انعم مقبول کی صدا

ڈاکٹر توصیف احمد خان  بدھ 21 اکتوبر 2020
tauceeph@gmail.com

[email protected]

کنٹرول لائن پر روز فائرنگ ہوتی ہے تو اسکول بند ہو جاتے ہیں، بعض اوقات اسکول میں ہوتے ہیں تو فائرنگ، بعض دفعہ راستہ میں ہوتے ہیں تو گولیاں برسنے لگتی ہیں، میں نے امتحان کی ساری تیاری بنکرز میں بیٹھ کر کی، میں ریڈرز پبلک اسکول میں پڑھتی تھی۔

میں پڑھائی میں بہت زیادہ اچھی نہیں تھی مگر محنت کو میں نے اپنا شعار بنایا، یوں مشکل اور خطرناک حالات میں میں نے پورے آزاد کشمیر کے امتحانات میں اول پوزیشن حاصل کی۔ یہ داستان صرف انعم مقبول کی نہیں جس نے امتحان میں اول پوزیشن حاصل کی اور جس کے انٹرویو ٹی وی چینلز پر نشر ہورہے ہیں اور سوشل میڈیا پر اس کے وائرل ہونے والی ویڈیو کو لاکھوں  افراد لائیک کررہے ہیں بلکہ لاکھوں لوگوں کی ہے جو مقبوضہ کشمیر اور آزاد کشمیر کے درمیان قائم کنٹرول لائن کے قریب صدیوں سے آباد ہیں۔

لائن آف کنٹرول جموں وکشمیر سے شروع ہوتی ہے اور گلگت بلتستان لداخ کے درمیان سے ہوتی ہوئی سیاچن کے پہاڑی سلسلہ پر اختتام پذیر ہوتی ہے۔ لائن آف کنٹرول جموں و کشمیر کو دو صوبوں میں بانٹتی ہے، ڈسٹرکٹ باغ نیلم کا علاقہ آزاد کشمیر کا حصہ ہے، دوسری طرف سری نگر کا علاقہ ہے۔ بھمبر سے شروع ہونے والی یہ لائن کوٹلی، پونچھ سے ہوتی ہوئی لداخ اور گلگت بلتستان تک جاتی ہے۔

آزاد کشمیر کی آبادی 40 لاکھ سے کچھ زیادہ ہے۔ کشمیر کا یہ حصہ 10ڈسٹرکٹ پر مشتمل ہے جن میں بھمبر، میر پور، کوٹلی، مظفر آباد، ہٹیاں بالا، مظفر آباد، نیلم وادی، باغ، حویلی، پونچھ اور سندھوتی شامل ہیں۔ ان علاقوں میں پڑھنے لکھنے کا رجحان بہت زیادہ ہے۔

لڑکوں کے ساتھ لڑکیوں کی تعلیم پر یکسانیت کے ساتھ توجہ دی جاتی ہے۔ آزاد جموں و کشمیر حکومت کے مطابق اس خطہ میں خواندگی کا تناسب 74 فیصد ہے جب کہ لڑکوں کے اسکول جانے کی شرح 98 فیصد اور لڑکیوں کی 90فیصد ہے۔ پاکستان کے دیگر صوبوں کے مقابلہ میں اسکول جانے والے بچوں کی شرح حیرت انگیز طور پر زیادہ ہے۔ سینئر صحافی ناصر محمود اس علاقہ کی صورتحال یوں بیان کرتے ہیںکہ آزاد کشمیر میں سرکاری اسکولوں کا معیار خاصا بہتر ہے۔ اساتذہ تربیت یافتہ ہیں اور وہ اپنے فرائض منصبی تندہی سے انجام دیتے ہیں۔

حکومتی محکموں میں کام کرنے والوں کی تعداد بھی سب سے زیادہ تعلیم سے وابستہ ہے۔ان کا کہنا ہے کہ حکومت کا اسکولوں کی نگرانی کا نظام خاصا سخت ہے، یہی وجہ ہے کہ کشمیر میں غیر حاضر استاد کا ذکر نہیں ملتا۔ پھر غیر سرکاری تعلیمی ادارے قائم ہیں۔ ان اسکولوں میں فیس تو لی جاتی ہے مگر تعلیم کے معیار پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوتا۔ اس علاقہ میں مذہبی جماعتیں اور تنظیمیں خاصی متحرک ہیں۔ جماعت اسلامی کے اکابرین نے ریڈ اسکولز چین قائم کی ہوئی ہے۔ مولانا طاہر القادری کے ادارے منہاج القرآن اسکولوں کی چین بھی موجود ہے۔

اعلی تعلیم کے حصول میں مصروف طالبعلموں کو انٹرنیٹ کی رفتار سست ہونے سے مسائل کا سامنا ہے جب کہ سیکیورٹی اداروں کے مطابق انٹرنیٹ کی رفتار ٹو جی تک محدود رکھنے کی وجہ کنٹرول لائن کے قریبی علاقوں کی سیکیورٹی ہے۔ ایک اور صحافی کا کہنا ہے کہ اس علاقہ میں  اسپتال موجود نہیں ہیں۔

2005کے زلزلہ کے بعد بھی اسپتالوں کی کمی دور نہیں ہوئی۔ یہی وجہ ہے کہ حادثات اور دل کے مرض میں مبتلا مریضوں کو 10 گھنٹے کا فاصلہ طے کر کے اور پرخطر سڑکوں پر تیز رفتاری سے سفر کر کے اپنی جانوں کو خطرے میں ڈال کر اس علاقہ میں سفر کرتے ہیں۔ اس علاقے میں سرکاری اسپتال ہیں جن کی گنجائش کم ہے۔

یہی وجہ ہے کہ خطرناک امراض میں مبتلا افراد کو اسلام آباد، لاہور اور پشاور لے جانے کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں نظر آتا۔ لائن آف کنٹرول پر مستقل فائرنگ ہوتی ہے۔ بھارتی فوج اندھا دھند فائرنگ اور گولہ باری کرتی ہے۔ پاکستانی فوج کو جوابی کارروائی کرنا پڑتی ہے۔ اس صورت حال کی بناء پر شہری آبادیوں میں موت ہر وقت رقص کرتی نظر آتی ہے۔ اس جنگی صورت حال میں پہلا نقصان سویلین آبادی کا ہوتا ہے۔

سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں بھارت سے تعلقات معمول پر آئے تھے اور جنرل پرویز مشرف نے کشمیر کے مسئلہ کے حل کے لیے 6نکات پیش کیے تھے تو لائن آف کنٹرول پر سکون ہوا تھا۔ اس وقت وادیٔ نیلم اور اطراف کے اضلاع کے لوگوں نے سکون کا ساتھ دیا تھا مگر میاں نواز شریف کے اقتدار میں آنے کے بعد فائرنگ کا سلسلہ دوبارہ شروع ہوا اور پھر یہ سلسلہ دراز ہوا۔ حکومت پاکستان فائرنگ کے ہر واقعہ کے بعد اسلام آباد میں مقیم بھارتی ہائی کمیشن کے سینئر رکن کو دفتر خارجہ طلب کر کے احتجاج کرتی ہے مگر صورتحال جوں کی توں ہے۔ پلوامہ واقعہ کے بعد پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی تمام حدیں عبور کر گئی۔

بھارت نے انڈین یونین کے آئین کی شق 360کو ختم کیا۔ جموں کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرکے کشمیر کو بھارت میں ضم کیا گیا جس پر وادیٔ کشمیر میں ہر طرف احتجاج ہوا۔ بھارتی حکومت نے کشمیر میں لاک ڈاؤن کردیا اور اخبارات پر سنسر لگا دیا۔ ریڈیو کی نشریات معطل کردیں اور انٹرنیٹ کی سروس کو بند کردیا مگر ان تمام اقدامات کے باوجود لائن آف کنٹرول پر دو طرفہ فائرنگ کا سلسلہ جاری رہا اور دوسری طرف لائن آف کنٹرول کے قریب رہنے والے لاکھوں افراد نے اس ماحول سے فرار حاصل کرنے کے بجائے مقابلہ کی ٹھانی۔

اس علاقہ کے بچوں اور نوجوانوں نے اپنی تعلیم پر باقاعدہ توجہ دی،  کلاسوں کا سلسلہ جاری رہا۔ اس علاقہ میں انٹرنیٹ کی سہولت دستیاب نہیں ہے، اس بناء کووڈ 19 میں پوری دنیا میں انٹرنیٹ سسٹم کے ذریعہ تدریس کا سلسلہ شروع ہوا، مگر اس خطہ میں انٹرنیٹ پر پابندی کی بناء پر تدریس نہ ہوسکی مگر اس پرخطر صورتحال کے باوجود طلبا اور طالبات اپنی تعلیم پر یکساں توجہ دے رہے ہیں۔ کشمیر کی حکومت انٹرنیٹ کی سہولت کی فراہمی کے معاملہ میں فیصلہ نہ کرنے کی صلاحیت کا شکار ہے جس کی بناء پر حالات مزید خراب ہورہے ہیں۔

اس وقت سب سے اہم ضرورت اس بات کی ہے کہ لائن آف کنٹرول پر فائرنگ کو روکا جائے۔ بھارت اور پاکستان کی سول سوسائٹی کو اس علاقہ کے عوام کے حالت زار کو محسوس کرنا چاہیے اور فائرنگ کے سلسلہ کو روکنے کی بھرپور کوشش کرنی چاہیے۔ وزیر اعظم کے قومی سلامتی کے مشیر معید یوسف نے بھارتی چینل کو ایک انٹرویو میں بھارت سے بات چیت کے لیے پاکستانی شرائط کو دوبارہ پیش کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جب تک بھارت کشمیر کی قانونی حیثیت دوبارہ اصلی صورتحال پر بحال نہیں کرتا پاکستان کے بھارت سے مذاکرات نہیں ہوسکتے۔ بعض اکابرین نے یہ تجویز پیش کی کہ جنوبی ایشیاء کے دونوں ممالک کے درمیان بات چیت کا دور کھل جانا چاہیے۔

اس بات چیت میں سب سے پہلے لائن آف کنٹرول کے بھارت کی فائرنگ روکنے کے معاملہ پر اتفاق رائے ہونا چاہیے۔ وزارت خارجہ کے ماہرین کو کوشش کرنی چاہیے کہ بھارت سے مذاکرات بحال ہوجائیں اور مذاکرات  کی بحالی کی اہمیت کو عقل و دانش والے صاحبان محسوس کریں۔ فوری طور پر دونوں ممالک کے درمیان مذاکرات شروع ہونے چاہئیں تاکہ لائن آف کنٹرول کے دونوں اطراف آباد لاکھوں افراد کی زندگیوں کو تحفظ مل سکے۔ انعم مقبول کا پیغام یہی ہے۔

وضاحت: مولانا فضل الرحمن نے 1988 میں بے نظیر بھٹو کے وزیر اعظم بننے کی خواہش کی تھی۔ گزشتہ آرٹیکل میں غلطی سے یہ شایع ہوا کہ مولانا فضل الرحمن نے بے نظیر بھٹو کے وزیر اعظم بننے کی حمایت نہیں کی تھی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔