آسٹریلیا: ایک سال میں سات افراد شارک کا نوالہ بن گئے

ویب ڈیسک  جمعرات 22 اکتوبر 2020
اکتوبر کی صبح ساتویں سرفر کی لاش بھی نہ مل سکی اور یوں 86 سال بعد شارک حملے کے ریکارڈ واقعات سامنے آئے (فوٹو: فائل)

اکتوبر کی صبح ساتویں سرفر کی لاش بھی نہ مل سکی اور یوں 86 سال بعد شارک حملے کے ریکارڈ واقعات سامنے آئے (فوٹو: فائل)

آکلینڈ: سال 1934ء کے بعد سے اب تک آسٹریلیا میں شارک حملوں کے سب سے زیادہ واقعات پیش آئے ہیں سال ختم ہونے میں دو ماہ باقی ہیں لیکن 7 افراد اب تک شارک کا نوالہ بن چکے ہیں۔

آسٹریلوی میڈیا کے مطابق آخری واقعہ اکتوبر 2020ء کے آغاز پر پیش آیا جس میں تختے پر تیرنے والا ایک شخص غائب ہوگیا اور اس کی لاش تک نہ مل سکی۔ اسی طرح جنوری میں ایک غوطہ خور غائب ہوگیا تھا۔ اس سے قبل سال میں ایک یا دو واقعات ہی ہوتے رہے ہیں تاہم 1929ء میں نو افراد شارک نے مارڈالے تھے۔

کیا آب و ہوا میں تبدیلی اس کی وجہ ہے؟

بہت سے ماہرین کا خیال ہے کہ آب و ہوا میں تبدیلی کے تحت سمندری درجہ حرارت میں اضافہ بھی ان حملوں کی وجہ ہوسکتا ہے۔ سمندر گرم ہونے سے شارک ساحلوں کی جانب آرہی ہیں اور وہ انسانوں کا شکار کررہی ہیں۔ واضح رہے کہ آسٹریلیا میں کلائمٹ چینج کے کئی مظاہر دیکھے جاچکے ہیں جن میں جنگلات کی آگ اور شدید خشک سالی سرِ فہرست ہیں۔

ماہرین کہہ چکے ہیں کہ بڑھتے درجہ حرارت سے سمندروں کا پانی تیزابی ہورہا ہے جو سمندر کے ہر جاندار کے لیے ایک عتاب بنا ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بے زبان جانور اب ٹھنڈے پانیوں کی تلاش میں کم گہرے پانیوں میں آرہے ہیں۔ صرف آسٹریلیا میں ہی پیلی دم والی کنگ فش اپنا گھر بدل چکی ہے۔ اب سڈنی کی مشہور آکٹوپس کوئنزلینڈ سے تسمانیہ جارہی ہے۔

اسی وجہ سے ماہرین کا خیال ہے کہ شارک بھی عین آب وہوا میں تبدیلی کی شکار ہوئی ہے اور وہ ساحلوں کا رخ کرکے انسانوں کو نقصان پہنچا رہی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔