو: فائل)

مہنگائی کی ماری ہوئی اس قوم کو اس حال تک کس نے پہنچایا ہے؟ (فوٹو: فائل)

گزشتہ چند روز سے یہ خبر متواتر چل رہی ہے کہ وزیراعظم صاحب نے مہنگائی کے خلاف سینہ سپر ہونے کی تیاری کرلی ہے اور اس کام کی ذمے داری اپنی نئی نویلی ’’ٹائیگر فورس‘‘ کے ذمے لگادی ہے۔

سب سے پہلے تو قوم کو اس سوال کا جواب دیا جائے کہ یہ مہنگائی کی کس نے ہے اور مہنگائی کی ماری ہوئی اس قوم کو اس حال تک کس نے پہنچایا ہے؟ تاہم مہنگائی کے تلے روندی ہوئی قوم اس بات پر خوش ہورہی ہے لیکن شاید یہ قوم اس بات کو بھی نہیں بھولی کہ ’’خان‘‘ اس طرح کے لطیفے پہلے بھی پاکستانی قوم کو سنا چکے ہیں اور بعد میں اپنی ہی باتوں سے U ٹرن لے کر ایک کامیاب سیاستدان بن چکے ہیں۔ کیونکہ ان کا کہناہے کہ یوٹرن لینا ایک کامیاب سیاستدان کی نشانی ہے۔

گزشتہ دنوں دواؤں کی قیمتوں میں بے پناہ اضافہ کرکے حکومت نے مہنگائی کی ماری قوم پر ایک بھرپور وار بھی کردیا ہے۔ اگر مہنگائی کے خلاف احتجاج کیا جائے گا تو مقتدر ادارے ایسے افراد کو گرفتار کرنے میں کسی بھی تامل سے کام نہیں لیں گے کہ یہ اپوزيشن کے اکسانے پر احتجاج کررہے ہیں۔

سب سے بڑاسچ تو یہ ہے کہ کسی بھی مقتدر ادارے نے غریب، مزدور اور محنت کش کےلیے کبھی نہیں سوچا کہ ان کے ایام زیست کیسے گزر رہے ہیں۔ یہ طبقہ کیسے اپنی زندگی کی گاڑی کو کھینچ رہا ہے اور کیسے اپنے بچوں کا پیٹ بھر رہا ہے۔ زندگی کی مناسب سہولتیں تو دور کی بات اب تو روٹی، کپڑا اور علاج معالجہ بھی آہستہ آہستہ ان کی پہنچ سے دور ہوتا جارہا ہے۔ عوام کو اس سے غرض نہیں کہ ملک میں مارشل لاء ہے یا جمہوریت، انہیں تو صرف اپنے بچوں کےلیے دو وقت کی روٹی چاہیے جو کہ ان کےلیے مشکل ترین ہوتی جارہی ہے اور وہ جس کرب اور اذیت سے دوچار ہیں ہمارے تمام مقتدر ادارے اس سے بالکل ہاتھ جھاڑے کھڑے ہیں۔ پھر بھی وزیراعظم صاحب کا مہنگائی کے خلاف ایکشن لینا ’’چہ معنی دارد‘‘۔

بجلی، پٹرول، غذائی اجناس اور جان بچانے والی ادویات کی قیمتیں جس طرح آسمان سے باتیں کررہی ہیں اور مہنگائی کا تناسب جس تیزی سے بڑھ رہا ہے، ایک ایماندار اور محنت کش فرد کےلیے اتنی ہی مشکلات بڑھ رہی ہیں بلکہ وہ جاں بہ لب ہوتا جارہا ہے۔ اس ملک میں اگر زندگی گزارنا مشکل ہے تو وہ ایک ایماندار اور محنتی شخص کےلیے ہی ہے۔ کیونکہ رشوت خور، گراں فروش اور سود خور تو کسی نہ کسی ذریعے سے اپنی آمدن بڑھا لیتے ہیں لیکن غریب اور ایماندار آدمی کےلیے یہ ممکن نہیں ہے۔

اس کی مثال آپ بجلی بلوں سے لے لیں کہ جو لوگ چوری کی بجلی استعمال کررہے ہیں انہیں اس کی قیمت میں اضافے سے کوئی نقصان نہیں ہے لیکن جو صارف بل ادا کررہے ہیں وہ خودکشی کی جانب مائل ہورہے ہیں۔ ہمارے اردگرد گاؤں، دیہاتوں اور محلوں میں ایسے افراد جو گرمیوں میں AC کے نیچے سوتے ہیں اور سردیوں میں ہیٹر سے گرم رہتے ہیں انہیں کوئی بل نہیں آتا، کیونکہ بجلی محکمے کے اہل کار ایک ماہانہ نذرانہ وصول کرکے چلے جاتے ہیں۔ لیکن جو لوگ بل ادا کرتے ہیں ان کےلیے بلب کی روشنی میں بیٹھنا بھی مشکل ہوتا جارہا ہے۔

ایک مزدور اور محنت کش نے سارا دن مزدوری کرنی ہوتی ہے۔ اگر چھٹی دیر سے ملی اور رات گئے گھر جارہا ہے تو راستے میں کھڑے ناکوں پر پولیس والوں کی بھی جیب گرم کرنی ہے اور پھر اس نے تمام تر یوٹیلٹی بلز بھی ادا کرنے ہیں۔ اس کے بعد اس کے پاس اپنے اہل خانہ کےلیے جو بچے گا وہ سب کے سامنے ہے۔

بہرحال وزیراعظم صاحب نے مہنگائی میں کمی کا اعلان کردیا ہے اور اس میں کمی لانے کےلیے پی ٹی آئی کی ذیلی تنظیم ٹائیگر فورس کو سونپی ہے، جو کہ ایک اور لطیفے سے کم نہیں ہے۔ سب سے پہلا سوال تو یہ ہے کہ کیا ایک غیر منتخب شدہ فورس اور لاابالی عمر کے لڑکوں پر مشتمل افراد اس ذمے داری کو ادا کرپائیں گے یا پھر یہ فورس بھی گزشتہ دنوں والے غداری مقدمہ کی طرح مخالفین کے کھرے ناپے گی اور اپوزیشن کی تاجر برادری پر فضول گرجے گی۔
ایک اخبار کی خبر کے مطابق مرکزی کریانہ ایسوسی ایشن راولپنڈی نے ٹائیگر فورس کو اشیائے خورونوش کی قیمتوں کو کنٹرول کرنے کےلیے استعمال کرنے کا عندیہ دیے جانے پر شدید ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ جو کہ درست بھی ہے کہ جب دکاندار کو اشیائے ضروریہ ملیں گی ہی مہنگے داموں تو وہ کیسے کم ریٹ پر اس کو فروخت کرسکتے ہیں۔

میں پہلے بھی اپنے کئی بلاگز میں ایسی باتوں کی نشاندہی کرچکا ہوں کہ اشیائے ضروریہ کی قیمتیں کم نہیں ہوں گی بلکہ ان میں اضافہ ہوگا، کیونکہ جن لوگوں نے حکومت بنانے میں سرمایہ کاری کی ہے وہ بغیر سود اپنا منافع سمیٹنے سے پہلے اس قوم کی ہرگز جان چھوڑنے والے نہیں ہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔