بڑھتے ہوئے قرضے اور ملک کی موجودہ صورتحال۔۔۔!!!

عبدالرحمان منگریو  اتوار 18 اکتوبر 2020

اگست 2018تک ملک پر مجموعی قرضوں کا حجم تقریباً 25 ہزار ارب تھا جو کہ اب بڑھ کر تقریباً 36ہزار ارب ہوگیا ہے اور مقامی قرضے میں 2ہزار 86ارب کا اضافہ ہوا ہے ۔

گزشتہ حکومتوں کے دوران لیے گئے قرضوں کے اعداد و شمار کا جائزہ لینے سے پتہ چلتا ہے کہ گزشتہ 5سال میں لیے گئے قرضوں کا حجم تقریباً 1000ارب تھا اور موجودہ حکومت نے محض دو سال میں 11.3 ہزار ارب سے زیادہ قرضے لیے ہیں ، جو کہ قرضوں میں ملکی تاریخ کا تیز ترین اضافہ قرار دیا جارہا ہے ۔ صرف رواں سال کے ماہ اگست میں وفاقی حکومت کے قرض میں 104ارب روپے کا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

موجودہ حکومت کے ان دو برس میں کوئی میگا اسکیم ، کوئی نیا منصوبہ یا ترقیاتی بجٹ میں اضافہ وغیرہ نظر نہیں آتا ۔ الٹا ملک میں سبسڈیز ختم کرکے اشیائے خورو نوش کی قیمتوں میں عدم توازن کی صورتحال پیدا کرکے عوام پر مہنگائی کا پہاڑ گرا دیا گیا ہے ۔

اب صورتحال یہ ہے کہ ملک میں نہ آٹے اور چینی کی قیمتیں حکومت کے کنٹرول میں آرہی ہیں اور نہ بجلی کے نرخ پر ضابطہ قائم رکھا جاسکا ہے ۔ملک میں آٹا ، چینی ، سبزیاں ، بجلی ، پیٹرول ، گیس اور حتیٰ کہ ادویات بھی مہنگی کردی گئی ہیں ۔ حالانکہ عوام کی ضروریات زندگی کی اشیاء پر سبسڈیز براہ راست ختم کردی گئی ہیں۔

چینی کی رٹیل پرائس پر سبسڈی ختم کرکے شوگر ملز مالکان کو ذاتی فائدہ پہنچانے کے لیے اربوں روپے دے دیے گئے ۔ پیاز ، ٹماٹر اور چینی و گندم جیسی اجناس جو کل تک پاکستان کی اپنی ضروریات پوری کرنے کے بعد بیرون ِ ملک برآمد کرنے سے ملک میں افراط ِ زر میں اضافے کا باعث تھیں ، وہ آج دیگر ملکوں سے درآمد کرکے ایک طرف قومی خزانے پر بوجھ ڈالا گیا ہے تو دوسری طرف عوام کے لیے یہ چیزیں قوت ِ خرید سے باہر ہوگئی ہیں۔

رواں سال کے آغاز سے ہی کورونا کے باعث دنیا بھر میں پیٹرول کی قیمتیں گر کر مائینس میں جانے کے بعد بھی پاکستان میں یہ عوام کو تین گنا زیادہ نرخوں پر بیچنے سے حاصل شدہ منافع بھی قومی خزانے کی حالت اس قدر بھی مستحکم نہ کرسکا کہ حکومت کے گردشی قرضوں کے حجم میں ہی کوئی کمی آتی یا ملک میں گرتی ہوئی معیشت کو ہی کوئی سہارا مل پاتا ۔ حالانکہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے بھجوائی جانیوالی ترسیلات ِ زر کی رقوم علیحدہ ہیں جو کہ اسٹیٹ بینک کے مطابق ماہ ِ ستمبر میں مسلسل چوتھے مہینے 2 ارب ڈالر سے زائد رہیں۔

اس قدر بڑے پیمانے پر ترسیلات، مختلف ملکوں کی جانب سے امداد کے ساتھ ساتھ قرضہ جات کے حصول کے بعد اور ملکی ٹیکسز میں بے حد اضافے کے باوجود بھی ملک میں معیشت مستحکم نہیں ہوسکی ہے ، جس کا ثبوت رواں ماہ کے آغاز میں اسٹیٹ بینک ، عالمی مالیاتی ادارے ، عالمی بینک اور ایشین ڈویلپمنٹ بینک کی رپورٹوں سے ملتا ہے ۔ رپورٹس کے مطابق بیرونی قرضے پاکستانی معیشت کے لیے خطرناک ہے ۔

اب تو ملک میں گزشتہ حکومتوں کے جاری کردہ منصوبوں کو بھی بریک لگ چکی ہے ۔ سی پیک کی تمام اسکیموں پر کام معطل ہے ۔ حکومت اپنی معاشی غلطیوں کی سزا عوام کو دینے پر تُلی ہوئی ہے ۔ ٹیکسز میں بے تحاشہ اضافہ ، بجلی کے نرخوں میں ہر سہ ماہی بلکہ اب تو ہر ماہ اضافہ کیا جارہا ہے ۔

ملک کو آخر اتنے بڑے پیمانے پر قرضے لینے کی ضرورت کیا ہے ؟ اس کا واحد سبب ملک میں داخلی طور پر سیاسی انتظامی خلفشار کی موجودگی ہے ، جس کے باعث ملک میں بدترین مالی گھوٹالہ برپا رہتا ہے ۔

73سالہ تجربات کے بعد ایک بات ضرور واضح ہوگئی ہے کہ ملک کو مضبوط اور مستحکم بنانے کا واحد راستہ اُس دستور پر من و عن سے عمل کرنا ہے، جسے آئین ِ پاکستان کہا جاتا ہے اور جو اس وقت 18ویں ترمیم کے بعد پاکستان کے قیام کے اغراض و مقاصد کے کچھ قریب ہے ۔ اس میں نہ صرف مرکز اور صوبوں کے اختیارات ، اُمور و انتظام کا حل موجود ہے بلکہ ملک کی ان پہاڑ جیسے قرضوں سے جان آزاد کرانے اور ترقی کا حل بھی اسی آئین پر مکمل عمل کرنے میں ہے ۔ جس کا اہم ذریعہ وہ کنکرنٹ لسٹ ہے ،جس میں مرکزی و صوبائی اجزاء /آئٹمز کی تشکیل و ترتیب دی ہوئی ہے ۔

آئین کے مطابق اس لسٹ میں آئین کے مطابق مرکز اور صوبوں کے درمیان وزارتوں کی تقسیم آرٹیکل 142میں دی گئی ہے ، جس کے تحت وفاقی سرکار آئینی لسٹ میں دیے گئے آئٹمز پر جو وزارتیں تشکیل دے گی اُس کے دو حصے ہیں ۔ پہلے حصے پر عملداری وفاقی کابینہ کی اور دوسرے حصے پر مشترکہ مفادات کونسل کی ہوگی ۔اس دوسرے حصے کے لیے قانونی ماہرین کی رائے ہے کہ آئین کی روح کے مطابق وفاق کنکرنٹ لسٹ پر قانون سازی تو کرسکتا ہے مگر ان اجزاء پر آئین کی آرٹیکل 97کے تحت انتظامی عملداری صوبوں کی ہے ، جس کی خلاف ورزی اور غلط تشریح کرتے ہوئے وفاق نے کنکرنٹ لسٹ کے ان اجزاء اور کنکرنٹ لسٹ کے باہر کے صوبائی اجزاء پر کئی وزارتیں تشکیل دی گئی ہیں ۔

18ویں ترمیم کے بعد تو کنکرنٹ لسٹ میں صرف وفاقی لسٹ ہی رہ گئی ہے ۔ جو دو حصوں میں منقسم ہے ۔ اس لسٹ کے پہلے حصے پر انتظامی عملداری وفاقی کابینہ کی ہے جب کہ دوسرے حصے پر انتظامی عملداری مشترکہ مفادات کونسل کی ہے ۔وفاقی لسٹ سے باہر کے تمام اجزاء یا آئٹمز صوبوں کے ہیں ۔1935کے گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ یا 1956کے ون یونٹ آئین کے تحت تین لسٹیں تھیں جن میں وفاقی ، صوبائی اور کنکرنٹ تھیں۔ جن میں مجموعی طور پر 221آئٹمز تھے ۔

اب وفاقی لسٹ کے پارٹ 1میں 53آئٹمز ہیں اور پارٹ 2میں 18آئٹمز ہیں یعنی دونوں حصوں کے کُل ملاکر 71آئٹمز ہیںجب کہ باقی 150 آئٹمز صوبوں کے ہیں ۔ وفاقی لسٹ کے پہلے حصے کے 53آئٹمز پر تقریباً 6وزارتیں بنتی ہیں جو ہیں : دفاع ، خارجہ ، کمیونی کیشن، خزانہ ، کامرس یا بیرون ِ ملک تجارت اور قانون کی وزارتیں۔ ان میں دفاع بڑی وزارت ہے جب کہ وزارت ِ قانون بھی اکثر و بیشتر این ایف سی سے ملنے والی 1%رقم پر چلتی ہے ، جو اُسے علیحدہ ملتا ہے ۔

اسی طرح وزارت ِ خارجہ ، کمیونی کیشن ، قانون اور کامرس کی وزارتوں کو توصرف 200 ارب سے بھی کم رقم میں چلا یا جاسکتا ہے ۔اور اس میں دفاع اور قرضوں کی واپسی کے لیے مطلوبہ رقم تقریباً 3200ارب ملاکر مجموعی رقم 3400ارب بنتی ہے اور این ایف سی و نان ٹیکس ریوینیو سے تقریباً 3400ارب جتنی ہی رقم وفاق کو ملتی ہے جوکہ اُس کے تمام اُمور کے لیے کافی ہے۔ مگر حیران کن بات یہ ہے کہ وفاقی حکومت جو کہ صوبائی حکومتوں کی سپورٹنگ حکومت ہے، اُس کی 2019-20 کی بجٹ میں وفاقی سرکار کی بجٹ پانچ ہزار ارب روپے رہی ۔حالانکہ پنجاب کے 2300ارب ، سندھ کے 1217ارب، کے پی کے کے 900ارب اور بلوچستان کی بجٹ 419 ارب روپے ہے یعنی چاروں صوبوں کی مجموعی رقم بھی پانچ ہزار ارب روپے نہیں ہے۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ وفاق نے اپنی آئینی چھ وزارتوں کے بجائے مرکز میں 34وزارتیں اور کئی ڈویژن بنائی ہوئی ہیں ،جس سے اخراجات میں اضافہ ہوا ہے اور اُن اخراجات کو پورا کرنے کے لیے وفاق ایک طرف صوبوں کے حصے سے غیر قانونی کٹوتی کرتا رہتا ہے تو دوسری طرف بے تحاشہ قرضے لے کر ملکی معیشت کو تباہ کرنے کا باعث بنا ہوا ہے ۔

آئینی و قانونی ماہرین کا خیال ہے کہ وفاق اپنی ضرورت سے زیادہ محکمے بناکر غیر ضروری اخراجات بڑھانے کا مرتکب ہوا ہے۔ اب ان محکموں کو چلانے کے لیے بھاری قرضے لیتا ہے ، جس کے باعث ملک پر مسلسل معاشی بوجھ بڑھتا ہی جارہا ہے ۔ ابھی ہم پر بڑی ذمے داریاں ہیں ، حصول ِ پاکستان کے مقابلے میں اس ملک کی تعمیر پر کہیں زیادہ کوششیں صرف کرنی ہیں اور اس کے لیے قربانیاں بھی دینی ہیں ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔