لاپتہ افراد کیس؛ ریاستی ادارے ناکام ہوچکے، اسلام آباد ہائی کورٹ

ویب ڈیسک  بدھ 14 اکتوبر 2020
اسلام آباد سے سب سے زیادہ  افراد کا لاپتہ ہونا ریاست کی ناکامی ہے، عدالت۔ فوٹو:فائل

اسلام آباد سے سب سے زیادہ افراد کا لاپتہ ہونا ریاست کی ناکامی ہے، عدالت۔ فوٹو:فائل

اسلام آباد ہائی کورٹ نے ریمارکس دیئے کہ  دو سال سے ایک شہری لاپتہ ہے اور کسی کو کوئی پتہ نہیں، ریاستی ادارے فیل ہو چکے۔ 

ایکسپریس نیوز کے مطابق لاپتہ افراد کیس میں اسلام آباد ہائی کورٹ میں عدالتی فیصلے کے مطابق سرکاری افسران اور تحقیقاتی ٹیم پر 20 لاکھ روپے جرمانے پر عمل درآمد نہ کرنے کے خلاف درخواست پر سماعت ہوئی۔ ڈی ایس پی لیگل کے ہمراہ اسٹیٹ کونسل حسنین حیدر تھہیم عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔

جسٹس محسن اخترکیانی نے ریمارکس دیئے کہ جبری گمشدگیوں کے واقعات سے پاکستان کی ساکھ متاثر ہوتی ہے،وفاقی کابینہ کو بتا دیں کہ عدالت کا یہ موقف ہے،  وفاقی دارالحکومت اسلام آباد سے سب سے زیادہ لاپتہ افراد ہیں یہ ریاست کی ناکامی ہے، ایسا تاثر مل رہا ہے کہ جیسے اسلام آباد میں دہشتگرد زیادہ ہوگئے ہیں۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیئے کہ عدالت اپنے حکم پر عمل درآمد کرانے لیے کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہے، دو سال سے ایک شہری لاپتہ ہے اور کسی کو کوئی پتہ نہیں، ریاستی ادارے فیل ہو چکے، میں سب کو ذاتی حیثیت میں طلب کرکے توہین عدالت کا نوٹس کرکے سزا دوں گا، ابھی کوئی آرڈر پاس نہیں کر رہے کیونکہ اس کے گہرے اثرات ہوں گے۔

عدالت کا کہنا تھا کہ اگر حکومت نہیں چاہتی کہ عدالتیں جبری گمشدگیوں کے کیس سنے تو حکومت قانون کو تبدیل کر دے، اب حکومت کے پاس آپشن ہے کہ وہ مغوی عمر عبداللہ کو برامد کروائے، مقدمہ درج کر کے جیل بھیجے یا مغوی خود گھر جائے، حکومتی کمیٹی، پٹشنر، اداروں سمیت سب کو پتہ ہے کہ مغوی کو کس نے اٹھایا۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ کاش کہ حکومتی کمیٹی اس قدر با اختیار ہو کہ وہ خاطر خواہ اقدامات کر سکے،  بہت سارے لوگ اس آرڈر کی زد میں آئیں گے ، اس لیے مغوی کی بازیابی کے لیے موقع دے رہے ہیں۔ عدالت نے لاپتہ عمر عبداللہ کی بازیاب کرانے کے لیے حکومت کو دس نومبر تک مہلت دے دیتے ہوئے کیس کی مزید سماعت ملتوی کردی گئی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔