ایک تکلیف دہ سفر

شیریں حیدر  اتوار 18 اکتوبر 2020
Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

ایک بچہ جب دنیا میں آتا ہے تو اس کے ذہن کی سلیٹ خالی کینوس کی طرح ہوتی ہے، جس میں احساسات تو تھوڑے بہت ہوتے ہیں مگر جذبات نہیں ہوتے ۔ اس کے پاس دیکھنے، بولنے، سننے، سونگھنے اور ذائقے کی بنیادی حسیں ہوتی ہیں، جنھیں بالترتیب بصارت، گویائی، سماعت، شامہ اور ذائقہ کی حسیں کہتے ہیں۔

ان حسیات کا اس کے پاس اسی قدر استعمال ہوتا ہے کہ وہ اپنی ماں کو اس کی خوشبو سے اور بعد ازاں جب کچھ ماہ کا وقت گزرتا ہے تو چہرے سے پہچانتا ہے ۔ وہ سائے اور ہیولے دیکھ سکتا ہے اور چند ماہ گزرتے ہیں تووہ ہیولے اس کے آشنا رشتے بن جاتے ہیں ۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کی حسیات تیز اور بامعنی ہونے لگتی ہیں۔

جذبات پیدائشی نہیں ہوتے بلکہ ماحول، رویے، تربیت اور تجربات سے بنتے اور ہماری شخصیت کی تخلیق کرتے ہیں ۔ محبت، نفرت، غصہ، بے چینی، ڈر اور خوف اور دیگر جذبات وقت کے ساتھ ساتھ شخصیت کا حصہ اور پہچان بنتے جاتے ہیں ۔ ایک بچہ کورا کاغذ ہوتا ہے اس میں ایسے جذبات نہیں ہوتے، اسے صرف ایک طلب ہوتی ہے کہ وقت پر پیٹ بھر جائے، نیند پوری ہوجائے اور کپڑے خشک اور آرام دہ ہوں ۔

آپ یقین کریں کہ کسی مہلک، موذی یا کسی جان لیوا بیماری کا مریض اس وقت تک اسی معصوم بچے کی طرح ہوتا ہے جسے نہ کاکروچ سے ڈر لگتا ہے، نہ مکوڑے سے، نہ بلی کتے سے اور نہ شیر سے۔ جس وقت انسان کو اپنی بیماری کی نوعیت اور اس کے ممکنہ مہلک اثرات کا علم ہوتا ہے اور اس بیماری کی اس کے جسم میں تصدیق ہوتی ہے تو اس کی آدھی طاقت اسی وقت اس کے جسم سے نچڑ جاتی ہے۔

میڈیا اور انٹر نیٹ نے ہمیں یہ سہولت دے رکھی ہے کہ ہمیں جسم کے کسی بھی حصے میں درد ہوتو ہم فوراً ’’ڈاکٹر گوگل‘‘ سے رابطہ کرتے ہیں تو ہمیں علم ہو جاتا ہے کہ ہمیں کون کون سی بڑی بیماری لاحق ہونے کا امکان موجود ہے۔ جوں جوں ہم پڑھتے جاتے ہیں، بیماری کی دیگر علامات خود بخود ہمارے جسم میں پیدا ہونے لگتی ہیں اور نفسیاتی طور پر ہم اس میں نیم مبتلا ہوجاتے ہیں ۔

اس وقت کورونا دنیا بھر میں ایک ایسے عفریت کی طرح ہے کہ اس سے زیادہ اس کا خوف پھیلا ہواہے۔ جوں جوں وقت گزرنے لگا اور اندازہ ہوا کہ لوگ اس سے صحت یاب بھی ہو رہے ہیں تو تھوڑا خوف کم ہوا۔ یوں بھی ہر چیزکا ایک نکتہء عروج آتا ہے اور اس کے بعد اس میں کمی واقعہ ہونے لگتی ہے، یہی عالم ہمارے خوف کا بھی ہوا، اگست کے بعدسے احتیاطیات میں کمی واقع ہونے لگی تھی۔ یوں بھی، ’’ ڈرنا نہیں ہے، لڑنا ہے ! ‘‘ کا نعرہ لگا کر جب عید سے ایک چند دن پہلے کورونا کے باوجود عوام کو مکمل ڈھیل دے دی گئی تو ہر کسی نے سوچنا شروع کر دیا کہ ایک میرے احتیاط کرنے سے کیا ہوگا۔

یہی ایک وجہ ہے کہ جس کے باعث نہ صرف ہمارے ہاں بلکہ دنیا بھر میں بے احتیاطی کی ایک ایسی لہر آئی ہے جس نے پہلے سے زیادہ لوگوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور جب ایسے لوگ بھی زد میں آ گئے جو کہ کورونا پر سرے سے یقین ہی نہیں رکھتے اور خود کوسپر پاور بھی سمجھتے ہیں تو عام لوگ کس کھیت کی مولی ہیں۔ جب اپنا کورونا کا ٹسٹ مثبت آیا تو اس وقت کوئی بھی ایسا عدد یاد نہیں آ رہا تھا کہ کتنے فیصد لوگ اس بیماری کا مقابلہ کرکے صحت یاب ہوئے تھے… صرف وہ لوگ اور خبریں نظروں کے سامنے چل رہی تھیں جنھیں وینٹی لیٹر پر ڈال دیا گیا تھا یا جو کہ اس بیماری کے باعث مرحوم ہو چکے تھے۔

کچھ اچھا خیال نہیں آ رہا تھا، کوشش کے باوجود آنسو نہیں رک رہے تھے کہ کیا ہونے والا تھا۔ پہلے پہل جب کوئی بھی نئی بیماری آتی ہے تو اس کے بارے میں معلومات ناقص اور نا مکمل ہوتی ہیں۔ اس سے قبل جب ہماری رپورٹ میں کورونا نہیں آیا تھا جو کہ کسی غلط کٹ (kit ) کی وجہ سے تھا غالباً تو خون کے ٹسٹ کروانے پر ٹائیفائیڈ آیا تھا اور اسی نہج پر علاج ہو رہا تھا۔ اس دوران اپنے بچے اور دوست احباب کال کرتے کہ خیریت پوچھیں تو ان کا پہلا سوال ہوتا تھا، ’’ حیرت ہے آپ کوٹائیفائیڈ ہو گیا، کہاں سے کچھ کھا لیا، کیا غلط کھا لیا؟ ‘‘ بچے بھی بار بار سوال کرتے کہ یاد کریں کس دن ، کہاں سے اور کیا کھایا تھا جس کے بعد طبیعت خراب ہوئی تا کہ اندازہ ہو کہ اس دن وہی کھانا کھانے والا کوئی اور بھی بیمار ہوا کہ نہیں۔

ان سوالوں کا سامنا بھی ہم بڑی شرمندگی سے کرتے تھے اور اتنے دن پہلے ، کہاں اور کیا کھایا تھا، وہ یاد کرنا بھی مشکل تھا۔ جب طبیعت نہیں سنبھل رہی تھی تو ڈاکٹر کے پاس گئے اور اس نے بھی رپورٹ دیکھتے ہی سب سے پہلے یہی کہا تھا، ’’آپ سے تو توقع نہیں کی جاسکتی کہ آپ کو ٹائیفائیڈ ہو سکتا ہے! ‘‘ گویا ٹائیفائیڈ ہونے کے لیے انسانوں کی کوئی مختلف قسم ہونا چاہیے۔

عام معمول میں تو ہر شخص کوئی نہ کوئی ایسی بے احتیاطی کر لیتا ہے کہ اس سے الٹیاں یا دست وغیرہ لگ جاتے ہیں، کہیں بے دھوئے کوئی چیز کھا لیں، کسی ایسے ٹھیلے سے کچھ خرید لیا کہ ٹھیلے والا بیمار تھا، کسی دعوت ، شادی بیاہ یا مرگ والے گھر میں کہیں ناقص گوشت کھا لیا، کسی کے گھر ایسا کھانا کھا لیا جائے جو کہ حفظان صحت کے اصولوں کے مطابق نہ بنا ہو اور اپنے گھر میں بھی بسا اوقات ایسا ہو جاتا ہے کہ کھانا پکا کر فرج سے باہر رہ گیا یا گرمی سے خراب ہو گیا اور اسے کھا لیا جائے تو آدمی بیمار پڑ سکتا ہے۔مگر جب سے کورونا کا وبال شروع ہوا ہے گھروں سے باہر کھانے پہلے جو کئی ماہ اس لیے بھی بند رہے کہ تمام ہوٹل اور ریستوران بند تھے ۔

پھر جب وہ کھلے بھی تو صرف وہاں سے کھانا وصول کیا جاسکتا تھا، اندر بیٹھ کر نہیں کھایا جا سکتا تھا۔ اس پہلے اور دوسرے دورمیں باہر کا کھانا تقریباً ہمارے ہاں بند رہا تھااور اللہ کے فضل سے سب کی صحت بھی عام حالات سے بہتر تھی۔ جب کھانا گھر پر منگوانے کی آپشن کھل بھی گئی تو ہمارے ہاں مہینے میں ایک آدھ بار ہی کھانا باہر سے منگوایا جاتا تھااور وہ بھی انتہائی مجبوری کے باعث۔ ہاں اب جب کہیں سے کھانا یا کچھ بھی خریدکر کھاتے ہیں تو اس پر کئی آیتیں اور سورتیں پھونک کر اسے اپنی دانست میں بیماری کے جراثیم سے ’’ پاک‘‘ بھی کر لیتے ہیں اور اس پر ہمیں دل سے یقین ہوتا ہے ۔

بیماری تو اللہ تعالی کی طرف سے آزمائش ہے اور جسم کی زکوۃ بھی۔ بیماری میں انسان کے گناہ بھی دھلتے ہیں اور بیمار کی دعا میں بھی قبولیت ہوتی ہے ۔ اب یہ نئی مشکل کا سامنا تھا… صاحب کو پکارا، وہ متوجہ ہوئے۔ ’’ میں سوچ رہی تھی کہ کیا ہم اپنے بچوں اور دوست احباب کو بتائیں کہ ہم دونوں کورونا میں مبتلا ہو گئے ہیں؟ میرا مطلب ہے کہ انھیں سچ بتا دیا جائے؟‘‘

’’ کیوں، بچوں سے یا کسی اور سے کیوں چھپانا ہے؟ ‘‘ صاحب نے حیرت سے پوچھا، ’’ اسے کس طرح چھپایا جا سکتا ہے اور اسے چھپا کر ہم دوسروں کو خطرے میں کیوں ڈالیں ؟ ‘‘ انھوں نے میرے ان خیالات کو زبان دے دی تھی جو میرے ذہن میں تمام خدشات کے ساتھ موجود تھے۔ لوگوں کے کس کس سوال کا جواب دیں گے…

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔