گوجرانوالہ جلسہ، اپوزیشن بیانیے کی پذیرائی، حکومت کو دھچکا

خالد قیوم  ہفتہ 17 اکتوبر 2020
مریم  اور بلاول کو بھی بڑی سیاسی پذیرائی ملی، گوجرانولہ کی تاریخ کا بڑا جلسہ قرار  ۔  فوٹو : فائل

مریم اور بلاول کو بھی بڑی سیاسی پذیرائی ملی، گوجرانولہ کی تاریخ کا بڑا جلسہ قرار ۔ فوٹو : فائل

 لاہور:  مستقبل کی لیڈر شپ مریم نواز اور بلاول بھٹو کو جی ٹی روڈ کے اہم مرکز گوجرانوالہ میں بڑی سیاسی پذیرائی ملی جب کہ دونوں سیاسی رہنماؤں نے پہلی بار گوجرانوالہ میں بڑے مشترکہ جلسے سے خطاب کیا۔

بینظیر بھٹو کے بعد پیپلزپارٹی کے کسی سر براہ نے 22 سال بعد گوجرنوالہ میں جلسہ عام سے خطاب کیا ، 1998 میں آخری بار بے نظیر بھٹو نے پاکستان عوامی اتحاد کے پلیٹ فارم پر سابق وزیراعظم نواز شریف کی حکومت کیخلاف شیرانوالہ باغ جلسے سے خطاب کیا تھا، اس جلسے میں نعرہ گو نواز گو تھا اور اب پی ڈی ایم کے جلسے میں گو عمران گو کا نعرہ لگ رہا ہے۔

ان جلسوں میں مماثلت یہ ہے کہ دونوں جلسے اتحاد کے پلیٹ فارم پر ہوئے، عوامی اتحاد کے جلسے میں ڈاکٹر طاہر القادری اتحاد کے سر براہ تھے جبکہ اب مولانا فضل الرحمن پی ڈی ایم اتحاد کے سر براہ ہیں، پی ڈی ایم کے جلسے میں مسلم لیگ (ن) ، پیپلزپارٹی اور جے یو آئی نے بھر پور تیاری کی اور اتحاد کی تمام جماعتوں میں ہم آہنگی نظر آئی جبکہ سیاسی جماعتوں کے کارکنوں نے بھی میچورٹی دکھائی اور ایک دوسرے میں مکس ہوگئے۔

تینوں جماعتوں کے جھنڈے نمایاں تھے، جی ٹی روڈ پر سیاست کی ایک تاریخ ہے اور پاکستان کی قومی سیاست اور تحریکوں میں اس علاقے کا ہمیشہ بڑا فیصلہ کن رول رہا ہے، عدلیہ بحالی تحریک بھی گوجرانوالہ پہنچ کر کامیاب ہوگئی تھی۔

وزیراعظم عمران خاں بھی دھرنے کیلئے اسی روٹ سے اسلام آباد گئے، بے نظیر بھٹو نے بھی جی ٹی روڈ پر ریلیاں نکالیں، بلاول بھٹو کو گوجرانوالہ جلسے میں شرکت کیلئے اسلام آباد یا لاہور سے ریلی کی قیادت کی تجویز دی گئی لیکن انہوں نے لالہ موسیٰ سے ریلی کی قیادت کرنیکا فیصلہ کیا اور ان کا یہ فیصلہ درست ثابت ہوا، بلاول بھٹو نے وزیر آباد میں اپنی تقریر کے دوران مستقبل میں قومی حکومت کا اشارہ بھی دیا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔