- چین: ماڈلنگ کی دنیا میں قدم رکھنے والا 88 سالہ شہری
- یوٹیوب اپ ڈیٹ سے صارفین مسائل کا شکار
- بدلتا موسم مزدوروں میں ذہنی صحت کے مسائل کا سبب قرار
- چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائزعیسیٰ نے پروٹوکول واپس کردیا، صرف دو گاڑیاں رہ گئیں
- غزہ کی اجتماعی قبروں میں فلسطینیوں کو زندہ دفن کرنے کا انکشاف
- اسمگلنگ کا قلع قمع کرکے خطے کو امن کا گہوارہ بنائیں گے ، شہباز شریف
- پاکستان میں دراندازی کیلیے طالبان نے مکمل مدد فراہم کی، گرفتار افغان دہشتگرد کا انکشاف
- سعودی دارالحکومت ریاض میں پہلا شراب خانہ کھول دیا گیا
- موٹر وے پولیس اہل کار کو ٹکر مارنے والی خاتون جوڈیشل ریمانڈ پر جیل روانہ
- کراچی میں رینجرز ہیڈ کوارٹرز سمیت تمام عمارتوں کے باہر سے رکاوٹیں ہٹانے کا حکم
- اوگرا کی تیل کی قیمتیں ڈی ریگولیٹ کرنے کی تردید
- منہدم نسلہ ٹاور کے پلاٹ کو نیلام کر کے متاثرہ رہائشیوں کو پیسے دینے کا حکم
- مہنگائی کے باعث لوگ اپنے بچوں کو فروخت کرنے پر مجبور ہیں، پشاور ہائیکورٹ
- کیا عماد، عامر اور فخر کو آج موقع ملے گا؟
- سونے کی قیمتوں میں معمولی اضافہ
- عمران خان، بشریٰ بی بی کو ریاستی اداروں کیخلاف بیان بازی سے روک دیا گیا
- ویمنز ٹیم کی سابق کپتان بسمہ معروف نے ریٹائرمنٹ کا اعلان کردیا
- امریکی یونیورسٹیز میں ہونے والے مظاہروں پر اسرائیلی وزیراعظم کی چیخیں نکل گئیں
- پولیس یونیفارم پہننے پر مریم نواز کیخلاف کارروائی ہونی چاہیے، یاسمین راشد
- قصور ویڈیو اسکینڈل میں سزا پانے والے 2 ملزمان بری کردیے گئے
مہنگائی، غربت، لاقانونیت اور جمہوریت
چند روز قبل رات کے پچھلے پہر میرا گزر ایک پرانے محلے سے ہوا جس کے مکانات کی باہم ملی ہوئی دیواریں کو زیادہ اونچی نہ ہونے کے باعث پھلانگنا نہایت آسان تھا۔ اس وقت گلی میں روشنی بھی نہ ہونے کے برابر تھی مگر اتنی ضرور تھی کہ کسی آتے جاتے شخص کو باآسانی دیکھا جاسکتا تھا۔ میں نے ایک شخص کو گھر کی دیوار پھلانگ کر باہر آتے ہوئے دیکھا۔ اچانک ہی ’’چور چور‘‘ کا شور سنائی دیا اور گلی میں لوگوں کا ہجوم اکٹھا ہوگیا۔ دیوار پھلانگنے والا شخص جو یقیناً چور ہی تھا، وہ بھی نہایت چالاکی سے ہجوم میں جاگھسا اور باقی لوگوں کے ساتھ چور، چور پکارنے لگا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ شور سن کر سارا محلہ تو بیدار ہوگیا مگر چور نہایت چالاکی سے چور چور کی صدائیں لگاتا ہوا باآسانی وہاں سے نکل گیا۔ محلے کے سارے لوگ مایوس ہوکر اپنے اپنے گھروں میں چلے گئے۔
پچھلے 72 سال سے ہمارے عوام بھی یونہی مایوس ہوکر، سر پکڑ کر خاموش ہوجاتے ہیں۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ اس سے قبل چور، چور کی صدا سے پہلے بھی ایک صدا بلند ہوئی تھی روٹی، کپڑا اور مکان۔ عوام تب بھی اس صدا کے پیچھے چل پڑے تھے اور آج عوام پھر چور، چور کی صدا پر چل پڑے۔ نہ عوام کو تب کچھ ملا تھا اور نہ ہی اب چور ملے گا۔ اب تو عوام سے یہ تینوں چیزیں روٹی، کپڑا اور مکان بھی چھن رہے ہیں۔ مگر یہ بات میں نہایت افسوس کے ساتھ کہہ رہی ہوں کہ ہمارے محترم وزیراعظم عمران خان، جن کو وزیراعظم بننے کی خواہش صرف اس لیے تھی کہ اس ملک سے غربت کا خاتمہ کرنا چاہتے تھے، پڑھے لکھے نوجوانوں کو نوکریاں دینا چاہتے تھے، وہ صرف پاکستانیوں کو ہی نہیں بلکہ پاکستان سے باہر کے لوگوں کو بھی نوکریاں دینا چاہتے تھے کہ پاکستان سے باہر کے لوگ یہاں نوکریاں تلاش کرنے آئیں گے۔ یہ خواب تو بہت خوبصورت تھا، لیکن تھا یہ خواب ہی جو 2 ہی سال میں ٹوٹ گیا۔
ان دو برسوں میں یوں لگا کہ ’’غربت مکاؤ‘‘ مہم سے زیادہ ’’غریب مکاؤ‘‘ مہم شروع ہوچکی ہے، کیونکہ پاکستان میں روزانہ کی بنیاد پر مہنگائی میں اضافہ ہی ہوتا چلا جارہا ہے۔ اب اس کا بھی حل ہمارے وزیراعظم نے آخر نکال ہی لیا کہ مہنگائی کو کنٹرول کرنے کےلیے ان کی مدد ٹائیگر فورس کرے گی۔ وزیراعظم عمران خان کی اس بات پر میں ہنسوں یا روؤں کچھ سمجھ نہیں آرہا۔ ریاست اداروں کا مجموعہ ہوتی ہے اور سارے ادارے حکومت کے زیر ہوتے ہیں۔ جب کہ مہنگائی کنٹرول کرنے کےلیے نہ صرف حکومت بے بس نظر آرہی ہے بلکہ انہی کے ماتحت پرائس کنٹرول کمیٹی کے ممبران میں اتنی اہلیت ہی نہیں کہ وہ حکومت کو کوئی مشورہ دے سکیں کہ بڑھتی ہوئی قیمتوں کو کیسے کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔
پاکستان میں حد درجہ بڑھتی ہوئی مہنگائی نے نہ صرف عوام کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے بلکہ کاروبار پر بھی منفی اثرات نمایاں ہورہے ہیں۔ اس وقت پاکستان میں اقتصادی ترقی کی شرح اس حکومت میں آدھی رہ گئی ہے، جس کی اہم وجہ اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں اضافہ ہے۔ حکومت کا شاید اس طرف دھیان نہیں یا وہ دھیان دینا نہیں چاہتے۔ کدھر گیا وہ پی ٹی آئی کا پہلے 90 دن کا پلان؟ ہماری قوم کی یادداشت بہت کمزور ہے جس کا یہ لوگ فائدہ اٹھا رہے ہیں۔
پاکستان ایک زرعی ملک ہے، باوجود اس کے کہ یہاں کاشتکاری پر توجہ دے کر چیزوں کو سستا کیا جاتا، مگر گندم کو دوسرے ممالک سے منگوایا جارہا ہے۔ جو گندم منگوائی گئی وہ کیڑا لگنے کی وجہ سے کراچی نے تو لینے سے انکار کردیا تھا مگر اس میں سے کچھ حصہ پنجاب میں بھیجا گیا۔ بجائے اس کے کہ جہاں سے گندم منگوائی گئی واپس کلیم کرتے یا انہیں واپس بھیجی جاتی، مگر بے حسی کی انتہا کہ باقی گندم سمندر برد کردی گئی۔ اس کارنامے کے بعد ان چند مہینوں میں ہماری مقامی گندم کی قیمت آسمان کو چھونے لگی اور گندم 2400 روپے من ملنے لگی۔ قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے آٹے کی قیمت میں 18.5 فیصد اضافہ ہوا۔ مجھے تو یوں محسوس ہورہا ہے کہ اس ملک میں عزت سستی اور روٹی مہنگی ہونے جارہی ہے۔
میں یہاں زیادہ چیزوں کا ذکر نہیں کروں گی، صرف بنیادی اشیائے ضروریہ کی ہی بات کروں گی جو روزانہ کی بنیاد پر امیر کو بھی چاہیے اور غریب کو بھی۔ ان چند مہینوں میں سبزیاں17 فیصد، گھی 22 فیصد، کوکنگ آئل 17 فیصد، چینی 45روپے فی کلو سے مہنگی ہوکر سو روپے فی کلو ہوچکی ہے۔ پیاز 19.59فیصد مہنگے ہوئے اور ٹماٹر تو 100 فیصد مہنگے ہوئے ہیں۔ یہ وہ چیزیں ہیں جس کی ضرورت ہر طبقے کو ہوتی ہے، مگر میں یہاں واضح کرتی چلوں کہ ایک امیر طبقہ خوراک پر اپنی آمدنی کا 20 یا 30 فیصد حصہ خرچ کرتا ہے مگر ایک متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والا آدمی اپنی آمدنی کا 70 سے 80 فیصد تک خرچ کرتا ہے۔
اس ساری صورتحال میں اس وقت بھی حکومتی پلاننگ کہیں دکھائی نہیں دیتی۔ پاکستان کی موجودہ صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے تین طرح کے فوری اقدام کرنے چاہئیں۔ ایک یہ کہ حکومت کس طرح عام شہریوں کی اقتصادی قوت کو بڑھائے تاکہ عوام کے پاس مالی وسائل زیادہ ہوں۔
دوم پاکستان میں گھریلو صنعت کاری کو فروغ دیا جائے تاکہ فوری طور پر بے روزگاری کو قابو میں لایا جاسکے اور معیشت کو بھی تقویت ملے۔ سوم جو سب سے اہم اور بڑی وجہ شرح سود میں کمی لائی جاسکے۔ کیونکہ صنعتی طبقے پر قرضے اتنے زیادہ ہوگئے ہیں کہ کاروباری طبقہ اپنی فیکٹریاں بند کرنے پر مجبور ہے۔
مہنگائی کے اثرات نے جہاں صنعتوں پر منفی اثرات ڈالے ہیں، وہیں لاقانونیت میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ جمہوریت کا حسن تو یہ ہے کہ وسائل کی تقسیم اوپر سے نیچے تک ہوتی ہے مگر پاکستان میں ایسا کچھ ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ غیر منصفانہ تقسیم کے باعث معاشرے میں غربت، بے چینی، مایوسی، افراتفری پھیلی ہے اور بے روزگاری کے باعث چوری، قتل، دھوکا دہی، ریپ کیسز اور دیگر جرائم میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ اور ان سارے مسائل کی ایک ہی جڑ مہنگائی اور غربت ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔