تباہ حال یمن

ڈاکٹر زمرد اعوان  جمعـء 16 اکتوبر 2020
یمن کی 80 فیصد آبادی بھوک اور بیماری کا شکار ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

یمن کی 80 فیصد آبادی بھوک اور بیماری کا شکار ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے حال ہی میں شمالی یمن میں برسرپیکار حوثی تحریک سے گزارش کی کہ وہ یمن کے شہر ’مرہب‘ جو اس وقت یمنی حکومت کے قبضے میں ہے، پر حملے سے پرہیز کریں۔ یہاں یہ ذکر اہم ہے کہ اس سے دو دن قبل پاکستانی وزیر خارجہ اور سعودی نائب وزیر خارجہ کا فون پر رابطہ ہوا تھا۔ اس سلسلے میں نہ ختم ہونے والی جنگ پر مختلف قیاس آرائیاں کی جارہی ہیں۔

سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے اتحاد نے یہ کہہ کر کہ ایران حوثیوں کی فوجی مدد کررہا ہے، 2015 سے یمن میں حوثیوں کے خلاف باقاعدہ جنگ شروع کررکھی ہے، جس میں شدید ہوائی حملے بھی شامل ہیں۔ بنیادی حقوق کے کئی اداروں نے اس کارروائی کے نتیجے میں انسانی حقوق کی بدترین پامالی کا متعدد بار ذکر بھی کیا ہے۔ یاد رہے کہ یمن خطے کا سب سے پسماندہ ملک ہے، جبکہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سب سے امیر۔ اس بحث سے قبل کہ پاکستان یا کسی بھی اور مشرق وسطیٰ کے ملک کا یمن کی صورت حال میں کیا کردار ہونا چاہیے، 30 ملین آبادی پر مشتمل، معاشی اور سماجی طور پر اس انتہائی کمزور ملک کی سیاسی تاریخ کا مختصر جائزہ لینا ضروری ہے۔

برطانیہ نے جنوبی یمن کو 1967 میں آزادی دی، جب کہ شمال میں ایک مختلف سیاسی اور سماجی ڈھانچہ قائم تھا۔ دوسرے الفاظ میں دو خودمختار ریاستیں وجود میں آگئیں۔ بالاخر 1990 میں ان دونوں حصوں نے الحاق کرتے ہوئے متحدہ یمن کی بنیاد رکھی، لیکن ان کے سیاسی نظام، ثقافت اور طرز عمل مختلف تھے۔ 2011 کی ’’عرب اسپرنگ‘‘ کی احتجاجی لہر سے یمن بھی نہ بچ سکا اور صالح کی حکومت کے خلاف لوگوں نے بدعنوانی اور روز بروز بڑھتی بے روزگاری کی وجہ سے احتجاج شروع کردیا۔ اس عوامی تحریک کو دبانے کےلیے صالح کی حکومت نے عوام پر سختی کی، جس کے نتیجے میں کافی ہلاکتیں ہوئیں۔ اور بالآخر صالح کو اقتدار چھوڑنا پڑا اور اس نے اپنے نائب صدر منصور ہادی کو اپنی جگہ صدر بنا دیا۔ صالح نے شروع میں حوثیوں کے ساتھ الحاق کیا جو زیادہ دیر نہیں چلا۔ 2017 میں صالح نے حوثیوں کے ساتھ اتحاد ختم کردیا، جس کے نتیجے میں صالح کو حوثیوں نے قتل کردیا۔

شمال یمن میں حوثیوں کی مکمل حکومت ہے، جبکہ جنوب میں سعودی عرب اور امارات کے حمایت شدہ گروہوں نے قبضہ کر رکھا ہے۔ حادی بھاگ کر صنعا سے اردن چلا گیا اور اس کو اپنا عارضی دارالخلافہ بنالیا۔ یمن کی سیاسی صورت حال کا جائزہ یہ بتاتا ہے کہ جنوب میں حادی کی حکومت (جسے سعودی سرپرستی حاصل ہے) کے علاوہ ایک علیحدگی پسند گروہ ’’ایس ٹی سی‘‘ (اماراتی حمایت یافتہ) موجود ہے، جو جنوبی یمن کو ایک الگ ملک بنانا چاہتے ہیں۔ ان دونوں بنیادی گروہوں کے علاوہ جنوب میں القاعدہ اور داعش بھی موجود ہیں، لیکن محدود پیمانے پر۔ اس ساری صورت حال سے یہ اندازہ لگانا ممکن ہے کہ مشرقی یمن میں سعودی عرب اور اماراتی اتحاد حوثیوں کے خلاف تو کارروایوں میں مصروف ہے، مگر جنوب میں یہ دونوں ممالک دو الگ الگ دھڑوں کی سرپرستی کررہے ہیں۔ یعنی جنگ کے اندر جنگ ہورہی ہے۔

اس وقت یمن میں نہ ختم ہونے والی شورش میں بنیادی تشویش کا باعث حوثیوں کی سعودی عرب اور اماراتیوں کی اتحادی فوجوں کے مابین خانہ جنگی ہے۔ جس کی وجہ شمالی یمن اور سعودی عرب کی ایک ہزار 3 سو کلومیٹر مشترکہ متنازع سرحد ہے۔ سعودی حکمران حوثیوں کو اپنے لیے مستقل خطرہ سمجھتے ہیں اور الزام لگاتے ہیں کہ ایران حوثیوں کو اسلحہ فراہم کررہا ہے۔

اس صورت حال میں یہ جاننا ضروری ہے کہ یمن کی 80 فیصد آبادی بھوک اور بیماری کا شکار ہے۔ اور یہاں مختلف بیماریوں کی بھرمار ہے۔ 17.8 ملین آبادی تو صاف پانی سے بھی محروم ہے، جبکہ 2 ملین سے زیادہ بچے خوراک کی کمی کا شکار ہیں اور 70 فیصد یمنی فوری امداد کے منتظر ہیں۔ حالیہ کورونا کے پھیلاؤ اور ناکہ بندی کی وجہ سے یمنی ایک عذاب سے گزر رہے ہیں۔

انسانی حقوق کا بین الاقوامی ادارہ ’’ہیومن رائٹس واچ‘‘ نے اپنی 2019 کی رپوٹ میں سعودی عرب کی اتحادی فوجوں کی جانب سے 90 غیر قانونی فضائی حملوں کی نشاندہی کی ہے۔ ’’یمن ڈیٹا پروجیکٹ‘‘ کے تحت، جب سے یہ ہوائی حملے شروع ہوئے ہیں، 20 ہزار 1 سو سے زیادہ حملے کیے گیے، جو 12 حملے ہر روز کے حساب سے بنتے ہیں۔ ان حملوں میں اسپتالوں، اسکول بسوں ، بازاروں، مسجدوں اوریہاں تک کہ جنازوں کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے۔ جن میں اب تک 1 لاکھ افراد ہلاک جبکہ 3 ملین نقل مکانی پر مجبور ہوچکے ہیں۔ جس کی وجہ سے عوام بدترین حالات کا شکار ہیں اور یہ دور حاضر کا بدترین انسانی سانحه ہے۔

سب سے زیادہ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ یہ امیر مسلمان ریاستوں کا ایک پسماندہ مسلمان ریاست پر مسلسل حملہ ہے۔ اس انسانی حقوق کی بدترین پامالی پر مسلم اُمہ کو اسلامی تاریخ کے ان صفحات کو نہیں بھولنا چاہیے، جس میں یمن کا ذکر سنہری الفاظ میں موجود ہے۔ اس سارے ماحول میں یورپی ممالک اور امریکا کے کمزور کردار کا ذکر بھی اہم ہے۔ امریکی سینیٹ نے 2019 کے آغاز میں قرارداد پاس کی تھی کہ امریکا سعودی عرب کو اسلحہ دینا بند کرے، کیونکہ یہ پہلے سے ہی غربت میں ڈوبے لاچار یمنیوں کو مارنے کےلیے استعمال ہورہا ہے، جس میں ایک بڑی تعداد بچوں اور خواتین کی ہے۔ لیکن اس قرارداد کو صدر ٹرمپ نے اپنے مخصوص اختیارات استعمال کرتے ہوئے ویٹو کردیا۔ البتہ برطانیہ نے سعودی عرب کو اسلحہ دینا یہ کہہ کر بند کردیا کہ یہ انسانی جانوں کے خلاف استعمال ہورہا ہے۔

یہاں یہ کہنا ضروری ہے کہ یمن جیسا تاریخی ملک جس کی تہذیب ہزاروں سال پرانی ہے، کو اپنے مسائل سے نمٹنے کا موقع نہ صرف مشرق وسطیٰ کے ممالک جن میں سعودی عرب اور امارات شامل ہے، کو دینا چاہیے، بلکہ ہر ایسے قدم کی بین الاقوامی طاقتوں کو بھی مخالفت کرنی چاہیے، جو وہاں انسانی جانوں کے ناحق ضیاع کا باعث بن سکتا ہے۔ ایسے میں سفارتکاری سے یمن میں جنگ بندی کروانا ہی تمام علاقائی و بین الاقوامی طاقتوں کا اصل ہدف ہونا چاہئے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔