بڑا آدمی بننے کا نسخہ

سعد اللہ جان برق  جمعـء 16 اکتوبر 2020
barq@email.com

[email protected]

دلیپ کمار کی وہ فلم تو آپ نے دیکھی ہو گی جس میں کباڑی کوٹ پتلون پہن کر ٹھاٹ سے گاتا ہے کہ دیکھو میں تو ’’صاحب‘‘ بن گیا۔ آپ سے کیا پردہ ہم نے بھی عمر بھر ’’صاب‘‘ بننے کی کوشش کی ہے اور بچپن سے ’’بڑاآدمی‘‘ بننے کی تمنا تھی جیسا کہ آپ نے ٹی وی وغیرہ پر دیکھا ہو گا کہ کسی بچے سے پوچھا جاتا ہے کہ بڑے ہوکر تم کیا بنو گے تو وہ ڈاکٹر انجینئر یا استاد بننے کا ٹارگٹ بتا دیتا ہے۔

محترمہ بے نظیر کے زمانے میں ایک اشتہار آیا کرتا تھا ایک بچی اس سوال پر کہتی تھی، میں بڑی ہو کر پرائم منسٹر بنوں گی معلوم نہیں وہ بچی اب کیا بن گئی ہو گی اور بھی بہت سارے ہوں گے جو نہ جانے کیا بننے ’’نکلے‘‘ تھے اور کیا بن گئے۔ چنانچہ ہم سے بھی اگر بچپن یا لڑکپن یا  جوانی میں پوچھا جاتا تو ہم یہی جواب دیتے کہ ’’بڑے‘‘ ہو کر ہم بڑا آدمی بننا چاہیں گے اور اس کے لیے ہم مقدور بھر کوشش بھی کرتے رہے گو کہ ہماری کوشش ویسی ہی ہے جیسے کوئی ٹکٹ خریدے بغیر ’’بمپر انعام‘‘ کی توقع کرے۔

ایک موقع آیا بھی تھا جب ہمیں مشرف دور میں کوئی تمغہ ستارہ ملنے والا تھا لیکن ہم نے اسے اپنی نادانی سے گنوا دیا ویسے یہ نادانی ہمارے لیے اچھی ثابت ہوئی۔ ایوارڈز والے اتنے بن گئے کہ ہم لنڈھورے ہی بھلے ہو گئے۔ لیکن بڑا آدمی یا ’’صاب‘‘بننے کی تمنا تو تھی ہر چند کہ اب وہ تمنا بھی بوڑھی ہو کر لاٹھی ٹیکتی ہوئی چلتی ہے۔ دل کے کونے کھدرے میں کہیں ہے تو سہی جو کبھی کبھی کھانس کر ہمیں اپنی موجودگی بلکہ ’’ہونے‘‘ کا پتہ دیتی ہے:

یوں بھی ہونے کا پتہ دیتے ہیں

اپنی زنجیر ہلا دیتے ہیں

پہلے ہر بات پہ ہم بولتے تھے

اب فقط ہاتھ اٹھا دیتے ہیں

خدا کی شان دیکھیے کہ ہماری وہ تمنا اچانک پوری ہو گئی اور ایسی پوری ہو گئی۔ نہ جہاں میں اماں ملی جو اماں ملی تو کہاں ملی؟

یہاں بہت دور اقصائے سوات میں۔ وہ بھی اتنی اچانک کہ کبھی ہم ’’اس کو‘‘ اور کبھی اپنے ’’سر‘‘ کو دیکھتے رہ گئے۔ یہ بھی اسی تقریب سے متعلقہ واقعہ ہے جس کا ذکر ہم ایک کالم میں بھی کر چکے ہیں لیکن وہ ’’واپسی‘‘ کا ذکر تھا۔ جب ہم سوات موٹروے اور بڑے لوگوں کی سرنگوں سے ہو کر آئے تھے۔ لیکن ظاہر ہے کہ واپسی سے پہلے ’’جانے‘‘ کا واقعہ ہوا تھا۔ اور اسی ’’جانے‘‘ نے ہمیں صاب اور بڑا آدمی بنا دیا۔ جس کا ہمیں گمان بھی نہیں تھا۔ کہ یہ سفر ہمارے لیے وسیلہ ظفر ثابت ہو گا۔

یوں کہیے کہ آگ لینے گئے تھے اور پیمبری مل گئی۔ ایک تقریب میں جانا اور بولنا توکوئی خاص بات نہیں، بہت سارے لوگ جاتے ہیں اور بولتے ہیں بلکہ بہت جاتے اور بہت بولتے ہیں لیکن وہ بڑے آدمی یا صاب نہیں بن جاتے۔ لیکن ہم بن گئے۔ اور ایسے بن گئے کہ ’’کیا بنے بات جہاں بات بنائے نہ بنے‘‘ اور اس بات یعنی ہمارے بڑے آدمی اور صاب بننے کا سارا کریڈٹ اس راستے یا سڑک کو جاتا ہے جس پرہم گئے۔ ڈھائی گھنٹے کا سفر چھ گھنٹے میں کر کے جب ہم پہنچے تو بڑے آدمی بن چکے تھے۔ نہ ہینگ لگی نہ پھٹکری اور رنگ بڑے آدمی کا آ گیا۔

گھر سے ہم سات بجے نکلے تھے اور ایک بجے پہنچ گئے جب کہ تقریب کا وقت گیارہ بجے تھا۔ ظاہر ہے کہ تین یا ڈھائی گھنٹے کی ’’دیر‘‘ بڑا آدمی بننے کے لیے کافی ہے کہ یہی نشانی بڑا آدمی بننے کی ہوتی ہے وقت مقررہ سے ایک ڈیڑھ گھنٹے بعد آنا۔ یہ آدھ پونا گھنٹہ والی دیر تو تیسرے درجے کے بڑے آدمی بھی کر دیتے ہیں اس سے اوپر والے ڈیڑھ دو گھنٹے لیتے ہیں اور ہم پورے ڈھائی تین گھنٹے لیٹ گویا ٹاپ کلاس بڑے آدمی اور وی وی آئی پی ’’صاب‘‘۔ یہ کمال نہیں تو اور کیا ہے کہ یونہی ادھر ادھر کی ٹامک ٹوئیاں مار رہے تھے، ’’صاب‘‘ اور بڑا آدمی بننے کے لیے جب کہ بچہ بغل ہی میں تھا۔

’’دیر کرکے آئیے اور ’’صاب‘‘ بن جایئے‘‘ اور اس کا ہم نے وہاں باقاعدہ اعلان بھی کر دیا کہ آج ہمیں ’’صاب‘‘ کی نگاہ سے دیکھیے سنیے اور سونگھیے۔ اگر ہمیں پہلے پتہ ہوتا کہ دیر کر کے آنے میں کیا کیا فوائد ہیں تو خود کو اتنا عرصہ پر ہر پروگرام میں وقت پر پہنچا کر خوار نہ کرتے۔ اب جب ہمیں صاب بننے کا نسخہ معلوم ہو گیا تو اپنے پچھلے افسوسناک اور شب و روز بھی یاد آئے کتنے نادان تھے ہم۔ ہر جگہ وقت پر بلکہ وقت سے پہلے پہنچا کرتے تھے اور اپنے کو بڑا کرنے کے بجائے مزید چھوٹا کرنے میں لگے ہوئے تھے۔

جب ہم ’’روڈ ٹو سوات‘‘ پر ہو لیے تو تھوڑی دیر میں ہمیں اپنے گاؤں کا گلشن یاد آیا۔ گلشن کی ملازمت سے ریٹائر ہونے کے بعد جو روپیہ آیا اس سے ایک ٹرک خرید لیا اور خود ہی ڈرائیو کرنے کا فیصلہ کیا۔ پہلے ہی دن جب سڑک پر نکلا تو سڑک بھی تنگ تھی اور اس پر تانگے بھی چل رہے تھے۔

ایک تانگے سے ٹرک بچایا پھر دوسرے پھر تیسرے۔ ڈرائیور تو واجبی سا تھا غصے میں آ گیا۔ دنیا میں سارے لوگ سوائے تانگے کوئی اور کام کرتے بھی ہیں اور سب نے قسم کھا رکھی ہے کہ آج ہرکوئی تانگہ لے کر اسی سڑک پر آئے گا۔ کتنے تانگے ہیں اور کتنے ’’تانگے وال ہیں‘‘۔ ہمیں بھی پتہ چلا کہ چین جاپان اور دنیا بھر میں جتنی گاڑیاں ہیں وہ سب اسی سڑک پر آ گئی ہیں۔ قدم قدم ٹریفک جام، ہارن اور ڈرائیوروں کی تو تو میں میں۔ ایسے ایریا میں تو گزارہ کر کے کہیں نہ کہیں سے آگے بڑھتے رہے لیکن سوات مالاکنڈ میں تو گاڑیاں ہی گاڑیاں، ایچک دانہ بیچک دانہ دانے اوپر دانہ۔ ان گاڑیوں سے اندازہ ہوا کہ دنیا میں گاڑیوں کی مارکیٹ یہی سڑک ہے اور پاکستان میں ایسا کوئی شخص باقی نہیں رہا ہے جس کے پاس گاڑی نہ ہو۔

ہمارے اندازے کے مطابق اتنی گاڑیاں چین و جاپان میں بھی آن روڈ نہیں ہوں گی جتنی اس سڑک پر تھیں اور سڑک کے دونوں کناروں پرگاڑیوں کے شو روم کم ازکم چار چار کنال کے رقبے میں لیکن ہمارے لیے تو نعمت ثابت ہوئیں۔ تین گھنٹے دیر کر کے ہمیں صاب اور بڑا آدمی بنا کر چھوڑا۔ وہاں لوگوں کو بے چین اور بیزار دیکھ کر ’’صاب‘‘ بننے کا جو نشہ چڑھا وہ ابھی تک اترا نہیں ہے بڑا آدمی بننے کا آسان نسخہ ہمیں مل چکا تھا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔