میں غداری کے طعنے سننے کو ترجیح دیتا ہوں

نصرت جاوید  جمعـء 20 دسمبر 2013
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

میں اکثر یہ سوچتا ہوں کہ صوفی تبسمؔ بڑے اُستاد قسم کے شاعر تھے مگر انھیں وہ پذیرائی نہ ملی جو فیض احمد فیضؔ جیسے لوگوں کو نصیب ہوئی۔ میں صوفی صاحب کو ہر گز فیضؔ کے مقابلے پر لا کر اِنہیں اُن سے برتر ثابت نہیں کرنا چاہتا۔ یہ بات میرے جیسے آدمی کے بس کی بات ہی نہیں جو کبھی کبھار اشعار کو بس سن لیتا ہے اور کتاب کی صورت میں صرف ’’دیوان غالب‘‘ سے رجوع کرتا ہے۔ صوفی صاحب کا ذکر یوں آ گیا کہ ان کی ایک غزل فریدہ خانم نے اپنے عروج کے زمانے میں گا رکھی ہے۔ میرا دل اکثر اس کی ریکارڈنگ سننے کو مچل جاتا ہے۔ ’’جانے کس کی تھی خطا، یاد نہیں۔ ہم ہوئے کیسے جدا۔ یاد نہیں‘‘ اس غزل کا مطلع ہے۔ اسے سن کر دل بہت گداز ہو جاتا ہے۔ مگر چند دنوں سے میرے ذہن میں یہ مطلع صرف یہ سوچ کر آتا رہا کہ 1971ء سے ہم پاکستانیوں کا کسی دور کے ’’مشرقی پاکستان‘‘ کی علیحدگی کے بارے میں یہی رویہ رہا ہے۔

اگر ہم واقعتاً ایک حساس قوم ہوتے تو اس موضوع پر ہمارے ہاں تحقیقی کتابوں کے انبار لگے ہوتے۔ ہٹلر کا دور ختم ہوئے کئی دہائیاں بیت چکی ہیں۔ اب بھی جرمنی میں لیکن ہر سال کوئی نہ کوئی کتاب منظر عام پر آ جاتی ہے جس کے ذریعے کوئی محقق، ناول نگار یا ڈرامے اور فلم کا آدمی اس سوال کا بڑی فکر مندی کے ساتھ جواب ڈھونڈتا نظر آتا ہے کہ وہ کیا وجوہات تھیں جن کی بناء پر ہٹلر اور اس کے جنونی ساتھیوں نے جرمنوں جیسے انتہائی سنجیدہ اور فلسفیانہ سوچ رکھنے والوں کو وحشیانہ حد تک دیوانہ بنا دیا تھا۔

پاکستان یقینا ایک خواب تھا۔ یہ واحد ملک تھا جس کے دو حصے ایک دوسرے کے درمیان ایک ہزار میل کی دوری کے باوجود ایک متحد قوم کے طور پر اکٹھا رہنے کو تیار تھے۔ ان کی خواہش اور ارادوں کی تکمیل ہو جاتی تو پاکستان پوری دُنیا میں ایک معجزہ نما مثال کی صورت جانا جاتا۔ ہم بحیثیت قوم اس خواب کی عملی تعبیر فراہم کرنے میں بالکل ناکام رہے۔ اپنی ناکامی کے اسباب کو خلوص نیت سے دریافت کرنے کی کوئی لگن مگر کسی میں نظر ہی نہ آئی۔ بھٹو صاحب نے ایک حمود الرحمن کمیشن بنایا تھا۔ اس کی رپورٹ کبھی منظر عام پر نہ آئی۔ بالآخر کئی برس بعد ایک بھارتی جریدے نے اس رپورٹ کے کچھ حصے چھاپ دیے۔ وہ حصے چھپے تو اپنے تئیں صاف اور شفاف حکومت چلانے کے دعوے دار جنرل پرویز مشرف نے اس رپورٹ کو چھاپنے کی اجازت دے دی۔ مجھے پورا یقین ہے کہ ہمارے ہاں محض چند لوگوں نے اس رپورٹ کو پڑھنے کا تردد کیا ہو گا۔ میں نے خود بھی کبھی اس رپورٹ کو پڑھنا تو دور کی بات اس کی کاپی حاصل کرنے کی بھی کوئی کوشش نہیں کی۔ کسی اور کو اس ضمن میں لہذا قصور وار کیوں ٹھہراؤں۔

ایک مخصوص طبقہ فکر نے 1971ء کے فوری بعد کے چند برسوں میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے سانحے کو ضرور یاد رکھا۔ مگر ان کی یاد کا اصل مقصد ہم لوگوں پر یہ ثابت کرنا تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو کی ’’ہوس اقتدار‘‘ کی وجہ سے پاکستان دو لخت ہو گیا تھا۔ بھٹو کھلے دل سے شیخ مجیب الرحمن کے حکومت بنانے کے حق کو 1970ء کے انتخابات کے نتائج کی روشنی میں تسلیم کر لیتے تو یہ سانحہ رونما نہ ہوتا۔ صرف بھٹو کی ’’ہوس اقتدار‘‘ کو ذمے دار ٹھہرانے والے اس بات کو مگر بھول جاتے ہیں کہ ان دنوں پاکستان میں فیصلہ سازی کا اصل اختیار جنرل یحییٰ خان کے پاس تھا۔ وہ آمر دل سے یہ چاہتا تھا کہ سیاستدانوں کے درمیان کوئی اتفاق نہ ہو۔ ان کے عدم اتفاق کو بھانپتے ہوئے اس نے ایک ’’آئین بھی تیار کر رکھا تھا۔ ان دنوں کے امیر جماعت اسلامی میاں طفیل محمد مرحوم کو اس مجوزہ آئین کی ایک کاپی دکھلائی گئی تھی جسے دیکھنے کے بعد انھوں نے ان دنوں کی ایک نیوز ایجنسی کے ذریعے اخباروں کے لیے یہ بیان جاری کیا تھا کہ یحییٰ خان کا بنایا آئین ’’اسلامی‘‘ بھی ہے۔

ہم میں سے بہت کم لوگوں کو یاد رہا ہے کہ شیخ مجیب الرحمن کے 6 نکات اصل میں کیا تھے۔ ان دنوں کی عوامی لیگ کے ایک اجلاس میں اس نے یہ نکات 1966ء میں پیش کیے تھے۔ نواب زادہ نصراللہ خان ان دنوں عوامی لیگ ہی کے ایک سرکردہ رہ نما ہوا کرتے تھے۔ انھوں نے ان نکات کو رد کرتے ہوئے خود کو عوامی لیگ سے الگ کر لیا۔ ذوالفقار علی بھٹو کو انھی بنیادوں پر 6 نکات کے بارے میں شدید تحفظات تھے۔ جنھیں 1971ء کے بعد آئین کا حصہ بنا لیا جاتا تو نہ صرف ان دنوں کا مشرقی پاکستان بلکہ موجودہ ملک کے پنجاب، سندھ، بلوچستان اور خیبرپختونخوا کو بھی یہ حق مل جاتا کہ وہ اپنی جدا کرنسیاں متعارف کروا دیں۔ اس کے بعد تمام صوبوں کو اپنی پسند کے غیر ممالک کے ساتھ خود مختار تجارت کے حقوق بھی مل جاتے۔ ایسے ٹھوس مالیاتی اور تجارتی حقوق صوبوں کو منتقل ہو جانے کے بعد پاکستان کا ایک متحدہ فیڈریشن کی صورت زندہ رہنا ناممکن نہ سہی کافی مشکل ضرور ہو جاتا۔

اصل حقیقت یہ ہے کہ 1970ء کے انتخابات کے بعد پاکستان کے تمام سیاستدان اور فیصلہ سازی کے حوالے سے ان سب سے بالاتر پاکستانی فوج باہم بیٹھ کر آگے بڑھنے کی متفقہ راہیں نہ سوچ پائے۔ ضروری سمجھوتوں کی اہمیت کو سمجھے بغیر بنگالیوں کو بالآخر بندوق کے زور پر پاکستان کے ساتھ رکھنے کی کوشش ہوئی۔ بھارت نے ہمارے مسائل کا پورا فائدہ اٹھایا۔ پاکستان کا ازلی دشمن ہوتے ہوئے اسے کرنا بھی یہ چاہیے تھا۔ اس کے کردار پر حیران ہونے کی کوئی ضرورت نہیں۔ مگر یہ بھی تو دانشوارانہ بددیانتی ہے کہ ہم آج بھی اس بات پر اصرار کرتے رہیں کہ اپنے چند زرخرید ایجنٹوں کے ذریعے بھارت نے مشرقی پاکستان کو ہم سے جدا کر دیا۔ صرف اس پہلو پر زور دیتے رہنے کا اصل مقصد صرف اور صرف اپنی کوتاہیوں پر پردہ ڈال کر انھیں نظرانداز کرنا ہے اور میں فکری بددیانتی کے اس کھیل کا حصہ بننے کو ہرگز تیار نہیں۔ مجھے تو اپنے گربیان میں مسلسل جھانکتے رہنے کی ضرورت ہے اور جب بھی اس عمل سے گزرتا ہوں بڑی شرمساری محسوس ہوتی ہے۔

انٹرنیٹ کے ذریعے عبدالقادر ملا کی ’’شہادت‘‘ پر سیاپا فرماتے طفلان سے مجھے کوئی گلہ نہیں۔ مجھے پورا یقین ہے کہ وہ ہرگز نہیں جانتے کہ تقسیم بنگال کب اور کیوں ہوئی تھی اور ہمارے برطانوی آقا اس فیصلے کو واپس لینے پر کیوں مجبور ہوئے۔ ’’مسلم بنگال‘‘ کی اصطلاح کس نے متعارف کروائی اور اس کے نتیجے میں مسلم لیگ کا تاسیسی اجلاس ڈھاکا میں کیوں منعقد ہوا۔ حسین شہید سہروردی کون تھے؟ وہ قیام پاکستان کے فوری بعد کراچی کیوں نہ پہنچ پائے۔ اس سوال کا جواب یہ لوگ نہیں ڈھونڈتے۔ لیاقت علی خان کے سہروردی کے بارے میں کیا جذبات تھے اور اسی سہروردی نے پاکستان کی پہلی اپوزیشن جماعت۔ عوامی لیگ۔ کیوں بنائی۔ ذرا اس سوال کا جواب بھی ضرور تلاش کر لیجیے۔ پھر لسانی فسادات اور ان کے نتیجے میں ’’جگتو فرنٹ‘‘ کا قیام اور اس فرنٹ کی مشرقی پاکستان کے 1951ء والے صوبائی انتخابات میں جیت کی کہانیاں بھی یاد کر لینا بہت ضروری ہے۔

صرف ایک سیاسی جماعت کے تربیت شدہ ذہنوں کی ’’تصور پاکستان‘‘ پر اجارہ داری کو ہرگز تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔ ان لوگوں کو عبدالقادر ملا کی زندگی سے اتنا ہی پیار ہوتا تو کم از کم گزشتہ دو تین مہینوں سے اسلام آباد میں بنگلہ دیش کے سفارت خانے کے باہر دھرنا دے کر ضرور بیٹھے رہتے۔ 30 لاکھ افغانوں کی برسوں تک خود کو ’’انصارِ مدینہ‘‘ سمجھ کر مہمان داری کرنے والوں نے ان چند لاکھ ’’پاکستانیوں‘‘ کو ’’اسلام کے نام پر بنے ملک‘‘ میں لانے کی کوئی ٹھوس کوشش نہیں کی جو کئی برسوں سے ڈھاکا کے پناہ گزین کیمپوں میں ذلت کی زندگی گزار رہے ہیں۔ ایسے بے حس اور سفاک لوگوں سے میں اپنے لیے ایک ’’محب وطن پاکستانی‘‘ ہونے کا سرٹیفکیٹ ہرگز نہیں لینا چاہتا۔ ان سے ’’غداری‘‘ کے طعنے سننے کو ترجیح دیتا ہوں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔