رسولِ رحمت ﷺ کا صبر و تحمّل

مولانا محمد الیاس گھمن  جمعـء 16 اکتوبر 2020
اسلام کی تبلیغ کے لیے انتہائی کٹھن اور مشکل حالات میں بھی ثابت قدم رہنا چاہیے۔ فوٹو : فائل

اسلام کی تبلیغ کے لیے انتہائی کٹھن اور مشکل حالات میں بھی ثابت قدم رہنا چاہیے۔ فوٹو : فائل

اﷲ تعالی کے آخری رسول حضرت محمد ﷺ کو تبلیغ اسلام کی پاداش میں مشکلات، مصائب، تکالیف، آزمائشوں، اذیتوں اور امتحانات سے دوچار ہونا پڑا۔

مکہ میں جان لیوا مظالم، جاں نثاروں کی مظلومانہ بے بسی اور حبشہ کی جانب ہجرت، شعب ابی طالب کا تین سالہ محاصرہ و سماجی مقاطعہ، قریشیوں کے ستم کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ، یہاں تک کہ ابولہب اور عقبہ بن ابی معیط کی حکم پر آپؐ کے سر مبارک پر غلاظت انڈیلی گئی۔ انہی دشمنان اسلام کے کہنے پر آپؐ کے راستے میں کانٹے بچھائے گئے۔

انہی کے اشارۂ ابرو پر کاشانہ نبویؐ میں برتنوں کو خراب کیا گیا۔ پکتی ہوئی ہنڈیا کو اوندھا کیا گیا۔ خدا تعالیٰ کے حلال کردہ رزق میں حرام پلیدی ڈال دی گئی۔ آپؐ کے جسم مبارک پر اونٹوں کے اوجھ ڈالے گئے۔ گرد و غبار سے جسم اور لباس مبارک آلودہ کرنے کی بے باکانہ جسارت بھی کی گئی۔

گویا ظلم، ستم، اذیّت، تکلیف، ذہنی کوفت اور جسمانی تشدد جیسا وحشیانہ اور غیر انسانی برتاؤ آپؐ سے برتا گیا لیکن ان سب کچھ کے باوجود آپؐ کے صبر و تحمل، عفو و درگزر ، ضبط و برداشت اور استقلال میں ذرّہ برابر کمی نہیں آئی اور آج تک تاریخ آپؐ کے رحم و کرم، عزیمت، ثابت قدمی اور فراخی اور حوصلے کی داستانیں سنا رہی ہے، جب مکہ کے بچے بچے دشمنی کرنے سے نہ بچے تو آپؐ نے مکہ سے باہر کی طرف نظر دوڑائی اور طائف کی طرف سفر کا ارادہ فرمایا۔

طائف مکہ سے تقریباً چالیس میل کے فاصلے پر خوب صورت وادی، زرخیز باغات اور پہاڑوں سے مزین علاقہ ہے۔ مکہ کے سرداروں نے یہاں محلات بنا رکھے تھے۔ قبیلہ ثقیف یہاں آباد تھا، یہ عرب کا طاقت ور قبیلہ تھا۔ قریش کی اس قبیلے سے رشتے داریاں بھی تھیں، یہاں تین بھائی عبدیالیل، مسعود اور حبیب اس قبیلہ کے سردار تھے۔

بعثت نبویؐ کا دسواں واں سال شوال المکرم کا مہینا تھا، آپ ﷺ فریضہ تبلیغ کے لیے (غالباً پیدل ) یہاں پہنچے۔ آپ ﷺ کے ہم راہ حضرت زید بن حارثہؓ تھے۔ دس دن یہاں قیام فرمایا، عوام و خواص کے سامنے دین اسلام پیش کیا، معززین علاقہ کے مکانوں پر تشریف لے گئے اور انہیں دعوت اسلام قبول کرنے کو کہا لیکن سب نے بے رخی کا مظاہرہ کیا۔

آخرکار آپ ﷺ یہاں کے سرداروں عبدیالیل، مسعود اور حبیب کے پاس تشریف لے گئے اور ان کے سامنے اپنے آنے کا مقصد واضح فرمایا۔ لیکن ان بدبختوں کی بدنصیبی تو دیکھیے کہ انہوں نے آپؐ کی دعوت کو نہ صرف ٹھکرایا بل کہ نہایت گستاخانہ رویہ اپناتے ہوئے آپؐ کا مذاق اڑایا۔ ایک نے طنز کا نشتر چبھوتے ہوئے کہا: اگر خدا تعالیٰ نے تجھے رسول بنا کر بھیجا ہے تو وہ خانہ کعبہ کی عزت پامال کر رہا ہے۔

دوسرے نے پھبتی کستے ہوئے کہا: اﷲ کو تیرے علاوہ اور کوئی نہیں ملا جسے وہ رسول بنا کر بھیجتا۔ تیسرے نے آوازہ کستے ہوئے کہا: اﷲ کی قسم! میں تیرے ساتھ بات نہیں کرتا، اگر تو واقعی اﷲ کا رسول ہے جیسا کہ تیرا دعویٰ ہے تو رسول کی شان یہ نہیں کہ اس سے بحث کی جائے اور اگر تو خدا پر جھوٹ بول رہا ہے تو میری شان یہ نہیں کہ تجھ جیسے سے بات کروں۔

اس کے بعد ان حرماں نصیبوں نے طائف کے اوباشوں اور آوارہ گردوں کو آپؐ کے پیچھے لگا دیا۔ کوئی تالی بجاتا، کوئی سیٹی بجاتا، کوئی جملے کستا، کوئی ہلڑ بازی کرتا، شور، ہڑبونگ اور اودھم مچاتے ہوئے آپؐ کو طائف کی گلیوں میں لے آئے، یہاں دونوں طرف لوگ صف بنائے پتھر ہاتھوں میں لیے کھڑے تھے، جب آپؐ کا گزر وہاں سے ہوا تو انہوں نے آپ ﷺ کو پتھر مارنا شروع کیے، سر مبارک سے لے کر پاؤں مبارک بل کہ نعلین مبارک تک آپؐ لہولہان ہوگئے، پنڈلیوں اور گھٹنوں پر گہرے زخم آئے۔

بدن مبارک سے خون مبارک بہتا ہوا قدموں تک پہنچا، قدموں سے رستا ہوا نعلین مبارک تک پہنچ گیا، نعلین اور قدمین آپس میں خون کی وجہ سے چپک گئے۔ حضرت زید بن حارثہؓ آپؐ کو بچانے کے لیے کبھی آگے آتے، کبھی دائیں بائیں اور کبھی پیچھے ان کا سر بھی لہولہان ہوگیا۔ پتھروں کے برستی بارش میں کبھی آپؐ بیٹھ جاتے تو طائف والے آپؐ کی بغلوں میں ہاتھ ڈال کر آپؐ کو دوبارہ کھڑا کر دیتے، چند قدم چلتے پھر بیٹھ جاتے اور وہ دوبارہ آپؐ کی بغلوں میں ہاتھ ڈال کر کھڑا کرتے اور پتھر برساتے۔

جب آپؐ بے ہوش ہوکر گر پڑے تو حضرت زید بن حارثہؓ نے آپؐ کو اٹھایا، قریب ہی کچھ پانی تھا وہاں لے گئے تاکہ زخموں کو دھوئیں، کچھ دیر بعد طبیعت کچھ سنبھلی تو قریب میں ایک باغ تھا اور انگور کی سایہ دار بیل کے نیچے تھوڑی دیر لیٹ گئے اور معبود برحق کی بارگاہ میں مناجات و دعا میں مشغول ہوگئے۔ آپؐ کے سوز و گداز، تڑپ اور درد اور زخموں کی ٹیس سے نالہ و فریاد میں وہ تاثیر پیدا کی جس سے عرش بریں تک کانپ اٹھا۔ اس موقع پر آپؐ نے بارگاہ ایزدی میں دعا کی: ’’اے اﷲ! میں تجھ ہی سے اپنی بے بسی کا شکوہ کرتا ہوں، یہ مجھے رسوا کرنا چاہتے ہیں اس کا شکوہ بھی تجھ ہی سے کرتا ہوں۔

اے سارے مہربانوں سے زیادہ مہربان۔ اے میرے پروردگار! آپ مجھے کن کے حوالے کر رہے ہیں جو مجھ سے دُور ہیں جو مجھ سے منہ چڑھا کر بات کرتے ہیں۔ اے اﷲ! اگر تُو مجھ سے ناراض نہیں اور اگر مجھ پر تیرا عتاب نہیں تو مجھے کسی بھی بات کی پروا نہیں۔ خداوندا! تیرا تیری عافیت کا دامن بہت وسیع ہے۔ اے اﷲ! میں پناہ مانگتا ہوں اس سے کہ مجھ پر تیرا غضب پڑے یا عتاب نازل ہو، تجھ ہی کو منانا ہے اور اس وقت تک منانا ہے جب تک تو راضی نہ ہو جائے۔‘‘

وہاں سے اٹھے، قرن الثعالب پہاڑی سامنے تھی، اوپر نظر اٹھائی بادل نے آپؐ پر سایہ کیا ہوا تھا، بادل پر نظر جمائی تو اس میں جبرائیل امینؑ جلوہ افروز تھے اور عرض کیا: یارسول اﷲ ﷺ! اﷲ تعالیٰ نے سن لیا، دیکھ لیا، آپؐ نے جو کچھ فرمایا، انہوں نے جیسا سلوک کیا، سب کا سب دیکھ اور سُن لیا۔ یہ میرے ساتھ ملک الجبال (پہاڑوں کی نگرانی پر مقرر فرشتہ ) موجود ہے، آپؐ حکم دیجیے یہ تعمیل کریں گے۔ ملک الجبال نے عرض کیا: مجھے اﷲ تعالیٰ نے بھیجا ہے آپؐ جو چاہیں حکم کریں میں تعمیل کروں گا آپ حکم دیں مکہ کی دونوں طرف کے پہاڑوں کو ملا کر ان تمام بے ادب اور گستاخوں کو پِیس ڈالوں؟

آپ ﷺ آزمائش کے دہرائے پر کھڑے تھے، ایک آزمائش اہل طائف نے آپؐ پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے، دوسری آزمائش کہ جبرائیل امینؑ اور ملک الجبال ان کو پیس ڈالنے کی فرمائش کے منتظر کھڑے ہیں۔ پہلا امتحان تھا صبر و ضبط، تحمل و برداشت اور استقلال کا دوسرا امتحان تھا، دعویٰ رحم و کرم کا، فراخی حوصلہ اور وسعت ظرفی کا۔

اﷲ کریم نے آپؐ کو دونوں میں کام یاب فرمایا، دریا دلی والے دل رحمت میں کرم کی ایک موج اٹھی اور اہل طائف کی قسمت کے سفینے کو پار لگا دیا، فرشتوں کو جواب دیا: اگر یہ بدنصیب ایمان نہیں لائے تو کیا ہوا، میں ان کی آنے والی نسل سے ہرگز ناامید نہیں ہوں، مجھے اﷲ کی ذات پر مکمل یقین اور بھروسا ہے کہ وہ ان کی نسلوں میں ایسے لوگ پیدا فرمائے گا جو اﷲ کی توحید کے قائل اور شرک سے بیزار ہوں گے۔

قریب ہی مکہ کے مشہور سردار عتبہ اور شیبہ بن ربیعہ کا باغ تھا، اس وقت یہ دونوں بھائی وہاں موجود تھے، انہیں غیرت آئی کہ ہمارے شہر کے ایک معزز شخص سے طائف والوں نے بہت ناروا سلوک کیا ہے۔ چناں چہ اپنے ایک غلام کو انگوروں کے خوشے دے کر آپ ﷺ کے پاس بھیجا۔

اس کا نام عداس تھا اور مذہباً عیسائی تھا۔ وہ آپؐ کے پاس آیا، انگور پیش کیے آپؐ نے انگور کھانے کے لیے ہاتھ بڑھایا تو زبان مبارک پر بسم اﷲ الرحمٰن الرحیم جاری ہوگیا۔ عداس کہنے لگا: یہاں کے لوگ تو الرحمٰن الرحیم نہیں کہتے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: تم کہاں کے ہو؟ اس نے جواب دیا کہ نینویٰ۔ آپؐ نے فرمایا: وہی نینویٰ جو میرے بھائی حضرت یونس علیہ السلام کا وطن تھا۔ وہ حیرت زدہ ہوکر پوچھنے لگا کہ آپ یونس علیہ السلام کو کیسے جانتے ہیں ؟

آپ ﷺ نے جواب دیا میرے اور ان کے درمیان نبوت کا رشتہ ہے، وہ بھی اﷲ کے نبی تھے اور میں بھی اﷲ کا بھیجا ہوا نبی ہوں۔ عداس یہ سن کر اسی وقت مسلمان ہوگیا۔ عداس کے قبول اسلام نے گویا آپؐ کے زخموں پر مرہم کا کام کیا، طائف سے واپسی پر جنّات کی ایک جماعت نے اسلام قبول کیا۔

سفر طائف سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ دین اسلام کی تبلیغ کے لیے انتہائی کٹھن اور مشکل حالات بھی آئیں تو ثابت قدمی اور خندہ پیشانی سے برداشت کرنے چاہییں، تبلیغ کی محنت کا نتیجہ اگر وقتی طور نظر نہ بھی آئے تو بھی اﷲ کی رحمت سے ناامید نہیں ہونا چاہیے۔ محنت کا ثمر کچھ عرصہ بعد اﷲ تعالیٰ ضرور عطا فرماتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔