بھنڈارا جزیرہ (آخری حصہ)

جاوید قاضی  جمعرات 15 اکتوبر 2020
Jvqazi@gmail.com

[email protected]

پاکستان کا آئین پاکستان کی بقا ہے۔ اس ملک میں ایک ہی عظیم کام ہوا تھا، وہ تھا آئین پاکستان 1973 کا وجود میں آنا۔ یہ آئین، آئین کی سائنس کے عین مطابق تھا۔ اور یہ آئین ہم نے تب بنایا، جب غلام محمد کی ذہنیت کو شکست ہوئی، مگر آدھا ملک گنوا کر۔ عوام کے منتخب نمائندوں کی ننانوے فیصد اکثریتی رائے سے یہ آئین پاس کیا گیا۔

بہت ہی سلیس تشریح ہو گی اگر یہ کہا جائے کہ اس آئین کے کاتب عبدالحفیظ پیرزادہ تھے اور یہ آئین اس ملک کو ذوالفقار علی بھٹو نے دیا۔ یہ آئین تو خیر بخش مری، ولی خان، غوث بخش بزنجو نے بھی دیا۔ اس آئین کو وجود میں لانے کے لیے سب پیش پیش تھے۔ اسی لیے اس آئین کو consensus ڈاکیومنٹ کہا جاتا ہے۔ جو آئین اپنی روح میں آئین نہیں ہوتا وہ ٹوٹ جاتا ہے۔

جس طرح پاکستان کا پہلا1956 کا آئین تھا۔1956 کے آئین نے ون یونٹ کو تسلیم کیا۔ 1962 کے آئین نے ون یونٹ کو بھی مانا اور وہ کسی اسمبلی کا آئین نہیں بلکہ جنرل ایوب کا فرمائشی پروگرام تھا۔ ضیاء الحق ایسا نہ کر پائے، آئین تحلیل نہ ہو سکا ہاں مگر اس کے کچھ حصے معطلی میں چلے گئے۔ کورٹس اور جمہوری جدوجہد آئین کی حفاظت کرتی رہیں، آمریتوں سے لڑتی رہیں اور آمریتیں آئین اور لوگوں سے لڑتی رہیں۔

تین چیزیں (اسم) اختیارات ہیں، آئین کے اندر؛ فیڈرل لیجیسلیٹو لسٹ حصہ اول، فیڈرل لیجیسلیٹو لسٹ حصہ دوم، اور جو ان میں نہیں وہ صوبائی اسم و اختیارات ہیں۔ حصہ اول کیبنٹ کے زمرے آتے ہیں، حصہ دوم آتے ہیں کاؤنسل آف کامن انٹرسٹ کے زمرے میں۔ آئین کے اندر بہت سی ترامیم ہوئیں، کچھ ترامیم ختم بھی ہوئیں، پھر ان ترامیم کو ختم کرنے کے لیے مزید ترامیم کی گئیں۔ اور یہی طریقہ کار بھی ہے۔

زمیں صوبائی اسم ہے۔ اگر پورٹ قاسم کے لیے زمین وفاق کو چا ہیے یا اسٹیل مل کے لیے یا پھر کراچی پورٹ کے لیے، بڑے شوق سے لیجیے۔ مگر جو زمینیں جس مقصد کے لیے لی گئیں پھر کسی اور مقصد کے لیے استعمال ہوں وہ اس مینڈیٹ کے خلاف ہے جس کے تحت وہ زمینیں لی گئیں۔ اسٹیل مل کی زمین اگر اسٹیل مل کے لیے استعمال نہیں ہوتی اور اگر اسے کوئی بیچے گا یا کسی اور مقصد کے لیے استعمال میں لائے گا یقیناً وہ غیر آئینی اور غیر قانونی عمل ہے۔ ہمارے چیف جسٹس آف پاکستان نے بھی کراچی پورٹ ٹرسٹ کی زمین کے لیے اپنے ریمارکس میں اسی بات کا اظہار کیا۔

بھنڈارا جزیرے سندھ کی ملکیت ہیں، آرٹیکل 172(2)کو اٹھارویں ترمیم اور واضع کرتی ہے۔ اٹھارویں ترمیم اب آئین میں جذب ہو چکی ہے اور آرٹیکل 172 (2) اب آئین کا حصہ کہا جائے گا، اس کو آئین کہا جائے گا اب یہ کہنا کہ اٹھارویں ترمیم سے دقتیں پیدا ہو رہی ہیں، کام کرنے میں مشکلات ہو رہی ہیں یہ بات اس کے مترادف ہے کہ آئین سے دقتیں پیدا ہو رہی ہیں۔ ہم نے در اصل آئین کو مانا ہی نہیں ہے۔ اٹھارویں ترمیم کہیں اور سے نہیں بلکہ آئین کے اندر موجود آرٹیکل 239 میں موجود طریقہ کار سے آئی ہے۔

زیدی صاحب فرماتے ہیں کہ یہ بھنڈارا جزیرے پورٹ قاسم کو سندھ نے دیے ہیں اور پورٹ قاسم یا پھر وفاق سے اجازت لے کر بھنڈارا جزیرے پر کچھ کرسکتی ہے۔ اگر ایسا ہے تو اگر پورٹ کے کاموں سے ہٹ کر کوئی کام ہوگا تو وہ پرپز کے خلاف ہو گا۔ کابینہ سے اجازت لے کر کوسٹل اتھارٹی کے لیے صدر صاحب نے آرڈینینس جاری کر دیا۔ ایک مہینہ قبل کابینہ سے لی ہوئی اس اجازت کو خفیہ رکھا گیا جس طرح چینی پر سبسڈی دینے کے لیے پنجاب نے پوسٹ فیکٹیو کابینہ سے اجازت لی۔ یہ کس طرح کی حکومت ہے۔

زمین وفاق کا حصہ اول میں سبجیکٹ (اسم) ہے نہ حصہ دوم میں یہ صوبائی سبجیکٹ ہے۔ اس پر اتھارٹی وغیرہ بنانا آرٹیکل 142(2) کے زمرے میں آتا ہے۔ آرٹیکل 172(2) کے تحت جزیرے صوبوں کی ملکیت ہیں۔ بڑے شوق سے آپ یہ جزیرے لیں۔ اس کے لیے آپ کو سندھ کی سرحدوں میں تبدیلی کرنا ہوگی۔ تبدیلی ایک سیل کی ہو یا ایک جزیرے کی یہ تبدیلی ہی کہلائے گی۔ اس کے لیے آرٹیکل 239 (4) کا انتخاب کرنا ہو گا۔ مراد علی شاہ نے جو این او سی دیا ہے وہ ان کی جیب میں پڑا کوئی کرنسی نوٹ نہیں جو انھوں نے دے دیا، اس کا طریقہ کار آئین میں موجود ہے۔

وفاقی حکومت نے ایک نہیں دو چار بار غیر آئینی حرکتیں کی ہیں۔ پہلے انھوں نے صوبائی الیکشن کمیشنر بغیر لیڈر آف دی اپوزیشن قومی اسمبلی کو اعتماد میں لیے بغیر ہی دے دیا۔ پھر انھوں نے این ایف سی کمیشن کی نوٹیفکیشن کو غیر آئین کیا اور دونوں بالآخر درست کرنے پڑ گئے۔ خان صاحب کی حکومت مورخ کی نظر میں گورنر غلام محمد کا تسلسل ہی سمجھی جائے گی۔

آج تاریخ کے بڑے عجیب موڑ پر ہم کھڑے ہیں کہ جن پر غدار کا لیبل لگایا گیا، فاطمہ جناح سے لے کر آج تک وہ لوگ جو آئین کے محا فظ تھے اور جن کو خان صاحب محب وطن سمجھتے ہیں وہ آئین کو ہی مسئلہ سمجھتے ہیں۔ یہ عجیب تضاد ہیں۔ اور یہ خود سرکاری بیانیہ کا دیوالیہ ہے۔ جنرل ضیاء الحق کو بھی آئین چھوٹا سا کتابچہ لگا جس کو پھاڑ کر کسی بھی وقت ردی کی ٹوکری میں ڈالا جا سکتا تھا۔

سندھ کسی بازوئے شمشیر زن سے چارلس نیپیئر کی طرح فتح نہیں ہوا تھا۔ نہ ہی بلوچستان یا کوئی اور وفاقی اکائی یہ سب اپنی مرضی سے آئے تھے، ایک معاہدے کے تحت تھے۔ اگر معاہدہ ٹوٹا تو ممکن ہے کہ پھر ہم 1971 کے کسی واقعہ کو جنم نہ دے بیٹھیں، لہٰذا سب کو آئینِ پاکستان کے تابع ہونا پڑے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔