اقربا پروری میں لالی ووڈ بھی کسی سے کم نہیں!

زنیرہ ضیاء  اتوار 25 اکتوبر 2020
لالی ووڈ میں اقربا پروری عروج پر ہے اور نئے ٹیلنٹ کو سامنے آنے ہی نہیں دیا جارہا۔ (فوٹو: فائل)

لالی ووڈ میں اقربا پروری عروج پر ہے اور نئے ٹیلنٹ کو سامنے آنے ہی نہیں دیا جارہا۔ (فوٹو: فائل)

سشانت سنگھ راجپوت کی خودکشی پر پاکستانی شوبز سے وابستہ افراد خوب شور مچا رہے ہیں۔ اور بالی ووڈ میں اقربا پروری، المعروف ’’نیپوٹزم‘‘ پر خوب لعن طعن کررہے ہیں۔ لیکن سچ تو یہ ہے کہ اقربا پروری کا یہ کینسر سرحد کے دونوں طرف یکساں طور پر موجود ہے۔ یہاں تک کہا جاسکتا ہے کہ بھارتی فلم انڈسٹری میں تو پھر بھی ٹیلنٹ کو جلد یا بدیر شناخت اور مقام مل جاتا ہے، لیکن پاکستان میں اقربا پروری کا یہ زہر اتنی گہرائی تک پھیلا ہوا ہے کہ تقریباً ہر ڈرامے اور فلم میں آپ کو اقربا پروری کی نمائندگی کرتی ہوئی کسی مشہور فنکار کی اولاد ضرور نظر آئے گی۔

شوبز اور اسٹائل کی دنیا میں اقربا پروری بالکل کسی گاؤں کے فیوڈل لارڈ کی طرح ہے، جس کے سامنے کسی کو پنپنے کا موقع ہی نہیں دیا جاتا۔ یہ ایسا جاگیردارانہ نظام ہے جس میں باپ کے بعد اس کی جگہ اس کا بیٹا یا بیٹی ہی لیں گے چاہے ان میں ٹیلنٹ ہو یا نہیں لیکن کسی باہر والے کو موقع نہیں دیا جاتا۔

لالی ووڈ میں اقرباپروری جیسی زہریلی وبا کے بارے میں کوئی اس لیے کُھل کر بات نہیں کرتا کیونکہ پاکستان شوبز انڈسٹری بالی ووڈ کے مقابلے میں بہت چھوٹی ہے، لہٰذا یہاں بات کرنے کے لیے ابھی اتنے لوگ موجود نہیں جن کی آواز کی گونج اسٹائل اور فیشن کی اس دنیا میں تھرتھراہٹ پیدا کردے۔

بشریٰ انصاری کا خاندان

پاکستان شوبز انڈسٹری کو انڈسٹری کے بجائے شوبز فیملی کہا جائے تو زیادہ مناسب ہوگا۔ کیونکہ یہ ایک چھوٹی سی فیملی ہی تو ہے، جہاں شوبز کے نام نہاد کرتا دھرتا نئے ٹیلنٹ کے سامنے اپنی فیملی اور اپنے رشتے داروں کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ اس کی سب سے بڑی مثال آج کل ایک نجی چینل پر چلنے والا ڈراما ’’زیبائش‘‘ ہے، جس میں اداکارہ بشریٰ انصاری کی تقریباً ساری ہی فیملی موجود ہے۔ ڈراما ’’زیبائش‘‘ کو لکھا بھی بشریٰ انصاری نے ہے اور مرکزی کردار بھی وہی ادا کررہی ہیں۔ ڈرامے میں اسما عباس بشریٰ انصاری کی بہن، نادرہ رانی کا کردار ادا کررہی ہیں اور حقیقت میں بھی اسما عباس بشریٰ انصاری کی بہن ہیں۔ اداکارہ زارا نور عباس اسما عباس کی بیٹی اور بشریٰ انصاری کی بھانجی ہیں اور ڈرامے میں بھی ان کا کردار یہی ہے۔ ڈرامے میں اسد صدیقی بھی موجود ہیں جو حقیقت میں زارا نور عباس کے شوہر ہیں اور ڈرامے میں بھی غالباً ان کا یہی کردار ہے۔ اس کے علاوہ اس ڈرامے میں بشریٰ انصاری کے مبینہ دوسرے شوہر اقبال حسین بھی موجود ہیں۔ یہ ڈراما پاکستان شوبز میں ’اقربا پروری‘ جیسی زہریلی وبا کی بہترین مثال ہے۔

جاوید شیخ کا خاندان

پاکستان شوبز انڈسٹری کے جانے مانے اداکار جاوید شیخ کو کون نہیں جانتا۔ وہ کئی کامیاب پاکستانی فلموں میں اداکاری کرنے کے ساتھ ساتھ بالی ووڈ میں بھی اداکاری کے جوہر دکھا چکے ہیں۔ جاوید شیخ کے بچے شہزاد شیخ اور مومل شیخ تقریباً ہر تیسرے پاکستانی ڈرامے میں نظر آتے ہیں۔ یہاں تک کہ مومل شیخ تو اپنے والد کے نام پر ایک فلاپ بالی ووڈ فلم ’’ہیپی بھاگ جائے گی‘‘ میں بھی اداکاری کرچکی ہیں۔

بہروز سبزواری کا خاندان

اس میں کوئی شک نہیں کہ بہروز سبزواری پاکستان کے بہت ہی باصلاحیت اداکار ہیں۔ اور ان کے کیریئر میں ’’خدا کی بستی‘‘، ’’ان کہی‘‘، ’’تنہائیاں‘‘، ’’ہمسفر‘‘ اور ’’زندگی گلزار ہے‘‘ سمیت نجانے کتنے ڈرامے کسی میڈل کی طرح سج رہے ہیں۔ لیکن ایسا لگتا ہے ماضی کے ان بڑے اداکاروں کا کامیاب ہونے کے بعد صرف ایک ہی مقصد ہوتا ہے کہ کسی طرح اپنے بچوں کی بھی انڈسٹری میں جگہ بنانا، اب چاہے انہیں اداکاری آتی ہو یا نہیں اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔

بہروز سبزواری کا بیٹا شہروز سبزواری اپنے والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے پچھلے کئی برسوں سے شوبز انڈسٹری میں موجود ہے۔ تاہم شہروز سبزواری کی اداکاری کو اگر اوسط درجے کی اداکاری کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ کیونکہ چھوٹا سبزواری اب تک کسی قابل ذکر ڈرامے میں اداکاری نہیں کرسکا، جس میں اس کے کردار کو مدتوں یاد رکھا جائے۔ حالانکہ شہروز نے ایک دو فلموں میں بھی کام کیا ہے جن میں فلم’’چین آئے نا‘‘ تو بہت بڑی فلاپ ثابت ہوئی تھی۔ شہروز سبزواری اپنی اداکاری سے زیادہ طلاق اور دوسری شادی کے لیے مشہور ہیں۔

یاسر نواز کا خاندان

یاسر نواز بھی شوبز انڈسٹری کا حصہ اپنے والد فرید نواز بلوچ مرحوم کی وجہ سے بنے۔ ان کے والد اداکار اور ڈائریکٹر تھے۔ یاسر نواز کے چھوٹے بھائی دانش نواز بھی شوبز کا حصہ ہیں، لیکن ان کے کیریئر میں سوائے مزاحیہ ڈرامے’’نادانیاں‘‘ کے اور کوئی خاص قابل ذکر کام نہیں۔ اور یہ ڈراما بھی انہیں صرف اس لیے ملا کیونکہ یہ ان کے گھر کی پروڈکشن تھا۔ یعنی اسے ان کے بڑے بھائی یاسر نواز نے ڈائریکٹ، بھابھی ندا یاسر نے پروڈیوس کیا تھا اور ڈرامے کے مرکزی کردار بھی ان تینوں نے ہی نبھائے تھے۔

مزے کی بات تو یہ ہے کہ ندا یاسر خود اقربا پروری کی کُھلی مثال ہیں۔ وہ پی ٹی وی کے ڈائریکٹر و پروڈیوسر کاظم پاشا کی بیٹی ہیں۔ لہٰذا یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ کسی ڈائریکٹر کی اولاد ہو اور شوبز میں نہ آئے، اسی لیے ندا یاسر بھی گزشتہ کئی برسوں سے شوبز میں ہیں۔

آصف رضامیر کا خاندان

آصف رضا میر کا شمار بھی پاکستان شوبز انڈسٹری کے معروف اداکاروں میں ہوتا ہے جو انڈسٹری میں 80 کی دہائی سے فعال ہیں۔ آصف رضا میر کا بیٹا احد رضا میر پاکستانی نژاد کینیڈین شہری ہے، جس نے 2010 میں ڈراما سیریل ’’خاموشیاں‘‘ سے محض 17 برس کی عمر میں کیریئر کا آغاز کیا۔ ارے اس عمر میں تو بچوں کو پروڈکشن ہاؤسز کے باہر بھی پھٹکنے نہیں دیا جاتا اور انہوں نے ڈرامے میں بھی کام کرلیا، واہ بھئی زبردست۔

اگر میری رائے مانی جائے تو احد رضا میر دیکھنے میں کوئی خاص پرکشش شخصیت کے مالک نہیں ہیں۔ بس اوسط درجے کی ہی پرسنالٹی ہے۔ وہ ولیئم شیکسپیئر کے لکھے ہوئے تھیٹر ڈرامے ’’ہیملیٹ‘‘ میں اداکاری کرنے کے باعث بیٹی مچل ایوارڈ بھی جیت چکے ہیں۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ انہیں پاکستانی شوبز انڈسٹری میں اپنے والد کی وجہ سے کافی فائدہ  حاصل ہوا، جو شاید کسی نئے اداکار کو تو ہرگز نہ ہوتا۔

سجل علی

بڑی بڑی خوبصورت  آنکھوں والی سجل علی اپنی محنت، اداکاری اور لگن سے شوبز میں نام بناچکی ہیں۔ یہاں تک کہ وہ بالی ووڈ میں بھی اداکاری کرکے داد سمیٹ چکی ہیں۔ تاہم ان کی چھوٹی بہن صبور علی شوبز میں وہ مقام حاصل نہ کرسکیں جو سجل کو حاصل ہے۔ صبور علی کی اداکاری کی اگر بات کی جائے تو ان کی اداکاری بس اوسط درجے کی ہی ہے۔ ان کی کیریئر لسٹ میں ایسا کوئی خاص قابل ذکر ڈراما بھی نہیں جو ان کی وجہ شہرت بنا ہو لیکن وہ ابھی بھی شوبز میں ٹکی ہوئی ہیں، حیرت ہے!

شہریار منور صدیقی، میشا شفیع، صبا حمید

اداکار شہریار منور ہم ٹی وی کی سی ای او سلطانہ صدیقی کے بھتیجے ہیں۔ اور شوبز انڈسٹری میں کام حاصل کرنے کے لیے یہ حوالہ کافی ہے۔ اداکارہ صباحمید کی مثال لے لیجئے ان کی بیٹی میشا شفیع بھی شوبز کا حصہ ہے اور بیٹا فارس شفیع بھی۔ اسی طرح صبا حمید کے شوہر وسیم عباس کا بیٹا علی عباس بھی اپنے والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اس فیلڈ میں جگہ بنانے کی کوششوں میں ہے۔ لیکن باوجود کوشش کے ابھی تک علی عباس اور فارس شفیع اس فیلڈ میں کوئی خاص مقام نہ بناسکے۔ کیونکہ ماں باپ کے نام کے ساتھ ٹیلنٹ ہونا بھی تو ضروری ہے ناں!

فیصل قریشی، مہوش حیات

اداکار فیصل قریشی ٹی وی اداکارہ افشاں قریشی کے بیٹے ہیں۔ مہوش حیات معروف ڈراما آرٹسٹ رخصار حیات کی بیٹی ہیں۔ اور شوبز تک جانے کا راستہ انہیں ان کی والدہ نے ہی دکھایا۔ یہ تمام اداکار نیپوٹزم کی پیداوار ہیں جن کے والدین یا رشتے داروں کے تعلقات پہلے سے شوبز میں ہیں۔

ویسے تو میڈیا شوبز انڈسٹری میں ’’نیپوٹزم‘‘ کو بہت برا بھلا کہتا ہے۔ لیکن اقربا پروری کو بڑھانے میں سب سے بڑا ہاتھ میڈیا کا ہی ہے۔ شوبز سے تعلق رکھنے والے نامور فنکاروں کے بچے جنہیں عرف عام میں’’اسٹار کڈز یا نیپوکڈز‘‘ کہا جاتا ہے۔ انہیں اہمیت سب سے زیادہ میڈیا سے ہی ملتی ہے۔ اس کی مثال بالی ووڈ اداکارہ کرینہ کپور اور سیف علی خان کا تین سالہ بیٹا تیمورعلی خان ہے جسے اس کی پیدائش سے پہلے ہی بھارتی میڈیا نے بالی ووڈ کا اگلا سپر اسٹار قرار دے دیا تھا۔

اب ہمارے یہاں بھی یہ روایت چل پڑی ہے، جس کی مثال ایمن اور منیب بٹ کی بیٹی امل منیب ہے۔  پچھلے دنوں امل منیب کی پہلی سالگرہ کا جشن اس کے گھر والوں کے ساتھ پاکستانی سوشل میڈیا پر بھی لگاتار تین چار دنوں تک منایا گیا۔ اور یہ جشن منانے والے کون تھے، پاکستانی میڈیا ہی تو تھا۔ امل منیب کی سالگرہ کی تصاویر اور ویڈیوز لگاتار تین چار دن تک ہر بڑی ویب سائٹ کی زینت بنیں۔ کوئی پوچھے اس میڈیا سے کہ بھئی ایسا کیا کردیا تھا اس ایک سال کی بچی نے جسے اتنی اہمیت دی گئی، صرف پیدا ہی تو ہوئی ہے۔

پاکستان شوبز انڈسٹری کی بدقسمتی یہ ہے کہ یہاں چند مخصوص خاندان برسوں سے راج کررہے ہیں۔ ہاں ڈراموں میں نئے فنکاروں کی بھی انٹری ہوئی ہے۔ لیکن زیادہ غلبہ مشہور اداکار، پروڈیوسر اور ڈائریکٹرز کے رشتے داروں اور ان کی اولاد کا ہے۔ دوسری بات! ہمارے یہاں آج بھی اداکاری جیسے شعبے کو دوسرے درجے کا شعبہ قرار دیا جاتا ہے۔ اور یہاں اس کام کو زیادہ سنجیدہ نہیں لیا جاتا۔ لہٰذا یہاں نہ تو اداکاری کی تربیت دینے والے اسکولز ہیں۔ اور نہ کوئی ایسا ادارہ جہاں نئے لوگ اداکاری کی تربیت حاصل کرکے اس فیلڈ میں قدم جمانے کی کوشش کریں۔

کراچی میں صرف ایک ناپا ہے لیکن وہ بھی اتنا مہنگا کہ کچھ لوگ تو وہاں جانے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ لہٰذا لے دے کر صرف ایک یوٹیوب بچتی ہے، جہاں نوجوان اپنا ٹیلنٹ دکھا سکتے ہیں اور دکھا رہے ہیں۔ پاکستان کے کئی یوٹیوبرز، یوٹیوب پر اچھا کام کرکے اپنے طور پر خود کو منوا رہے ہیں۔ جس کی مثال یوٹیوبر ارسلان نصیر ہے جو اب بہت جلد ایک پاکستانی ڈرامے میں نظر آئیں گے۔

اسی طرح یوٹیوبر تیمور صلاح الدین (مورو) بھی چند ایک ویڈیو البم میں نظر آئے ہیں لیکن نہ ہونے کے برابر۔ یوٹیوبر دانش علی کی ویڈیوز دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ وہ  نہ صرف بہترین کامیڈی کرسکتے ہیں بلکہ ان کے اندر ایک بہت اچھا اداکار بھی چھپا ہوا ہے۔

نیپوٹزم یا اقربا پروری کو بڑھاوا دینے کے نتائج آج بالی ووڈ انڈسٹری بہت اچھی طرح بھگت رہی ہے۔ سشانت سنگھ کی موت کے بعد بھارتی عوام فلم ڈائریکٹر، پروڈیوسرز اور فنکاروں کی اولاد کا نہ صرف بائیکاٹ کررہے ہیں۔ بلکہ صورتحال تو یہ ہے کہ بھارتی میڈیا بھی اس جنگ میں بڑھ چڑھ کر نیپوٹزم کے خلاف بات کررہا ہے۔ جس کے باعث بھارتی فلم انڈسٹری کے در و دیوار ہل کر رہ گئے ہیں۔ اس لیے مجھے ڈر ہے کہ کہیں پاکستان شوبز انڈسٹری، جس نے ابھی ابھی دوبارہ سانس لینا شروع کی ہے، اس کا حال بھی بالی ووڈ کی طرح نہ ہوجائے۔ کیونکہ یہاں ’’اندھا بانٹے ریوڑیاں اپنے اپنوں کو‘‘ کے تحت اپنے رشتے داروں اور اولاد کو نوازا جارہا ہے اور نئے ٹیلنٹ کو سامنے آنے ہی نہیں دیا جارہا اور نہ ہی ان کے لیے کوئی ایسا پلیٹ فارم مہیا کیا جارہا ہے جہاں وہ اپنی صلاحیتوں کو کُھل کر عوام کو دکھا سکیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

زنیرہ ضیاء

زنیرہ ضیاء

بلاگر شوبز تجزیہ نگار ہیں۔ ان سے ای میل ایڈریس [email protected] پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔ جبکہ ٹوئٹر ہینڈل @ZunairaGhori اور انسٹاگرام آئی ڈی zunairazia_official پر بھی انہیں فالو کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔