میڈاِن پاکستان نواز شریف

عبدالقادر حسن  بدھ 21 اکتوبر 2020
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

وہ وقت اب نہیں رہا جب ایک طرف حکومت ہوتی تھی اور دوسری طرف اپوزیشن اور لوگ اپنی مرضی اور دلجمعی کے ساتھ اپوزیشن یا حکومت کا ساتھ دیتے تھے ۔ آج وہ وقت آن پہنچا ہے کہ ایک طرف حکومت تو موجود ہے مگر دوسری جانب انواع و اقسام کی اپوزیشن ہے جس میں دائیں بازو والے بھی ہیں اور بائیں بازو والے بھی ہیں۔ مولانا بھی ہیں اور بلوچستان والے بھی ہیں یعنی حکومت کی ایک سے زیادہ کئی اپوزیشنیں ہیں اور یہ سب وقتی طور پر اکٹھی ہو گئی ہیں۔

پاکستان میں جمہوریت کو شک کی نگاہ سے دیکھنے والے خود پاکستان سے باہر لندن میں موجود ہیں جو پاکستان میں جلسے جلوسوں کے ذریعے حکومت کو رخصت کرنا چاہتے ہیں۔ اپوزیشن کے جلسے جلوس حکومت کو پریشان تو کر سکتے ہیں مگر اسے ہٹا نہیں سکتے ۔ متحدہ اپوزیشن کے رہنماؤں نے مسلم لیگ نواز کے گڑھ گوجرانوالہ میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے حسب روایت حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ رات گئے تک جاری رہنے والے اس جلسے سے میاں نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز اور پیپلز پارٹی کے نوجوان چیئرمین بلاول بھٹو زرداری عوام سے خطاب کرنے کے بعد اسٹیج سے اتر گئے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ متحدہ اپوزیشن کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کی تقریر سننے کے لیے ان کی اپنی جماعت کے مٹھی بھر کارکن ہی باقی رہ گئے۔

آج کے نئے دور میں سیاست اور اس کی روایات تبدیل ہو گئی ہیں۔ سیاسی رہنماؤں کی تقریریں سننے والے صرف ان کی جماعت کے کارکن ہی باقی رہ گئے ہیں اور وہ صرف اپنے لیڈر کی تقریر سننے کے لیے پنڈال میں آتے ہیں، دوسری جماعتوں کے قائدین کی تقریروں میں ان کو کوئی دلچسپی نہیں ہوتی، یہی کچھ گوجرانوالہ میں دیکھنے میں آیا اور آخری مقرر کے خطاب کے دوران پنڈال خالی خالی نظرآیا۔شاید متحدہ اپوزیشن کے قائدین نے پہلے سے معاملات طے نہیںکیے تھے، اس لیے اپوزیشن سربراہ کو بد مزگی کا سامنا کرنا پڑا۔

اپوزیشن کے جلسے کے بعد جس تقریر کا سب سے زیادہ چرچا ہو رہا ہے، وہ میاں نوازشریف کی تقریر ہے جو انھوں نے لندن کے پرسکون اور نسبتاً ٹھنڈے موسم میں بیٹھ کر بذریعہ ٹیلی فون کی ہے اور پاکستان کے گرم ہو تے سیاسی میدان میں ان کی تقریر کے الفاظ نے آگ لگا دی ہے۔ بہر حال میاں نواز شریف نے عمران خان کی حکومت کی سرپرستی کرنے پر  اسٹیبلشمنٹ پر الزامات لگائے ہیں اور ان کو حساب دینے کو کہا ہے۔ میاں نواز شریف جب اقتدار سے باہر ہوئے تھے تو انھوں نے اپنے نظریاتی ہونے کا اعلان کیا تھا۔

مجھے سمجھ نہیں آ رہی کہ میاں نواز شریف کے کس قسم کے نظریاتی ہوئے ہیں اور ان کے نظریات کیا پاکستان کے مخالف ہو گئے ہیں کیونکہ ان کی تقریریں تو کچھ اور بات سنا رہی ہیں  ۔ ایک وقت وہ بھی تھا جب بینظیر بھٹو کا مقابلہ کرنے کے لیے میاں صاحب ’’میڈ ان پاکستان‘‘ کہلانا پسند کرتے تھے کیونکہ وہ محترمہ بینظیر بھٹو کو  سیکیورٹی رسک کہا کرتے تھے لیکن بعد میں اسی میڈاِن پاکستان میاں نواز شریف نے ان سے میثاق جمہوریت کرلیا ، پھر  انھوں نے پاکستان سے اپنا کاروبار منتقل کیا، ان کے بیٹے سعودی عرب اور لندن منتقل ہو گئے اور وہاں پر کاروبارشروع کر دیا۔

میاں صاحب تیسری مرتبہ اقتدار سے باہر ہونے کے بعد بہت ساری یقین دہانیاں کرانے کے بعد علاج کے لیے لندن روانہ ہو گئے اور اب وہاں سے انھوں نے انتہائی متنازعہ نوعیت کی تقریریں شروع کر دی ہیں ۔ میاں نواز شریف شاید ابھی تک حکومت سے علیحدگی کے صدمے سے باہر نکل سکے۔ ایک دہائی کے بعد ان کے ہاتھ سے وفاقی حکومت کے علاوہ پنجاب بھی چھن گیا ہے، اس لیے وہ شدید صدمے کی کیفیت میں ہیں ۔ حالانکہ یہ وہی پاکستان ہے جس کے وہ بلا شر کت غیرے تین مرتبہ وزیر اعظم رہے ہیں۔

میاں صاحب کو شاید اس بات کا ادراک نہیں کہ وقت بہت بدل چکا ہے۔ پاکستان میں ان کی بیٹی محترمہ مریم نواز ان کی پارٹی کو لیڈ کر رہی ہیں، ان کی نگاہیں اقتدار اعلیٰ کی کرسی پر ہیں۔ میاں نواز شریف لندن میں بیٹھ کر اپنا سیاسی بیانیہ دے رہے ہیں، ان کے سیاسی بیانیہ سے ان کے اتحادی بھی خائف نظر آتے ہیں اور مجھے یقین ہے کہ متحدہ اپوزیشن بہت جلد میاں نواز شریف کے اس بیانیے سے لاتعلقی کا اعلان کر دے گی ۔

اس صورتحال میں اگر کوئی مزے میں ہے تو وہ صلح جو شخصیت میاں شہباز شریف کی ہے جو نیب کی حراست میں ہیں جس کی وجہ سے وہ اپوزیشن کے جلسے جلوسوں سے لاتعلق بھی ہیں اور شاید وہ احتجاجی سیاست کے حق میں بھی نہیں ہوں گے،  وہ معاملات کو افہام و تفہیم سے حل کرنے پر یقین رکھتے ہیں اور کسی احتجاج میںشمولیت کے حق میں نہیں ہوتے۔ البتہ کئی دفعہ وہ اپنے بڑے بھائی کی مجبوری کی وجہ سے اپنے مزاج کے خلاف عمل کرتے ہیں جس پر وہ بے چین رہتے ہیں ۔ لیکن وہ اپنے بھائی کے وفادار ہیں اور ان سے علیحدگی کا سوچ بھی نہیں سکتے، اگر کوئی ایسی صورت بن پڑی تو اس کے لیے بھی وہ میاں نوازشریف سے ہی مشاورت کریں گے اور فیصلہ وہی ہو گا جو بالآخر نواز لیگ کو سیاسی دھارے میں واپس لانے کی راہیں ہموار کرے گا۔

اگر کوئی یہ کہے کہ وہ پاکستان میں نظریاتی سیاست کا علمبردار ہے تو یہ جھوٹ ہو گا کیونکہ پاکستان میں نظریاتی سیاست کا جنازہ کب کا اٹھ چکا ہے اور اب تو حکومت کے زیر سایہ رہنے میں بہت آسائش ملتی ہے۔ میاں صاحب سے درخواست ہے کہ وہ اپنے نئے بیانیے پر نظر ثانی کریں اور اپنے آپ کو ’’میڈ اِن پاکستان والا نظریاتی نواز شریف‘‘ ثابت کریں ۔ پاکستان کی سیاست میں کم و بیش چار دہائیاں گزارنے کے بعد تبدیل شدہ بیانیہ آپ کے کام نہیں آئے گا اور عوام آپ کے اس نئے بیانیے کو قبول نہیں کر رہے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔