نیشنل ہائی ویز اینڈ موٹروے پولیس... ایک مثالی ادارہ

سید مشرف شاہ  منگل 20 اکتوبر 2020
حادثات میں نمایاں کمی ہوئی، پولیس کلچر میں مثبت تبدیلیاں آئیں

حادثات میں نمایاں کمی ہوئی، پولیس کلچر میں مثبت تبدیلیاں آئیں

 لاہور:  1997ء کا سال پاکستانی پو لیس کی تاریخ میں تبدیلی کا سال تھا، جب ایک جدید اور منظم پولیس فورس کو ٹریفک مینجمنٹ کے انتظام کے ساتھ منسلک کرتے ہوئے جنوبی ایشیاء کی پہلی مو ٹروےM-2 لاہور اسلام آباد پر تعینات کیا گیا۔ یہ نئی فورس اور موٹروے پولیس کا اِدارہ بعد ازاں پاکستا ن میں پولیس کے نظام میں انقلابی تبدیلیوں کا باعث بنا اور وطن عزیزکے باقی اداروں کے لیے مشعل راہ بن گیا۔

لاہور میں موٹروے پولیس مرکز راہنمائی کے دورے پر پیشہ وارانہ صلا حیتوں کو دیکھتے ہوئے تحریک پاکستان کے نامور کارکن پروفیسر رفیق احمد کا کہنا تھا کہ بلاشبہ یہ ادراہ ہمارے لیے قابل تفاخرہے۔ موٹروے پولیس نے اپنی پیشہ ورانہ صلا حیتوں، ایمانداری اور خدمت کے جذبہ سے سرشاری کی بنیاد پر ہر خاص وعام میں مقبولیت حاصل کر لی۔

اوراس بات کی ضرورت محسوس ہونے لگی کہ وطن عزیز کی باقی قومی شاہرات کو بھی اس فورس کے حوالے کر دیا جائے۔ حکومت پاکستان نے اس فورس کی صلاحیتوں کے معترف ہونے کے بعد پشاور سے کراچی تک قومی شاہراہ (این فائیو) کو بھی 2001ء میں موٹروے پولیس کے حوالے کر دیا، جس کے بعد یہ ادارہ نیشنل ہائی ویز اینڈ مو ٹروے پولیس کے نام سے وجود میں آگیا۔

مو ٹروے پولیس نے اپنی ثابت قدمی سے اپنے مقاصد حا صل کیے، جن میں نیشنل ہائی ویز اور موٹرویز پر ٹریفک کو کنٹرول کرنا، ڈسپلن قائم کرنے کے لیے اقدامات کرنا، ہائی ویز پر لاء اینڈ آرڈر کویقینی بنانا، روڈ یوزرز کی حفاظت کو یقینی بنانا، روڈ یوزرز کو ٹریفک قوانین کے بارے میں آگاہی دینا اور ہائی ویز کو تمام قسم کی تجاوزات سے پاک کرنا شامل ہے۔

نیشنل ہائی ویز اینڈ موٹروے پولیس کا سب سے ز یادہ زور عوام کو مشکل حالات میں مدد فراہم کرنا ہے۔ موٹروے پولیس کے آغاز سے قبل قومی شاہرات پر پولیسینگ معیار قابل ذکرنہ تھا لیکن موٹروے پولیس نے بہترین پیشہ وارانہ کارکردگی سے شاندار انداز میں کام کیا اور پولیس کے کلچر کو مکمل طور پر تبدیل کردیا۔ قومی شاہرات پر روڈ سیفٹی کا کوئی تصور نہ تھا، ہم اگر صرف سیٹ بیلٹ کی ہی بات کر لیں تو موٹروے پولیس سے قبل ہزاروں لوگ حادثات میں سیٹ بیلٹ نہ پہننے سے ہلاک ہوجاتے تھے۔

سیٹ بیلٹ کا پہننا سب سے زیادہ اور حفاظت کا بہترین ذریعہ ہے، جس میں کسی بھی حادثہ کی صورت میں ڈرائیور یا اس کے ساتھی کو زور دار طریقے سے گاڑی سے باہر نکلنے سے بچانا ہوتا ہے۔ سیٹ بیلٹ کس طرح کام کر تی ہے اس کی سائنس کو سجھنے کی ضرورت ہے۔

جب آپ گاڑی میں سفر کررہے ہوتے ہیں تو اس دوران گاڑی اور سوار دونوں ایک ہی رفتار سے سفر کرتے ہیں، خدا نخواستہ کسی چیز مثلا کھمبا، درخت یاگاڑی وغیرہ ٹکرانے سے گاڑی رک جاتی ہے لیکن اس میں سوار افراد اسی رفتار سے سفر کرتے ہیں اگر انہوں نے سیٹ بیلٹ پہننی ہوتو وہ بھی سفر کرنے سے رک جاتے ہیں جبکہ نہ باندھنے والے اسی رفتار سے سفر کر تے ہوئے ڈیش بورڈ، سٹیرنگ، ونڈ سکرین یا دوسرے شخص سے ٹکرا کر خوفناک حادثہ کا شکار ہوجاتے ہیں۔

آئی جی موٹروے پولیس ڈاکٹر سید کلیم امام کی ہدایات پر گاڑی میں بیٹھے ہوئے ہر فرد کے لیے قومی شاہرات پر موٹروے پولیس نے سیٹ بیلٹ لازمی پہننے کی مہم شروع کی ہے۔ ایڈیشنل آئی جی سنٹرل ریجن محمد زبیر ہاشمی اور ڈی آئی جی سلطان احمد چوہدری سنٹرل ریجن میں سیٹ بیلٹ کی افادیت پر شاندار طریقے سے آگاہی مہم چلا رہے ہیں۔ ڈی آئی جی سلطان احمد چوہدری نے اس دفعہ سیٹ بیلٹ آگاہی مہم کو نئی جہت سے روشناس کرواتے ہوئے موٹروے پولیس کے افسرا ن کے علاوہ مختلف اہم شخصیات سے روڈ سیفٹی پیغامات دلوائے۔

گزشتہ دنوں ٹھوکر نیاز بیگ اور شرق پور ٹال پلازہ  پر وائس چانسلر اسلامیہ یو نیورسٹی بہاولپور ڈاکٹر اطہر محبوب تمغہ امتیاز اور وائس چانسلر بہاؤ الدین زکریا یونیورسٹی ملتان ڈ اکٹر منصور اکبر کنڈی نے ڈرائیور کے ساتھ ساتھ گا ڑی میں سوار باقی افراد کے لیے سیٹ بیلٹ لازمی پہننے کی مہم میں حصہ لیا۔ دونوں وائس چانسلرز نے روڈ یوزرز کو سیٹ بیلٹ کی افادیت پر بریفنگ دی۔

موٹروے پولیس میں ایس ایس پی رانا ایاز سلیم، ایس ایس پی محمد کاشف اور ایس ایس پی سید حشمت کمال بھی روڈ سیفٹی آگاہی مہمات میں بہترین انداز سے کام کر رہے ہیں، خاص طور پر ایس ایس پی رانا ایاز سلیم نے موٹروے پولیس میں آنے کے بعد موٹروے پر حادثات میں کمی میں اہم کردار ادا کیا ہے، متعدد آگاہی مہم کا آغاز کیا اور موٹروے پولیس فورس کی فلاح و بہبود کے لئے بھی متعدد اقدامات کئے۔

موٹروے پولیس سے پہلے وہ لاہور سمیت مختلف اضلاع میں اپنے فرائض سرانجام دے چکے ہیں، محکمہ کے لیے ان کے کیے جانے والے فلاحی اقدامات کو لاہور پولیس فورس آج تک یاد کرتی دکھائی دیتی ہے۔ ایس ایس پی رانا ایاز سلیم ایک قابل، محنتی، فرض شناص اور کرائم فائٹر پولیس آفیسر ہیں، محکمہ پولیس میں ان کی خدمات ہرسطح پر یادکی جاتی ہے۔ سنٹرل زون میں حادثات میں کمی کے لیے ایس پی ندیم اشرف وڑائچ، سیکٹر کمانڈر عاطف شہزاد اور ڈی ایس پی منصور جاو ید نے بھی نہایت محنت سے کام کیا، جو قابل ستائش ہے۔

ترجمان موٹروے پولیس سید عمران احمد کے مطابق گاڑی میں فرنٹ سیٹ پر بیٹھے افراد جو سیٹ بیلٹ نہیں پہنتے عمومی طور پر سر میں چوٹ لگنے کا شکار ہوتے ہیں۔ عام طور پر گاڑی میں پیچھے بیٹھے افراد سمجھتے ہیں وہ بیلٹ نہ پہننے کے باوجود محفوظ ہیں حالاں کہ وہ بھی غلط فہمی کا شکار ہیں، تحقیق کے مطابق گاڑی میں پیچھے بیٹھے افراد بھی حادثات کا شکار ہوتے ہیں۔

پاکستان میں صرف موٹروے پولیس ہی واحد ادارہ ہے، جو مختلف مقامات پر روڈیوزرز کو سیٹ بیلٹ پہننے کی ترغیب دیتا ہے جبکہ وہ والدین سے یہ بھی درخواست کرتے ہیں کہ آپ اپنے بچوں کا سیٹ بیلٹ لازمی پہنائیں کیونکہ بچوں کا سیٹ بیلٹ پہننا ہی ان کو شدید نوعیت کے حادثات میں محفوظ رکھتا ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ آئی جی موٹروے پولیس ڈاکٹر سید کلیم امام، ایڈیشنل آئی جی محمد زبیر ہاشمی، ڈی آئی جی سلطان احمد چوہدری، ایس ایس پی رانا ایاز سلیم جیسے پیشہ ورانہ صلاحیتوں کے حامل افسران اس پر خصوصی توجہ دیں کہ 12 سال سے کم عمر کے بچے گاڑی کی فرنٹ سیٹ کے بجائے پچھلی سیٹوں پر بیٹھ کر سفر کریں۔ اس کے علاوہ ہمارے دیگر اداروں کو بھی یہ سوچنا چاہیے کہ وہ موٹروے پولیس کی طرح کام کریں تاکہ وطن عزیز میں ٹریفک حادثات میں بڑھتی ہوئی اموات کی شرح کو کم کیا جا سکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔