15 اکتوبر: ہاتھ دھونے کا عالمی دن

پروفیسر محمد افضل میاں  جمعرات 15 اکتوبر 2020
صحت مند زندگی کے لیے سب سے موثر احتیاطی تدبیر صابن سے ہاتھ دھونا ہے۔ فوٹو: فائل

صحت مند زندگی کے لیے سب سے موثر احتیاطی تدبیر صابن سے ہاتھ دھونا ہے۔ فوٹو: فائل

عالمی سطح پر ہر سال 15اکتوبر ’’ہاتھ دھونے سے متعلق عوامی آگہی‘‘ کے دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس کا آغاز دس سال قبل 2008ء میں 70 مختلف ممالک کے 120ملین بچوں نے بیک وقت اپنے ہاتھوں کو صابن سے دھو کر کیا تاکہ ایسے بچوں پر، جو اسہال اور پیٹ کی مختلف بیماریوں کے سبب موت کا زیادہ شکار ہوتے ہیں، توجہ مرکوز کر کے ان کی شرح اموات میں کمی لائی جا سکے۔

ہم سب بخوبی جانتے ہیں کہ بچے کسی بھی معاشرے میں سب سے توانا و چست، حوصلہ مند اور نئے خیالات کو آسانی کے ساتھ قبول کرتے ہیں اورہاتھ کی صفائی کے ان کے طرز عمل کو جلد اور باآسانی تبدیل کیا جا سکتا ہے۔

ہاتھ نہ دھونے کے نتیجے میں لاحق بیماریوں سے بچوں کی شرح اموات میں اضافے کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ بڑی عمر کے افراد تو پانی کی کمی کو پورا کر کے اور حفظان صحت کے اصولوں کو مدنظر رکھ کر مذکورہ بیماریوں سے چھٹکارا پا لیتے ہیں لیکن کم سن بچے جنہیں حفظانِ صحت کے اصولوں کا شعور نہیں ہوتا اور نہ ہی صاف پانی کے استعمال سے متعلق مناسب آگہی ہوتی ہے، اس لیے ان مہلک بیماریوں کا جلد شکار ہو جاتے ہیں۔ اس بناء پر عوامی شعور کی آگہی کی اس مہم کا مرکز و محور ہمارے بچے ہیں۔

اس سال ہاتھ دھونے کا عالمی دن ایسے حالات میںمنایا جا رہا ہے جب پوری دنیا کورونا وائرس جیسی عالمی وبا کی لپیٹ میں ہے۔ لاکھوں لوگ اس وبا کا شکار ہو چکے ہیں اور بعض ممالک میں اب بھی کورونا خطرناک حد تک موجود ہے۔ اس کے پیش نظر ہاتھ دھونے کی اہمیت پہلے سے کئی گنا بڑھ گئی ہے کیونکہ کورونا سے بچاؤ کا واحد ذریعہ ہی صحت و صفائی ہے جس میں ہاتھوں کا دھونا سب سے زیادہ ضروری اور اہم ہے۔ صرف ہاتھ دھونے سے ہی انسان خود کو اور اپنے خاندان کو نہ صرف کورونا بلکہ دیگر بھی کئی بیماریوں سے محفوظ رکھ سکتا ہے۔

ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے ایک سروے کے مطابق پاکستان میں پینے کاپانی87 فیصد ناقص اور صحت کے لیے نقصان دہ ہے۔ صفائی کے ناقص انتظام اور ہائی جین سے متعلق عمومی لا پرواہی اسہال/ دست/ پیچش کی بنیادی وجہ ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں بچوں کی ہلاکت کا سبب بننے والی سب سے بڑی بیماری اسہال ہے۔ سالانہ 20ملین سے زائد بچے اس بیماری کا شکار ہوتے ہیں اور ایک اندازے کے مطابق اڑھائی لاکھ بچے موت کا شکار ہوتے ہیں۔ طبی ماہرین کے نزدیک اسہال یا پیچش ایسی بیماری ہے جس سے بہت معمولی احتیاط کے ساتھ بھی محفوظ رہا جا سکتا ہے۔

ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ صابن کے ساتھ ہاتھ دھونا صحت مند زندگی کے لیے سب سے زیادہ مؤثر ہے اور مختلف بیماریوں بشمول پیٹ کے متعدد امراض اور اسہال کو روکنے کے لیے سستا ترین طریقہ ہے۔ اسہال کی بیماری مختلف جراثیم سے پیدا ہوتی ہے ۔ انسانی فضلے سے پیدا ہونے والے یہ جراثیم، آلودہ پانی یا جراثیم والے ہاتھوں سے کھانا کھانے سے انسانی جسم میں داخل ہوتے ہیں۔ اس بیماری کو روکنے کا سب سے مؤثر اور آسان ترین راستہ یہ ہے کہ اپنے آپ کو جراثیم  سے پاک رکھا جائے، صاف پانی کا استعمال کیا جائے اور کھانے سے قبل ہاتھوں کو اچھی طرح دھو کر استعمال کیا جائے۔

پاکستان کے دیہی علاقوں میں چونکہ مناسب تعلیم اورآگہی دونوں کی کمی ہے ، اس بناء پر ایسے علاقوں میں ڈائریا، ٹائیفائیڈ، پیٹ کی بیماریاں اور ہیپاٹائٹس (اے)جیسی بیماریاں بہت عام ہیں اور شدت کے ساتھ حملہ آور بھی ہوتی ہیں۔ ان بیماریوں میں مبتلا افراد کو پہلے پیٹ کا درد ہوتا ہے، مروڑ اٹھتے ہیں، پاخانہ بار بار آتا ہے اور آنکھیں پیلی ہونا شروع ہو جاتی ہیں ۔ جب بھی کسی فرد یا بچے میں اس طرح کی علامات نظر آئیں تو انہیں چاہئے کہ فوراً اپنے قریبی مرکزِ صحت سے رابطہ کریں۔

بعض اوقات ان بیماریوں کو معمولی سمجھ کر سے صرف نظر کرنے سے وہ انتہائی مہلک ثابت ہوتی ہیں اور بعد ازاں ان کا علاج بھی اسی قدر مشکل اور مہنگا ہو جاتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ مذکورہ علامات کے بعد علاج میں تاخیر نہ کی جائے۔ بالعموم یہ بیماریاں تمام عمر کے افراد کو یکساں طور پر متاثر کرتی ہیں لیکن بالخصوص بچوں میں ان کے اثرات شدید ہوتے ہیں۔

یہ بیماریاں جس قد ر مہلک ہیں ، ان سے محفوظ رہنا اتنا ہی آسان ہے۔ بنیادی طور پر روز مرہ زندگی میں صحت و صفائی کے اصولوں کو مد نظر رکھنا اور اس سے متعلق شعور سے آگہی سب سے اہم ہے۔ استعمال سے قبل ہاتھوں کو صابن کے ساتھ دھونا چاہیے، پینے کے پانی کو ابال کر استعمال کرنا چاہیے اور پینے کا پانی ڈھانپ کر رکھنا چاہیے،کھانا کھانے سے قبل اور واش روم کے استعمال کے بعد ہاتھ صابن سے دھونے کی پختہ عادت نہ صرف اپنے اندر پیدا کرنی چاہیے بلکہ اپنے بچوں کو بھی اس کی تاکید کرنی چاہیے۔

پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن (پیما) پاکستانی ڈاکٹرز کی سب سے بڑی آرگنائزیشن ہونے کے ناتے پاکستان میں صحت عامہ کے لیے متعدد منصوبوں کے ساتھ ساتھ ہاتھ دھونے کی عادت کے ذریعہ مختلف بیماریوں سے بچاؤ کے لیے بھی دیہی اور پسماندہ علاقوں میں سرگرم عمل ہے۔ پیما کا ہائی جین امپرومنٹ پروجیکٹ اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے جس کا بنیادی مقصد بچوں کے والدین کی عادات میں تبدیلی لا کر 5سال سے کم عمر بچوں کو اسہال اور پیٹ کی بیماریوں سے محفوظ رکھنا ہے۔

اب تک شکارپور، سکھر، خیرپور ، رحیم یار خان اور پشاور میں چار  ماہ دورانیے پر مشتمل اس پروجیکٹ کی کامیابی کا ساتھ تکمیل کی جا چکی ہے۔ اس پروجیکٹ کے دوران نہ صرف کمیونٹی میں ہاتھ دھونے کی ضرورت و اہمیت کے بارے میں بتایا جاتا ہے، بلکہ اس کے اسلامی نقطہ نظر اور طبی حوالے سے اس کی افادیت کے بارے میں بھی آسان الفاظ کے ساتھ انہیں سمجھایا جاتا ہے۔ اُنہیں یہ بات سمجھائی جاتی ہے کہ کھانے سے پہلے اور بیت الخلاء استعمال کرنے کے بعد صابن کے ساتھ ہاتھ دھونے کی عادت کسی ویکسین یا ادویات کے استعمال سے زیادہ زندگی کو بچانے یا صحت کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری اور اہم ہے۔

اس پروجیکٹ کے آغا ز سے قبل اور بعد میں ٹیمیںگھر گھر جا کر سروے بھی کرتی ہیں تاکہ اندازہ لگایا جا سکے کہ ہائی جین تربیتی سیشن کے نتیجے میں لوگوں کی عادات و اطوار اور رویوں میں کس قدرتبدیلی رونما ہوئی ہے۔ اس سلسلے میں حاصل کردہ نتائج انتہائی حوصلہ افزا ہیں جن کے مطابق ہاتھ دھونے کے حوالے سے 92فیصد لوگوں کو آگاہی ملی جو کہ پہلے59 فیصد تھی۔ 86 فیصد لوگ صاف ستھرے اور ڈھکے ہوئے برتن کا استعمال کرنے کے قابل ہوئے جو کہ پہلے 54 فیصد تھے۔ پینے کے پانی کو صاف کر کے استعمال کرنے کے حوالے سے 84 فیصد لوگ آگاہ ہوئے جو کہ پہلے 22فیصد تھے۔

حفظان صحت کے لیے صفائی کی اہمیت سے کسی طور انکار ممکن نہیں اور ہمارا دین بھی ہمیں اس کی تعلیم دیتا ہے۔اس لیے ضروری ہے کہ پاکستان کے تمام شہروں بالخصوص دیہی علاقوں میں ہاتھوں کی صفائی اور صاف پانی کے استعمال کے کلچر کو فروغ دیا جائے اور اس کے لیے سرکاری و غیر سرکاری سطح پر عوامی شعور کی آگہی کی مہمات چلائی جائیں تاکہ صحت و صفائی کے ذریعے صحت مند معاشرے کا قیام عمل میں لایا جا سکے۔

(ڈاکٹر محمد افضل میاں لاہور میں بطور پروفیسر آف سرجری خدمات سرانجام دے رہے ہیں نیز پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن کے شعبہ ریلیف کے انچارج ہیں۔ )

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔