مستقبل کے قائد

طلعت حسین  جمعـء 20 دسمبر 2013
www.facebook.com/syedtalathussain.official
twitter.com/talathussain12

www.facebook.com/syedtalathussain.official twitter.com/talathussain12

نہ جانے مجھے کیوں یقین سا ہو چلا ہے کہ اس ملک کی اکثریت، جس میں میں اور آپ شامل ہیں، کے تولیدی خلیوں میں کسی نہ کسی چیز کی کمی ضرور ہے۔ غلط مطلب اخذ نہ کریں ۔ میں اس کمزوری کی طرف اشارہ نہیں کر رہا جس سے اپنی نسل کو بڑھانے کا عمل وقتی یا حتمی طور پر متاثر ہو جاتا ہے ۔ ماشاء اللہ 20 کروڑ کا کنبہ گواہی دے رہا ہے کہ یہ معاملہ ٹھیک ٹھاک ہے۔ میں بات کر رہا ہوں اس عنصر کی جس کے ذریعے آنگن میں لیڈران پیدا ہوتے ہیں۔ تمام تر افرادی قوت اور استعداد رکھنے کے باوجود کسی نہ کسی وجہ سے ہم اور آپ اپنی اولاد کو وہ قائدانہ صلاحتیں نہیں دے پا رہے ہیں جن کا ڈنکا ہر وقت اس ملک کی سیاسی قیادت کے گھر میں بجتا رہتا ہے۔

ہمارے بچے کاوش اور سعی کرتے ہیں۔ دن رات محنت بھی کرتے ہیں۔ اچھی ڈگریاں بھی حاصل کرتے ہیں، دنیا کے ہر کونے میں نا مساعد حالات کا مقابلہ کرتے ہوئے رزق بھی کماتے ہیں اور نام بھی۔ سائنسدان بنتے ہیں۔ انجینئرنگ کے شعبے میں اپنا لوہا منواتے ہیں۔ کھیل کے میدان کو مسخر کرتے ہیں۔ کوہ ہمالیہ سر کر جاتے ہیں۔ دشمنوں کی گولیاں سینوں پر کھاتے ہیں۔ فیکٹریاں چلاتے ہیں۔ جہاز اڑاتے ہیں، گلیاں صاف کرتے ہیں اور سوکھی زمین کو زرخیز ہریالی سے مالا مال کر دیتے ہیں۔ یعنی سب کچھ کر لیتے ہیں۔ مگر پھر بھی سیاسی لیڈر نہیں بن پاتے۔ قیادت کا تاج کبھی ان کے سر نہیں سجتا۔ قوموں کی امیدوں کا سہرا ان پر نہیں ٹکتا۔ وہ کبھی اس مقام پر نہیں پہنچ پاتے جہاں پر ان کے ہاتھ فیصلہ سازی کی باگ ڈور کو حقیقت میں تھام لیں۔ ہمارے طبقے میں سے بہترین ذہن با صلاحیت ترین افراد، مرد و خواتین، بچے و بچیاں، ہماری طرح سیاسی طبقات کے لیے ہی کام کرتے رہتے ہیں۔ ہاں کبھی کبھار کوئی بھولا بھٹکا ان ایوانوں میں جا بیٹھتا ہے جہاں پر یہ لیڈران ایک آدھ سیٹ پر اُس کو بیٹھنے دیتے ہیں۔

یا پھر چند ایک افراد مقابلے کا امتحان دے کر اپنی بھر پور ذہنی صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر افسر شاہی کی تمام ضروریات پوری کرتے ہوئے ان سیاسی طبقات کے قریب ہو جاتے ہیں۔ اس قربت کے ذریعے پھر اس گھمنڈ میں مبتلا ہو جاتے ہیں کہ اصل میں وہی لیڈر ہیں۔ مگر حقیقت میں شاہ سے زیادہ شاہ کے یہ وفادار ایک پوسٹ یا پوسٹنگ کی مار ہیں۔ وزیر اعظم سیکریٹریٹ سے نکالے جانے والے افسروں کا حال تو دیکھیں کل کے یہ نقلی خان زادے آج کل اپنی موٹی توندوں اور کمزور ٹانگوں کے ساتھ پارکوں کا چکر لگا کر وقت گزار رہے ہیں۔ ان میں سے بہت سوں نے اپنے بچوں کے ’’بہترین مستقبل‘‘ کا یقینا انتظام کیا ہوا ہے۔ انھوں نے اپنی اولاد کو ملک سے باہر بھجوا کر اپنے خیال کے مطابق بڑا کارنامہ کیا ہے۔ مگر وہ یہ بھول گئے ہیں کہ ان کے بچے ان کی طرح اس نظام میں جب بھی آئیں گے تو صرف جی حضوری کی نوکری ہی پائیں گے۔ سیاسی قیادت ان کو سب کچھ سکھا دے گی طاقت کے درخت پر کبھی نہیں چڑھنے دے گی۔

افسر شاہی کے غلاموں کی طرح ذرایع ابلاغ میں بھی بہت سے ایسے کردار موجود ہیں جو سیاستدانوں کی قربت کو طاقت کے دائرے میں داخلے کا ٹکٹ سمجھ بیٹھتے ہیں۔ دن رات تعریفیں کر کے یا اپنی من پسند سرکار کے مخالفین پر کیچڑ اچھال کے یہ سمجھ بیٹھتے ہیں کہ یہ بھی بڑے شیر ہیں۔ ذرا غور سے دیکھیں تو ان سب کے گلوں میں بھی رسی پڑی ہوئی ہے جس کا کونا کسی دوسرے کے ہاتھ میں ہے۔

درمیانے اور نچلے طبقات میں سے قیادت نہ ابھرنے کی روایت کے برعکس امیر سیاسی خاندانوں کی گودیں قائدین کے پھولوں سے ہر وقت ہری رہتی ہیں۔ بیسیوں برسوں سے یہ خاندان قائد پیدا کرتے چلے آ رہے ہیں۔ یہ زبردست صلاحیت کسی حال میں بھی متاثر نہیں ہوتی۔ آئین والی حکومت ہو یا آئین کو توڑنے والی، برسراقتدار یہ تمام لوگ ہی رہتے ہیں۔ قیادت کے یہ باغ بنتے بھی حیران کن انداز میں ہیں۔ دنیا بھر میں سیاسی قیادت حاصل کرنے کے لیے لوگوں کے درمیان رہ کر کام کرنا پڑتا ہے۔ ان کے انداز اپنانے پڑتے ہیں ، اپنی اور ان کی ثقافت کو ملانا پڑتا ہے۔ عوام جیسا ہی ہونا پڑتا ہے۔ اگر انداز مختلف بھی ہے پھر بھی طبقاتی تفریق کو پھلانگنا پڑتا ہے۔ قائد اعظم محمد علی جناح ؒ تمام تر ذہانت اور مغربی تعلیم سے تراشی ہوئی شخصیت ہونے کے باوجود وہی سب کام کر کے لیڈر بنے جو عام لوگ کرتے ہیں۔ یعنی دن رات پڑھنا، امتحان پاس کرنا ۔

اپنے شعبے میں (جس کا تعلق کھیل کود سے نہیں تھا) بزور بازو اور انتھک جدوجہد سے نام کمانا اور پھر آہستہ آہستہ قیادت کا زینہ طے کرتے ہوئے خود کو اعلی منصب تک لانا۔ علامہ اقبال بھی کچھ ایسے ہی تھے (جو اداکارہ میرا کے مطابق پاکستان کے قومی ترانے کے خالق ہیں)۔ علی برادران کی تاریخ بھی یہی تھی۔ برصغیر سے باہر قیادت کے شعبے میں قدم رکھنے کا کچھ ایسا ہی فارمولا رائج ہے۔ یقینا خاندان کے پلیٹ فارم سے طاقت کی سیاست کی جاتی ہے۔ اپنے بڑوں کو حاصل شدہ سیاسی مواقع اگلی نسلوں کے کام آتے ہیں۔ مگر دنیا میں بہت کم ایسے ممالک ہوں گے جہاں پر عام طبقات سیاسی قیادت میں حصہ ڈالنے کے اعتبار سے اتنے بانجھ ہوں گے جتنے ہمارے اس ملک میں ہیں۔ جبھی تو پاکستان کے سیاسی افق پر طلوع ہونے والے نئے ستاروں میں سے کوئی بھی آپ کو اپنے جیسا نہیں ملے گا۔ ایک طرف سے بلاول بھٹو طمطراق سے نمودار ہو رہے ہیں۔ کیا شاندار آمد ہے۔ عالی جاہ نے کچھ دن پہلے سندھ کی ثقافت پر چند جملے کہہ کر کمال کر دیا۔ جیکٹ کے بٹن کھول کر صحیح قیادت ہونے کا ثبوت فراہم کیا۔

ادھر سے مریم نواز قیادت کے آسمان پر چمکنے کو تیار ہیں۔ ان کی عقل و دانش کے چرچے پھیلائے جارہے ہیں۔ ہمیں بتایا جا رہا ہے کہ پورے ایشیا میں ان کا ثانی کوئی نہیں ہے۔ کچھ اس قسم کے خیال کسی زمانے میں مونس الہی، حمزہ شہباز شریف، امیر حیدر ہوتی وغیرہ کے بارے میں بھی سنے جا رہے تھے۔ ان سے ذرا کم درجے پر آپ کو ایک دو یا درجن نہیں سیکڑوں ایسے خاندان نظر آئیں گے جن کے بچے اور بچیاں ملک و قوم کی قسمت سنوارنے کی اہلیت سے مالا مال ہمارے سامنے آنے کے لیے تیار ہیں۔ عمران خان کے بچے چونکہ ابھی بہت چھوٹے ہیں لہٰذا ان کے بارے میں پیش گوئی کرنا ابھی ممکن نہیں۔ ویسے بھی عمران خان اپنی جوانی کو قائم رکھے ہوئے ہیں۔ ان کی موجودگی میں کسی قسم کے اور قائد کی گنجائش بنتی بھی نہیں ہے۔ مگر ان سب کے طبقے وہی ہیں جن کا میں نے شروع میں ذکر کیا۔ جس کے پاس اس ملک کے وسائل پر قابض رہنے کا نہ ختم ہونے والا خاندانی لائسنس موجود ہے۔ یہ اور ان کے بچے چوٹیوں پر بیٹھ کر ہم سب پر حکمرانی کرتے رہیں گے۔ ہم اور ہمارے بچے ان سب کا کیا بھگتتے رہیں گے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔