- سینئر وزیر سندھ شرجیل میمن کی زیرصدارت محکمہ ٹرانسپورٹ کا اعلیٰ سطح اجلاس
- قومی ٹیم کی کوچنگ؛ جیسن گلیسپی اہم فیصلہ کرلیا
- پشاور؛ صوبائی وزیر و دیگر کے نام ای سی ایل سے نکالنے کیلیے حکومت سے جواب طلب
- سوئی ناردرن کی گیس قیمتوں میں اضافے پر وضاحت
- کراچی؛ اورنج اور گرین لائن کو جوڑنے کے لئے شٹل سروس شروع کرنے کا فیصلہ
- قادیانی شہری ضمانت کیس؛ علماء سے 2 ہفتے میں تحریری رائے طلب
- سویلین ٹرائلز؛ سپریم کورٹ کی فوجی عدالتوں کو محفوظ شدہ فیصلے سنانے کی مشروط اجازت
- ایف بی آر سے کرپشن کے خاتمے کیلیے خفیہ ایجنسی کو ٹاسک دیدیا گیا
- کاکول ٹریننگ کیمپ؛ اعظم خان 2 کلومیٹر ریس میں مشکلات کا شکار
- اسٹاک ایکسچینج؛ 100 انڈیکس ملکی تاریخ کی نئی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا
- بجلی ایک ماہ کیلیے 5روپے فی یونٹ مہنگی کر دی گئی
- کھلاڑیوں کی ادائیگیوں کا معاملہ؛ بورڈ نے فیکا کے الزامات کو مسترد کردیا
- پی ٹی آئی (پی) کی مخصوص نشستوں کا معاملہ، الیکشن کمیشن حکام فوری ہائیکورٹ طلب
- حساس ادارے کے دفترکے گیٹ پرحملہ، پی ٹی آئی کارکنان دوبارہ زیرحراست
- اُم المومنین سیّدہ عائشہؓ کے فضائل و محاسن
- معرکۂ بدر میں نوجوانوں کا کردار
- غزوۂ بدر یوم ُالفرقان
- ملکہ ٔ کاشانۂ نبوتؐ
- آئی پی ایل2024؛ ممبئی انڈینز، سن رائزرز حیدرآباد کے میچ میں ریکارڈز کی برسات
- عورت ہی مجرم کیوں؟
شمسی توانائی کے لیے سلیکن کو بھول جائیں، پروسکائٹ یاد رکھیں
آکسفورڈ: وہ دن دور نہیں جب شمسی سیلوں کی تیاری کے لیے روایتی سلیکن کا استعمال کم ہوجائے گا کیونکہ اب اس سے زائد خوبیوں والے ایک اور مٹیریئل سے بہت امید افزا نتائج ملے ہیں۔
اس مادے کے گروپ کو مجموعی طور پر پروسکائٹس کہا جاتا ہے۔ یہ کم خرچ اور اتنے لچک دار ہوں گے کہ انہیں کاروں اور عمارتوں کے گرد لپیٹا جاسکتا ہے۔
1950ء سے منظرِ عام پر آنے والے بہترین سلیکن شمسی سیل بھی دھوپ کی 22 فیصد مقدار کو توانائی میں بدل سکتے ہیں تاہم آکسفرڈ یونیورسٹی میں تحقیق کے بعد قائم کی جانے والی ایک کمپنی آکسفرڈ پی وی نے پروسکائٹ کی ایک پرت عام سلیکن پر چڑھائی تو اس سے بننے والی شمسی سیل کی صلاحیت 28 فیصد تک پہنچ گئی۔
توقع ہے کہ بہت جلد اسے 40 فیصد یا اس سے بھی بلند سطح پر پہنچایا جاسکتا ہے۔ اگریہ ممکن ہوجاتا ہے تو آج کے بہترین شمسی سیل سے بھی دگنی صلاحیت کے سیل بنائے جاسکیں گے۔
اس طرح نصف سولر پینل عین اپنے سے دگنے پینل کے برابر کم خرچ بجلی فراہم کرسکیں گے۔ اس سے زمین، مزدوری اور دیگر اشیا کی زبردست بچت ممکن ہوسکے گی۔ اس پر تحقیق کرنے والے مرکزی سائنس داں، ہینری سنیتھ کہتے ہیں کہ پوری دنیا میں شمسی سیلوں کی افادیت بڑھانے پر کام ہورہا ہے اور ہم نے پروسکائٹ سے یہ کام لیا ہے۔
پروسکائٹ 1839ء میں دریافت ہوئے تھے اور انہیں زمین پر جگہ جگہ موجود سستی معدنیات سے حاصل کیا جاسکتا ہے۔ یہاں تک کہ سلیکن پر لگانے کے بعد بادلوں اور کمرے کے اندر بھی بجلی فراہم کرنے کی صلاحیت متاثر نہیں ہوتی۔ پروسکائٹ کو اب تھری ڈی پرنٹر سے بھی بنایا جاسکتا ہے۔
اس طرح انہیں بجلی کے کھمبوں، عام اشیا اور فرنیچر پر بھی لگایا جاسکتا ہے۔ آکسفرڈ پی وی کمپنی اگلے سال سے باقاعدہ تجارتی طور پر پروسکائٹ کی تیاری شروع کرے گی۔ اس کے لیے جرمنی میں ایک کمپنی بنائی گی ہے۔ ابتدائی مرحلے میں گھریلو سولر پینل پر 1000 ڈالر کی بچت ممکن ہوسکے گی جبکہ توانائی پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔