ایف آئی اے نے خلاف ضابطہ لگژری گاڑیاں خریدیں، آڈیٹر جنرل کی رپورٹ

ثاقب ورک  اتوار 18 اکتوبر 2020
487 وکلاکی خدمات بغیر اشتہارحاصل کیں، بار ایسوسی ایشنز کودیے 2کروڑ96 لاکھ کا حساب نہیں۔ فوٹو: فائل

487 وکلاکی خدمات بغیر اشتہارحاصل کیں، بار ایسوسی ایشنز کودیے 2کروڑ96 لاکھ کا حساب نہیں۔ فوٹو: فائل

اسلام آباد: آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی رپورٹ2019-20 میں مختلف وزارتوں اور محکموں میں بے قاعدگیوں کا انکشاف کیا گیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق وفاقی وزارت قانون و انصاف نے بغیر اشتہار دیئے487 وکلا کی خدمات حاصل کیں اور انھیں58 لاکھ سے زائد فیس ادا کی گئی، بغیر اشتہار وکلاکی خدمات حاصل کرنا پیپرا قوانین کی خلاف ورزی ہے،وکلاکی یہ خدمات سال2018-19 کے دوران حاصل کی گئیں۔

اس کے علاوہ وزارت قانون و انصاف نے بھرتیوں کیلئے6 لاکھ روپے کے دو اشتہار جاری کئے لیکن بھرتیوں کا عمل دونوں مرتبہ شروع نہ ہوسکا، آڈٹ حکام نے مجاز افسران سے اشتہار کی مد میں خرچ ہونیوالی رقم وصول کرنے کی سفارش کردی۔

وفاقی وزارت قانون و انصاف کی جانب سے31 بار ایسوسی ایشنز کو جاری فنڈز پر بھی آڈٹ حکام کا اعتراض سامنے آیا ہے، آڈٹ رپورٹ کے مطابق بار ایسوسی ایشنزسے فنڈز کا آڈٹ شدہ حساب نہیں لیا گیا۔ بار ایسوسی ایشنز کو دو کروڑ96 لاکھ سے زائد رقم دی گئی تھی۔

لاء اینڈ جسٹس کمیشن کی جانب سے جاری جوڈیشل ڈویلپمنٹ فنڈ پر بھی آڈٹ اعتراض لگ گیا، رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ لاہور اور سندھ ہائیکورٹس کو 17کروڑ روپے سے زائد رقم ادا کی گئی، دونوں ہائی کورٹس کو رقم 2012 سے 2016 کے دوران جاری کی گئی، لاہور اور سندھ ہائیکورٹس سے بھی آڈٹ ریکارڈ نہیں لیا گیا۔

آڈٹ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ ایف آئی اے نے24 نان کسٹم پیڈ لگژری گاڑیاں خلاف ضابطہ خریدیں۔ یہ گاڑیاں2017 سے2019کے دوران خریدی گئیں ان میں بی ایم ڈبلیو، مرسڈیز، لیکسز، مارک ایکس،کیمری اور ہائی لیکس سرف گاڑیاں شامل ہیں، نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کی رجسٹریشن بھی نہیں کروائی گئی۔

آڈٹ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اسٹاف کار رولز کے تحت ایف آئی اے کا کوئی بھی افسر لگژری گاڑی رکھنے کا مجاز نہیں، آڈٹ حکام کی نشاندہی پر ایف آئی اے نے 24 میں سے 8 گاڑیاں ڈی جی کسٹمز انٹیلی جنس کو واپس کیں۔

آڈیٹر جنرل کے اعتراض پر ایف آئی اے نے آڈٹ حکام کو جواب دیا کہ گاڑیوں کی ضرورت کو مدنظر رکھتے ہوئے گاڑیوں کی تعداد 242 سے بڑھا کر 400 کرنے کیلئے وزارت داخلہ کو کیس بھیجا گیا ہے، آڈٹ حکام نے ایف آئی اے کے جواب کو تسلیم نہ کرتے ہوئے تحقیقات کر کے ذمہ داران کا تعین کرنے کا حکم دیدیا ہے۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔