آپ بےخبر ہیں؟

خطیب احمد  جمعرات 15 اکتوبر 2020
عالمی سطح پر ہونے والی تبدیلیوں کو صرف عقل کی روشنی میں ہی سمجھا جاسکتا ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

عالمی سطح پر ہونے والی تبدیلیوں کو صرف عقل کی روشنی میں ہی سمجھا جاسکتا ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

کیا اب بھی آپ بے خبر ہیں؟ اگر ہیں، تو جاگ جائیے کیونکہ عالمی سطح پر بڑی تیزی کے ساتھ اہم پیش رفت ہورہی ہے، جس کو صرف عقل کی روشنی میں ہی سمجھا جاسکتا ہے۔ ایک طرف امریکا کی بادشاہی قائم ہے، تو دوسری جانب امریکا کا اتحادی ملک مشرق وسطیٰ میں اسرائیل ہے، جو حکمرانی کے تخت کے قریب ہے۔ جبکہ عرب ممالک اپنے اندرونی معاملات کی وجہ سے مجبور ہیں۔

2020 کی شروعات میں ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کو امریکا نے فضائی حملے مار دیا تھا، جس کے کچھ دن بعد ہی کورونا کی وبا نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ دنیا کی معیشت اور صحت کا نظام کمزور ہوگیا تھا مگر جن کا مربوط نظام تھا، ان ممالک نے حالات پر قابو کیا۔ حال ہی میں امریکی کارنویل یونیورسٹی نے اپنے جائزے کے مطابق یہ بتایا کہ کورونا وائرس کے متعلق سب سے زیادہ مِس انفارمیشن امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پھیلائی تھیں۔ اس یونیورسٹی کا جائزہ امریکا، برطانیہ، بھارت، آئرلینڈ، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور افریقی و ایشیائی ممالک کے اعداد و شمار پر مبنی ہے اور اس مِس انفارمیشن کو عالمی ادارہ صحت نے ”انفوڈیمک“ کا نام دے دیا ہے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اس کی گیارہ ذیلی عنوانات میں درجہ بندی کی گئی، تو مقبول ترین عنوان معجزاتی نسخے ہیں، جنہیں 29,5351 مضامین میں بیان کیا گیا ہے۔ اب اندازہ لگایا جاسکتا ہے، کس طرح گہرائی کے ساتھ حالات تبدیل کیے گئے تھے۔ اب کچھ کہہ نہیں سکتے، آخر صدر ٹرمپ مستقبل میں کیا چاہتے ہیں؟

چلیے اب مشرق وسطیٰ کی جانب رخ کرتے ہیں۔ یہ خطہ سیاسی اعتبار سے اہمیت کا حامل ہے۔ جبکہ یہ خیال ذہن میں رہے کہ امریکی انتخابات بھی 2020 کے نومبر میں ہیں۔ اگرچہ عالمی وبا کی وجہ سے معیشت مکمل کمزور ہوچکی ہے اور عرب ممالک کو یہ خدشہ لاحق ہے کہ اگر ہمارے تیل کے ذخائر ختم ہوگئے، تو کیا ہوگا۔ یہ خوف بھی بڑھ رہا ہے کہ عربوں کے معاشی اور دفاعی شعبے کیسے مضبوط ہوں گے۔ اگر تیل ختم ہوگیا، تو امریکا اپنی تمام فوج سمیت مشرق وسطیٰ سے نکل جائے گا یا عالمی قوتیں مشرق وسطیٰ پر قابض ہوجائیں گی۔ لیکن عربوں کو اس بات کی تسلی رہتی ہے کہ ہمارے دفاع کےلیے امریکی فوجیں موجود ہیں۔ آخر کب تک؟ تیل کے ذخائر کم ہوئے، تو سرمایہ کاری کم ہوجائے گی۔ اسی کمزوری کا فائد اٹھاتے ہوئے امریکی صدر ٹرمپ نے امریکی صدارتی انتخابات کو مدنظر رکھا اور اسرائیل کو عرب ممالک سے تسلیم کروانے کا ایجنڈہ تشکیل دیا۔ کیونکہ اسرائیل دنیا کے ہر شعبے میں طاقتور ترین ملک تصور کیا جاتا ہے اور مشرق وسطیٰ میں امریکا کا اتحادی ملک ہے۔

اس سلسلے میں اہم پیش رفت ہوئی، جس کے پیچھے چھپے ہوئے مقاصد سے ہم بے خبر ہیں۔ متحدہ عرب امارات اور بحرین نے امریکا کی سربراہی میں اسرائیل سے قومی مفاد کی خاطر سفارتی تعلقات قائم کرلیے ہیں۔ لیکن 22 ممالک پر مشتمل عرب لیگ ان مسلم ممالک کی سخت مذمت بھی نہیں کررہی ہے۔ چونکہ یہ مٶقف واضح ہوگیا کہ اسرائیل سے تعلقات ملک کے مفاد میں کیے، جس کا مسئلہ فلسطین سے کوئی تعلق نہیں۔ اب امریکی صدر ٹرمپ کی پالیسی پر تنقید بھی کی جاسکتی ہے، لیکن موقع کے اعتبار سے یہ انتہائی کامیاب پالیسی بھی تصور کرسکتے ہیں۔

اسرائیل کو تسلیم کرنے پر سب سے زیادہ تنقید ترکی اور ایران نے کی تھی۔ ترکی کے صدر طیب اردگان نے اسرائیل سے تعلقات کو فلسطین سے غداری قرار دیا جبکہ ترکی کے خود اسرائیل سے گہرے سفارتی تعلقات قائم ہیں۔ اس وجہ سے ترکی کی پالیسی زیادہ اہمیت کی حامل نہیں اور وہ محدود ہوگئی ہے۔

ایران کا مٶقف بھی ماضی میں واضح نہیں رہا کیوں کہ ایران امریکا اور اسرائیل کو اپنا دشمن قرار دیتا ہے۔ لیکن جب نیوکلیئر ڈیل کا معاملہ آیا، تو ایران نے اپنے مفادات کی خاطر سابق امریکی صدر اوباما سے ڈیل کرکے اپنے چالیس ارب ڈالرز کے منجمد اثاثے حاصل کیے، جس کو ایران اپنی کامیابی تصور کرتا ہے۔ اسی دروان ایران نے یورپ سے بھی اقتصادی روابط قائم کیے، جو اسرائیل کے اتحاد ہیں۔ عالمی وبا اور امریکا کی معاشی پابندیوں کی وجہ سے ایران نے IMF سے چار ارب ڈالر کی درخواست بھی کی تھی۔

اب ان پیچیدہ حالات میں عالمی دباٶ بڑھے گا اور امریکا کی کوشش ہے کہ مشرق وسطیٰ میں اسلامی ممالک اسرائیل کو تسلیم کرلیں اور ایک طرف عرب ممالک اپنے تیل کے ختم ہوتے ذخائر، کمزور معیشت اور اپنی بادشاہت قائم رکھنے کی خاطر اسرائیل کو تسلیم کریں گے۔ لیکن ان پر عوام کا دباٶ ہے، جس وجہ سے براہ راست کوئی قدم نہیں اٹھا سکتے۔ اگر جلد بازی میں تعلقاب قائم کرلیے، تو اسلامی ممالک میں اندرونی مسائل پیدا ہوجائیں گے، اس سے ان کی بادشاہت کو خطرہ لاحق ہوجائے گا۔

لہٰذا ہمیں بے خبری کی دنیا سے نکل کر یہ سوچنا ہوگا کہ یہ تمام تبدیلیاں حقیقت میں مسلم دنیا میں اتحاد کے فقدان کی وجہ سے ہورہی ہیں۔ ہمیں یہ پہلو سمجھنا ہوگا کہ مسلمان ایک مذہبی گروہ ہیں مگر سیاسی گروہ نہیں ہیں، اس وجہ سے ان کے سیاسی مفاد مختلف ہیں۔ مسلم ممالک کو OIC میں مل کر ایک مجموعی ایجنڈا طے کرنا ہوگا، جو مشرق وسطیٰ کے تمام ممالک کےلیے خوشگوار ثابت ہوگا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

خطیب احمد

خطیب احمد

بلاگر طالب علم ہیں، صحافت اور اردو ادب سے گہری دلچسپی رکھتے ہیں، سماجی مسائل پر باقاعدگی سے لکھتے رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ فنِ خطابت سے بھی دلچسپی رکھتے ہیں۔ ان سے ای میل ایڈریس [email protected] پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔