شیخ رسول بخش کی یاد میں

ڈاکٹر ریاض شیخ  ہفتہ 21 دسمبر 2013

1943 کا واقعہ ہے، جیکب آباد میں اﷲ بخش سومرو کانگریسی ممبران کے ووٹوں سے میونسپل پریزیڈنٹ منتخب ہوئے تو مسلمانوں میں احساس محرومی اور کم ہمتی پیدا کرنے کے لیے کانگریسی اراکین نے ایک منصوبے کے تحت تمام میونسپل عمارتوں پر کانگریس کے جھنڈے لہرائے۔ میونسپل ہائی اسکول کی عمارت بھی ان میں سے ایک تھی۔ یہ دیکھ کر اتھارٹیز کے اس عمل کے خلاف احتجاج کیا گیا بلکہ ان سے یہ بات بھی منوائی گئی کہ جہاں میونسپل ہائی اسکول کی عمارت پر کانگریس کا جھنڈا لگایا گیا ہے، وہاں مسلم لیگ کا جھنڈا بھی لگایا جائے۔ لہٰذا 5 مارچ 1943 کو جیکب آباد میں مسلم اسٹوڈنٹ یونین کے زیر اہتمام ایک کانفرنس محمد ایوب کھڑو کی صدارت میں منعقد ہوئی، جس میں شیخ عبدالمجید سندھی جنرل سیکریٹری سندھ مسلم لیگ کے ہاتھوں مسلم لیگ کا جھنڈا میونسپل ہائی اسکول کی عمارت پر لہرایا گیا۔ یہ بات پرجوش جرأت مند اور غیرت ملی سے سرشار مسلم لیگ یونین کے اکیس سالہ نوعمر صدر شیخ رسول بخش کی تھی۔

شیخ رسول بخش بلاشبہ تحریک پاکستان کے صف اول کے کارکنوں میں ایک تھے، ان کی پوری زندگی ملی غیرت، حب الوطنی، اصول پرستی، خدمت خلق اور تعمیر ملت میں بسر ہوئی۔ یکم جنوری 1922 کو شیخ واحد بخش کے ہاں جیکب آباد میں پیدا ہوئے، ابتدائی تعلیم دینی مدارس میں حاصل کی جس کے باعث اسلامی شعور پختہ ہوا، ہندوؤں کی سماجی سرگرمیاں دیکھ کر مسلمانوں میں کام کرنے کا جذبہ پیدا ہوا۔ کم سنی میں ہندوؤں کی قائم کردہ دو لائبریریوں ریحبھا رام اور کرشنا لائبریری کے مقابلے میں مسلمانوں کے لیے مسلم لائبریری قائم کی۔ 1943 میں ساتویں جماعت کے طالب علم تھے کہ مسلم اسٹوڈنٹ یونین کے صدر منتخب ہوئے۔ 1938 میں ہی جیکب آباد میں مسلم لیگ کے کارکن بن گئے اور دلی وابستگی اور جذبے کے باعث اس کے جوائنٹ سیکریٹری منتخب کیے گئے۔ اس سے پہلے 1932 سے انجمن اسلام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے چکے تھے۔ خدمت خلق کا جذبہ بچپن سے ہی کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔

انھوں نے مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے ضلع جیکب آباد میں رادھا کرسٹن، اسپیومل، کوڈومل، چوتھرا ڈیملا اور نارائن داس اور وسومل جیسے بااثر اور جہاں دید کانگریسی ارکان کے مقابلے میں وہ کام کرکے دکھایا جسے معجزے سے کم نہیں کہا جاسکتا کہ جو ضلع پورے طور پر بظاہر ہندو سیاست کے زیر اثر تھا جب 1945 کو انتخابات ہوئے تو ایک نشست کے سوا ضلع کی تمام نشستوں پر مسلم لیگ کے امیدوار کامیاب ہوئے۔ صوبائی مسلم لیگ کی ورکنگ کمیٹی کے رکن رہے، پھر سندھ مسلم لیگ کے جوائنٹ سیکریٹری منتخب ہوئے۔ مسلم لیگ کے رازداروں میں سے ایک ہیں جو جانتے ہیں کہ مسلم لیگ کی کامیابی کا انحصار مسلم قومیت جذبہ ملی اور اخلاق پر مبنی تھی۔

1946 کے انتخابات میں حلقہ دادو کوٹری سے جی ایم سید کے مقابل قاضی محمد اکبر صاحب جو اس وقت مسلم نیشنل گارڈ کے سالار تھے کھڑے کیے گئے، مقابلہ سخت ہوا۔ قائداعظم نے کوٹری میں مسلم اسٹوڈنٹ یونین کا صدارتی اجلاس طلب فرمایا، شیخ رسول بخش بھی شریک ہوئے۔ انتخابات میں قاضی محمد اکبر کامیاب اور جی ایم سید اپنے تمام اثر و رسوخ اور وسائل کے باوجود ناکام رہے، ان کی وفات کے بعد سر غلام حسین ہدایت اﷲ جو زمیندار اور جاگیرداروں کے حلقے سے منتخب ہوئے تھے۔ 1945 میں ان کی خالی نشست پر مسلم لیگی امیدوار یوسف ہارون کے مقابل کانفرنس کی طرف سے علی محمد راشدی کو کھڑا کیا گیا، مرحوم محمد امین خان کھوسہ جنھیں کانگریس ہائی کمان میں بہت رسوخ حاصل تھا، سرگرم عمل ہوئے اور راشدی صاحب کو کانگریس کے فنڈ سے پچاس ہزار روپے الیکشن خرچ کے لیے دلوائے۔

ضلع جیکب آباد میں رسول بخش شیخ نے مسلم لیگی امیدوار یوسف ہارون کے لیے سرگرمی سے کام کیا۔ ضلع بھر کے دورے میں ان کے ساتھ رہے۔ انجام یوسف ہارون جیتے اور راشدی صاحب شکست کھا گئے۔ جب کراچی میں سندھ مسلم لیگ کا دفتر نیپیئر روڈ پر تھا اس وقت شیخ رسول بخش سندھ مسلم لیگ کے جوائنٹ سیکریٹری تھے۔ حر تحریک کا ایک وفد پیر صاحب پگاڑا کو لندن سے واپسی بلوانے کے لیے سرگرم عمل ہوا کہ ملک برطانیہ سے آزاد ہوچکا تھا۔ وہ لوگ جن کے مفادات پیر صاحب پگاڑا کی نظر بندی یا غیر حاضری ہی سے وابستہ تھے پروپیگنڈہ مہم پر کمربستہ ہوئے کہ پیر صاحب پگاڑا کی واپسی نظام حکومت کو متاثر کرے گی۔ حر وفد صوبائی دفتر مسلم لیگ سے اجازت طلب ہوا۔

دفتر کی طرف سے شیخ رسول بخش کے ساتھ وزیر اعلیٰ سندھ قاضی فضل اﷲ صاحب سے ملا اور انھیں یقین دلایا کہ پیر صاحب پگاڑا کی واپسی کسی بھی نظم حکومت میں گڑبڑ پھیلانے کا باعث نہیں ہوسکتی، اس طرح پیر صاحب پگاڑا کی واپسی ممکن ہوئی۔ شیخ رسول بخش 11 جون 1949 کو حکومت سندھ کی طرف سے میونسپل ایڈوائزری کمیٹی کے رکن منتخب کیے گئے۔ جنوری 1950 کو وزیراعظم نواب زادہ لیاقت علی خان جیکب آباد کے دورے پر پہنچے تو شیخ رسول بخش کو خصوصی طور پر شرف ملاقات بخشا اور ان کے ساتھ ملکی صورت حال پر تبادلہ خیال کیا۔

جب مسلم لیگ تین دھڑوں میں بٹ گئی تو شیخ رسول بخش جیسے مخلص کارکن کو دلی صدمہ ہوا، وہ دل گرفتہ رہ گئے اور مسلم لیگ کی سیاست کے انتظار میں صوبائی سطح پر سرگرمیوں سے کنارہ کش ہوکر اپنے ضلع کی حد تک اپنی صحافیانہ سرگرمیوں میں منہمک ہوگئے۔ رسول بخش موصوف تحریک پاکستان کے ان سرفروش اور وفا شعار اراکین میں سے تھے جنھوں نے مفاد پرستی پر تحریک پاکستان کی کامیابی کو ترجیح دی۔ اس کے لیے تعلیم قربان کی، آسائشیں ترک کیں، ملک و ملت کے لیے زندگی وقف کردی۔ بہت سے لوگوں کے کام آئے لیکن اپنے لیے نہ تو کوئی جائیداد حاصل کرنے کی کوشش کی نہ کسی پرمٹ وغیرہ حاصل کرنے کی آفر سے فائدہ اٹھایا۔

مسلم لیگ کے موثر ہونے کے زمانے میں ہی ذریعہ معاش کے طور پر انھوں نے اپنے لیے صحافت کا پیشہ اختیار کیا تھا۔ 1934 میں روزنامہ الوحید کے نمایندے مقرر ہوئے تھے۔ اس کے بعد 1949 سے اپنا ہفت روزہ صداقت جاری کیا۔ شیخ موصوف اول مسلمان پھر تحریک آزادی کے کارکن پھر وفا شعار مسلم لیگی اور ملت و ملت کے خیر خواہ اور اس کے بعد صحافی تھے۔ مسلم لیگ سے ان کی وفاداری غیر مشروط رہی، جیساکہ مرحوم حافظ خیر محمد اوحدی اپنے ایک مضمون ’’مسلم لیگ جا یار وفادار 4‘‘ صداقت جیکب آباد مورخہ 17 ستمبر 1979 میں رقم طراز ہیں کہ ’’دوسری عالمگیر جنگ کے بعد اخبارات میں دو تین مرتبہ یہ خبر چھپی کہ جنگ کے دوران جاپان کا ایک فوجی دستہ کسی دور دراز علاقے کی حفاظت پر متعین تھا، جنگ ختم ہوگئی لیکن وہ دستہ برسوں یہی سمجھتا رہا کہ جنگ ابھی جاری ہے اور اپنے مورچوں پر مستعد رہا، لہٰذا مسلم لیگ کے اس یار وفادار ’’شیخ رسول بخش‘‘ کی کیفیت بھی کچھ ویسی ہی ہے کہ 18 اکتوبر 1958 کو جب مارشل لا کے تحت تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ مسلم لیگ کو بھی ذبح کردیا گیا تو مسلم لیگ کے اور عشاق رو دھو کر چپکے ہو رہے لیکن یہ مجنوں کہنے لگے کہ مسلم لیگ زندہ ہے اور ہمیشہ زندہ رہے گی، البتہ مسلم لیگ کو مردہ کہنے والے شاید زندہ نہ رہیں‘‘۔

مرحوم خیر محمد اوحدی کے بقول مسلم لیگ کے ساتھ شیخ رسول بخش کی وابستگی ’’وفاداری بشرط استواری‘‘ قائم تھی، اول بھی مسلم لیگی، آخر بھی مسلم لیگی۔ آپ نے اپنی قوم، اپنے وطن کو بہت کچھ دیا ہے لیکن ایک پسماندہ ترین علاقے کے ایک ہفت روزہ اخبار کے علاوہ لیا کچھ نہیں۔ تمام زندگی سفید پوشی میں گزاردی لیکن کوئی جائیداد وغیرہ نہیں بنائی، نہ مفاد پرستوں کے آگے کاسہ لیس رہے، نہ کبھی اپنے اثر ورسوخ سے کوئی غلط فائدہ اٹھایا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔