سیاسی ماحول کو اس قدر تلخ مت بنائیں کہ واپسی ناممکن ہوجائے

رضوان آصف  بدھ 21 اکتوبر 2020
اسٹیبلشمنٹ بھی ملکی تاریخ میں پہلی بار سخت ترین سیاسی تنقید اور سنگین نوعیت کے الزامات کا شکار ہے

اسٹیبلشمنٹ بھی ملکی تاریخ میں پہلی بار سخت ترین سیاسی تنقید اور سنگین نوعیت کے الزامات کا شکار ہے

 لاہور: پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف نے گوجرانوالہ جلسہ میں انتہائی حیران کن اور سخت تقریر کر کے طبل جنگ بجا دیا ہے اور اب اس سیاسی معرکہ کا منطقی انجام ہو کر رہے گا اور اس جنگ میں کون فاتح اور کون شکست خوردہ ہوگا اس کا فیصلہ بھی عجب اور حیرت انگیز ہونے کا قوی امکان ہے۔

پی ڈیم ایم عمومی اور مسلم لیگ نواز بالخصوص انتہائی جارحانہ موڈ میں احتجاجی تحریک کی بنیاد رکھ چکے ہیں اور حکومت بھی اسی لہجے اور اسی انداز میں جوابی وار کر رہی ہے ،اسٹیبلشمنٹ بھی ملکی تاریخ میں پہلی بار سخت ترین سیاسی تنقید اور سنگین نوعیت کے الزامات کا شکار ہے۔عوام گزشتہ دو برس سے شدید ترین مہنگائی، بیڈ گورننس اور معاشی بحران کے سبب شدید اذیت اور پریشانی کا شکار ہیں، اس تمام صورتحال میں جبکہ ہر سرکاری، حکومتی اور عوامی طبقہ اپنی اپنی جگہ مصائب کا شکار ہے تو ایسے میں یہی دکھائی دے رہا ہے کہ جب حبس ایک حد سے بڑھ جائے تو پھر طوفان کی آمد یقینی ہوتی ہے۔ بعض سیاسی نجومیوں کا کہنا ہے کہ ماضی میں پہلے بھی ایک بار ایسا ہوچکا ہے اور اب بھی یہی لگتا ہے کہ سبھی کو گھر جانا پڑے گا ۔

ملک میں ایک غیر جانبدار حکومت تشکیل دیکر نئے انتخابات کا انعقاد سب سے اولین آپشن ہو سکتی ہے اور اس حوالے سے عدلیہ بھی اہم کردار نبھاہ سکتی ہے لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ فوری انتخابات کی بجائے کچھ عرصہ کیلئے ان ہاوس تبدیلی لائی جائے یا پھر ٹیکنو کریٹ طرز کی نگران حکومت بنا کر صورتحال کے غیر معمولی سیاسی بگاڑ کو نیوٹرل کرنے کی کوشش کی جائے، قومی حکومت کی تشکیل کاکوئی آپشن فی الوقت دکھائی نہیں دے رہا ہے۔

پنجاب کو ہمیشہ ’’بادشاہ گر‘‘کی حیثیت حاصل رہی ہے اور پنجاب میں آج بھی سب سے بڑی سیاسی جماعت مسلم لیگ(ن) ہے اور اس کا کانٹے دار مقابلہ تحریک انصاف کے ساتھ ہے۔ن لیگ نے 35 برس سے پنجاب کی سیاست پر برتری قائم رکھی ہے ،2018 ء کے الیکشن کے بعد یہ موقع پیدا ہوا تھا کہ تحریک انصاف کی حکومت اپنی گڈ گورننس اور ڈیلیوری کے ذریعے پنجاب میں اپنی مقبولیت اور ووٹ بنک میں اضافہ کر کے مسلم لیگ(ن) کو سیکنڈ پوزیشن پر لے آتی لیکن بدقسمتی کے ساتھ دو برس سے پنجاب میں جو کچھ ہو رہا ہے اور جس طرز کا انداز حکمرانی موجود ہے۔

اس نے عوام کی تکلیف میں اضافہ کیا ہے اور تحریک انصاف کی مقبولیت میں تنزلی کی ہے۔ اگر حکومت وفاقی و صوبائی سطح پر تھوڑا بہت ہی ڈیلیور کر دیتی تو عوام دونوں روایتی سیاسی جماعتوں کو’’راندہ درگاہ‘‘ قرار دے دیتے لیکن اصل مسئلہ تو یہ ہے کہ موجودہ حکومت کی بیڈ گورننس اور معاشی صورتحال نے عوام کو اس قدر کرب میں مبتلا کر رکھا ہے کہ وہ ثابت شدہ کرپشن کے باوجود ماضی کے حکمرانوں کیلئے نرم گوشہ اختیار کیئے ہوئے ہیں ۔اس کے ساتھ ساتھ موجودہ حکومت کے بعض وفاقی وصوبائی وزراء اور سرکاری حکام پر کرپشن کے الزامات اور نیب تحقیقات نے بھی تحریک انصاف حکومت کے دامن پر کئی داغ لگا دیئے ہیں۔

دوسری جانب پنجاب میں تحریک انصاف کی تنظیم شدید مایوسی اور بددلی کا شکار ہے،تنظیمی عہدیدار اور ٹکٹ ہولڈرز ’’لاوارث‘‘ بنے پھر رہے ہیں اور نہ کوئی وزیر اور نہ کوئی بیوروکریٹ ان کی بات سننے کو تیار ہے،گلی محلہ کی سطح پر تحریک انصاف کا عوامی رابطہ نہ ہونے کے برابر رہ گیا ہے کیونکہ اس کا ورکر حکومتی کوتاہیوں اور مہنگائی کو لوگوں کے سامنے تحفظ نہیں دے سکتا۔

خوفناک مہنگائی نے عوام کے ساتھ ساتھ حکومت کو بھی شدید نقصان پہنچایا ہے اور عوام اب کھل کر حکومت پر تنقید کرنے لگے ہیں اور اب وزیر اعظم عمران خان کو نہایت سنجیدگی اور جنگی بنیادوں پر حکومتی کارکردگی کو بہتر بنانا ہوگا ورنہ اپوزیشن نے جس انداز میں اپنی اننگ کی اوپننگ کی ہے آگے چل کر وہ مہنگائی سمیت حکومت کی دیگر لوز گیندوں پر چوکوں چھکوں کی بوچھاڑ کرے گی۔گوجرانوالہ جلسہ غیر معمولی تھا اور شاید اسی وجہ سے حکومت بھی زیادہ پریشان دکھائی دے رہی ہے۔

وزیر اعظم عمران خان نے بھی ٹائیگر فورس کی تقریب میں نہایت سخت اور جارحانہ انداز اپناتے ہوئے جواب دیا لیکن زیادہ مناسب ہوتا کہ ان کی ترجمان ٹیم اور وفاقی وزراء ان الفاظ کو استعمال کرتے، وزیر اعظم کے عہدے کا ایک وقار ہوتا ہے اسے برقرار رکھنا چاہیے۔ اپوزیشن ہمیشہ جارحانہ اور سخت رویہ اپناتی ہے لیکن حکومتی دانشمندی یہ ہوتی ہے کہ جوابی جارحیت سے اجتناب کیا جائے، ویسے بھی مثل مشہور ہے کہ تیز آندھی طوفان میں وہی درخت بچا رہتا ہے جو جھکنا جانتا ہے۔کراچی میں بھی پی ڈی ایم نے ایک بڑا پاور شو کیا ہے اور آئندہ بھی اس کے جلسے بڑے ہونے کی توقع ظاہر کی جا رہی ہے لیکن حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کو اندراج مقدمات کی پالیسی پر نظر ثانی کرنا ہو گی کیونکہ اپوزیشن کے خلاف درج ہونے والا ہر مقدمہ اس کے بیانیہ کو عوام میں مقبول کر رہا ہے۔

شاہدرہ میں ن لیگی قیادت کے خلاف غداری کے مقدمہ کے اندراج نے عوام میں حکومتی ساکھ کو متاثر کیا اور ن لیگ کو سیاسی فائدہ ہوا ،اسی طرح گوجرانوالہ جلسہ کے بعد درج ہونے والے مقدمات اور کراچی میں پراسرار طریقہ سے کیپٹن(ر) صفدر کے خلاف مقدمہ نے بھی اپوزیشن کے بیانیہ کو تقویت دی ہے۔پاکستان کی سیاست بھی پاکستان کرکٹ ٹیم کی مانند ہے نجانے کب ہارا ہوا میچ جیت جائے اور کب جیتا ہوا میچ ہار دے۔اسٹیبلشمنٹ بھی اس وقت شدید دباو کا شکار ہے اور حکومت کی تمام تر ناقص کارکردگی اور مہنگائی کے حوالے سے اسے بھی ذمہ دار ٹھہرایا جا رہا ہے۔

ملکی تاریخ میں دو مرتبہ ایسا ہوا ہے جب پنجاب سے تعلق رکھنے والے مرکزی سیاستدان نے اسٹیبشلمنٹ کی قیادت کا نام لیکر اس پر الزام تراشی کی ہو۔ وزیرا عظم عمران خان بھی ماضی میں اسٹیبلشمنٹ پر سیاسی مداخلت اور سیاسی انجینئرنگ کے حوالے سے آن دی ریکارڈ بہت سخت گفتگو کرتے رہے ہیں جبکہ اب میاں نواز شریف نے تلوار کی دھار پر پاوں رکھ دیا ہے، دیکھنا ہے کہ وہ منزل مقصود پر پہنچ پاتے ہیں یا پھر خود ہی کٹ جاتے ہیں۔

بادی النظر میں یوں معلوم ہو رہا ہے کہ اپوزیشن بالخصوص مسلم لیگ(ن) کی کوشش ہی یہ ہے کہ کسی طرح اس حکومت کو رخصت کیا جائے اور اس کے بعد مستقبل کے انتخابات یا عارضی نظام پر غور کیا جائے۔ پاکستان کے سیاسی کھیل میں عالمی طاقتیں بھی اپنے اپنے کھلاڑیوں کو پس پردہ مدد فراہم کر رہی ہیں۔بعض حلقے یہ رائے پیش کرتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کے پاس اس وقت عمران خان کے سوا کوئی آپشن نہیں کیونکہ وہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی کی قیادت کو دوبارہ موقع نہیں دیں گے لیکن اس رائے سے اختلاف کیلئے یہ تھیوری بیان کی جاتی ہے کہ دنیا کی ہر اسٹیبلشمنٹ کے پاس کبھی بھی کوئی ایک پلان نہیں ہوتا بلکہ ’’اے‘‘،’’بی‘‘ سمیت کئی متبادل پلان ہمہ وقت موجود ہوتے ہیں ۔آنے والے دنوں میں ملکی سیاست مزید تلخ، سخت اور جارحانہ ہو گی لیکن تمام فریقین کو ریاستی اداروں کے حوالے سے نہایت محتاط رویہ اپنانے کی اشد ضرورت ہے ،عدلیہ اور افواج پاکستان ایسے ادارے ہیں جن سے ملک و قوم کی بقا وابستہ ہے،انہیں بحیثیت ادارہ سیاست میں مت گھسیٹا جائے۔

عدلیہ نے بھی ایک طویل جدوجہد کے بعد خود کو خودمختار بنایا ہے اور پاک افواج نے ہزاروں شہادتیں پیش کر کے اس ملک وقوم کے دفاع کو یقینی بنایا ہے۔پاک فوج کے ہر شہید کیلئے ہر پاکستانی کے دل میں عقیدت واحترام موجود ہے ۔سیاسی جماعتیں سیاسی ماحول کو اس قدر تلخ اور جارحانہ مت بنائیں کہ واپسی کا راستہ نہ بچے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔