حکومت سے چند سوال

مزمل سہروردی  بدھ 21 اکتوبر 2020
msuherwardy@gmail.com

[email protected]

اپوزیشن کی تحریک حکومت کی غلطیوں سے دو جلسوں میں ہی ہٹ ہو گئی ہے۔ اگر حکومت اپنے اعصاب پر کنٹرول رکھتی تو شاید اپوزیشن کی تحریک کو اس قدر کامیابی نہ ملتی۔ حکومت نے اپوزیشن کی وکٹ پرخود آکر کھیلنا شروع کر دیا۔ جس کی وجہ سے اپوزیشن کو ہوم گراؤنڈ کا فائدہ ہو گیا۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ حکومت کو اپنی غلطی کا احساس ہو گیا ہے۔

اسی لیے کلین گرین پاکستان کی تقریب سے خطاب کے دوران وزیر اعظم عمران خان نے اپوزیشن پر بات نہیں کی۔ یہ بھی ٹھیک ہے کہ کیپٹن صفدر کی گرفتاری کے بعد تو وفاقی وزرا کی فوج ظفر موج پریس کانفرنسیں اور بیانات دے رہی تھی لیکن رہائی کے بعد سب کو چپ لگ گئی اور خاموشی ہو گئی۔

یہ درست ہے کہ وزیر اعظم کی جانب سے ایسے بیانات سامنے آرہے ہیں کہ اپوزیشن کے لیے رعایت ختم کر دی گئی ہے۔ اعلانات کیے جا رہے ہیں کہ گرفتار اراکین اسمبلی کے لیے پروڈکشن آرڈر کی سہولت ختم کر دی گئی ہے۔ یہ بھی اعلان کیے جا رہے ہیں کہ اب انھیں  عام جیلوں میں عام قیدیوں کے ساتھ رکھا جائے گا۔

ایسے میں کیا یہ سوال پوچھنا جائز نہیں ہے کہ اس سے پہلے اپوزیشن کو یہ رعایتیں کیوں دی جا رہی تھیں؟ حکومت ان رعایتوں کے عوض اپوزیشن سے کیا رعایتیں حاصل کر رہی تھی؟ کیا یہ اس شرط پر تھیں کہ اپوزیشن حکومت کے لیے مسائل پیدا نہیں کرے گی اور جواب میں حکومت اپوزیشن کو رعایتیں دیتی رہے گی۔ کیا وزیر اعظم یہ بتانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ اس سے پہلے میں اپوزیشن کے ساتھ ایک فکس میچ کھیل رہا تھا۔ لیکن اب جب اپوزیشن نے فکس میچ کی شرائط توڑ دی ہیں تو  میں جواب میں سختی کروں گا اور کوشش کروں گا کہ وہ واپس میرے ساتھ فکس میچ کھیلنے کے لیے تیار ہو جائیں۔

اب یہ کہا جا رہا ہے کہ کسی ’’چور ڈاکو‘‘ کو پروڈکشن آرڈر کی سہولت نہیں دی جائے گی تو کیا یہ سوال پوچھنا جائز نہیں کہ حکو مت پہلے کس قانون کے تحت ’’چور ڈاکوؤں‘‘ کو پروڈکشن آرڈر کی سہولت دے رہی تھی؟ اس سہولت کے پیچھے حکومت نے کیا کیا فوائد حاصل کیے ہیں، وہ بھی سامنے آنے چاہیے۔

اپنے اقتدار کو بچانے کے لیے ’’چور ڈاکوؤں‘‘ سے کب کب اور کیسے کیسے رعایتیں حاصل کی گئی ہیں، وہ بھی سامنے آنی چاہیے۔ کیا ’’چوروں ڈاکوؤں‘‘ کے ساتھ مفاہمت بھی جرم نہیں؟ کیا حکومت یہ اعتراف نہیں کر رہی کہ گزشتہ دو سال سے اس نے اپوزیشن کے ساتھ جیو اور جینے دو کے اصول کے تحت ایک این آر او کیا ہوا تھا جسے اب اپوزیشن نے توڑ دیا ہے۔ اس لیے وزیر اعظم اور ان کی پوری کابینہ تڑپ رہی اور پکار پکار کر کہہ رہی ہے کہ دوبارہ یہ معاہدہ ہونا چاہیے۔ لیکن اپوزیشن اب مزید یہ معاہدہ کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔

جب وزیر اعظم اعلیٰ سطح اجلاسوں میں یہ اعلان کر رہے ہیں کہ اپوزیشن کے خلاف کرپشن کیسز کو اب تیزی سے منطقی انجام تک پہنچایا جائے گا تو کیا پہلے  اپوزیشن کے خلاف کرپشن کیسز جان بوجھ کر تیزی سے منطقی انجام تک نہیں پہنچائے جا رہے تھے۔

جب یہ کہا جا رہا ہے کہ اب کرپشن کیسز میں کوئی رعایت نہیں دی جائے گی تو کیا یہ اعتراف نہیں کیا جا رہا ہے کہ پہلے کرپشن کیسز میں نرمی کی جا رہی تھی۔ کیا دو سال سے حکومت اور اپوزیشن کے درمیان کوئی مفاہمت تھی جب کہ عوام کو احتساب اور کرپشن کے نام پر بیوقوف بنایاجا رہا تھا۔

جب حکومت یہ اعلان کر رہی ہے کہ اب نواز شریف کو لانے کے لیے تمام وسائل بروکار لائے جائیں گے تو کیا یہ اعتراف نہیں کیا جا رہا کہ پہلے جان بوجھ کر تمام وسائل بروئے کار نہیں لائے جا رہے تھے۔ اب جب واپس لانے کے لیے بے تابی دکھائی جا رہی ہے تو کیا یہ سوال جائز نہیں کہ پہلے بھیجنے کی بے تابی تھی، اب واپس لانے کے لیے بے تابی ہے۔

کیا کوئی حکومت سے پوچھ سکتا ہے کہ بھیجا کیوں تھا؟ جب عدالت نے زندگی کی گارنٹی مانگی تھی تو کیوں جواب نہیں دیا کہ جتنی گارنٹی عام قیدیوں کی جان کی ہے، اتنی ہی نواز شریف کی جان کی بھی ہے۔ جو علاج عام قیدیوں کو مل رہا ہے، وہی نواز شریف کو ملے گا۔ کیوں حکومتی وزیر ان کی بیماری کی لمحہ لمحہ رپورٹنگ کر رہے تھے؟ کیا جیلوں میں قید ہر قیدی کی بیماری پر ایسے ہی لمحہ لمحہ پریس کانفرنسیں کی جاتی ہیں؟ کیا ہر قیدی کو بیرون ملک علاج کی سہولت دی جاتی ہے تو پھر نواز شریف کو ایسی سہولت کیوں دی گئی؟ کیا وہ ایک این آر او نہیں تھا؟ ایک طرف وزیر اعظم روز اعلان کرتے ہیں کہ کسی کو این آر او نہیں دیا جائے گا۔

دوسری طرف صاف نظر آرہا ہے کہ نواز شریف کو این آر او دیا گیا ہے۔ کیا ایسا نہیں لگتا کہ نواز شریف نے بڑی ہوشیاری سے خود تو این آر او لے لیا لیکن اب وہ شاید حکومت کو جوابی این آر او نہیں دے رہے؟ کیا کوئی حکومت سے سوال کر سکتا ہے کہ اگر نواز شریف کی بیماری کی رپورٹس جعلی تھیں تو ان پر انکوائری کیوں نہیں کروا رہی ۔ تب تو آپ کہہ  رہے تھے کہ میں نے خود چیک کرا لیا ہے کہ نواز شریف واقعی بیمار ہیں۔ آپ نے کس سے چیک کرایا تھا اور اس نے آپ سے کیوں جھوٹ بولا تھا۔

اب اعلان ہوا ہے کہ اب لوگ نیا عمران خان دیکھیں گے تو کیا کوئی سوال کرنے کی جرات کر سکتا ہے کہ نئے پاکستان میں تو پرانے عمران خان کی گنجائش نہیں تھی،پھر کیوں دو سال نئے عمران خان کو چھپا کر رکھا گیا اور ہمیں نئے پاکستان میں پرانے نظام کے ساتھ گزارا کرنے پر مجبور کیا گیا۔ کیا  ایسا کرکے عوام کی امنگوں اور خوابوں کا خون نہیں کیا گیا۔

کوئی حکومت کو سمجھائے گا کہ اب جب اپوزیشن نے بولنا شروع کر دیا ہے تو آپ کو جوابی بیان بازی کے بجائے اپنے کام پر توجہ دینی چاہیے۔ دو سال اپوزیشن خاموش تھی تو حکومت بول رہی تھی۔ اپوزیشن کی خاموشی اور غیر فعال ہونے کی وجہ سے اکیلی حکومت ہی جنگل میں حکمرانی کر رہی تھی لیکن اب اپوزیشن نے جب اپنا  کام  شروع کر دیا ہے تو حکومت کو کچھ سمجھ نہیں آرہا۔ حکومت کو سمجھنا چاہیے کہ حکومت جواب الجواب کاکام کرتی اچھی نہیںلگ رہی ہے۔ حکومت کو وہ کام کرنا چاہیے جو حکومت کا کام ہے۔

حکومت خود نہیں بولتی حکومت کے کام بولتے ہیں۔ وزیر اعظم کو بھی سمجھنا ہوگا کہ لوگ نہ نئے عمران خان میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ پرانے عمران خان میں لوگ دلچسپی نہیں رکھتے ہیں۔آپ عوامی فلاح کے کام کریں، یقین کریں آپ کو بولنا بھی نہیں پڑے گا۔ اپوزیشن کے بولنے میں وزن بھی خود بخود ختم ہو جائے گا لیکن حکومت نے پہلے بھی دو سال ضایع کر دیے ہیں اور اب بھی وقت ضایع ہی کر رہے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔